ایک دن صوبے کی سب سے بڑی عدالت میں
(خصوصی رپورٹ)
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
چےئرمین ہیومن رائٹس فرنٹ انٹرنیشنل
میری اِس تحریر کا مقصد صرف اور صرف عوام کی آگاہی ہے۔اِس ساری تحریر کا مقصد عدالتِ حضور کی کسی طور بھی بھی کوئی عزت میں کمی نہیں ہے۔ میری تحریر کا مقصد صرف نظام کی خرابیوں کو نمایا ں کرنا ہے۔ آئیے عدالت کا وقت ہو چکا ہے۔عدالت کی کاروائی کا آغاز قران مجید کی تلاوت سے کیا گیا ہے ایک عدالتی اہلکار نے قران مجید کی تلاوت کی۔ سب سے سے پہلے رٹ لگی ہوئی ہیں عدالتی اہلکار نے آواز لگائی تو رٹ میں پیش ہونے والا سائل شکل و صورت سے انتہائی غریب دیکھائی دیتا ہے اِس کے پاؤں میں جوتی ٹوٹی ہوئی ہے۔انتہائی میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس یہ شخص برسوں کا بیمار دیکھائی دیتا ہے۔ سائل کے وکیل نے عرض کی کہ جناب اِس کی بیوی کو فلاں شخص نے اغوا کر لیا ہے اور پولیس بھی اُس نے اپنے ساتھ ملائی ہوئی ہے۔ جناب والا اِس شخص کی بیوی کو برآمد کروایا جائے۔جج صاحب نے آرڈر کیا کہ متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو کہ وہ اِس کی بیوی کو برآمد کرواکر عدالت میں پیش کرئے اور ایک ہفتے کی تاریخ مقرر فرما دی۔سائل ایک ہفتے کے انتظار میں سولی پر لٹکنے کے لیے تیار تھا۔اِسی طرح ایک اور کیس کے لیے آواز دی تو سائلہ نے رٹ دائر کی تھی کہ جناب میرئے شوہر نے بچے چھین لیے ہیں مجھے وہ بچے بازیاب کرواکر دئیے جائیں اِس رٹ میں بھی جج صاحب نے متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو آرڈر کیا کہ بچے بازیاب کرکے عدالت میں پیش کیے جائیں۔سائلہ جس نے یہ رٹ دائر کی تھی وہ کسی کے گھر کام کرتی تھی اور غربت اُس کے چہرئے پر منحوس سائے کی طرح موجود تھی عدالت نے دو ہفتے کی تاریخ مقرر فرمادی۔بعد ازاں ایک اور کیس میں جو سائل پیش ہوا وہ کوئی مزدور تھا جس نے کہا کہ اُس کے مالک نے اُس کو اغوا کروادیا تھا اور چھ ماہ کی تنخواہ بھی نہیں دی۔ عدالتِ حضور نے متعلقہ ایس ایچ او کو حکم دیا کہ وہ تفتیش کرئے اور مقدمہ درج کرکے تفتیش سے آگاہ کرئے اِس کیس کی بھی تین ہفتے کی تاریخ پڑ گئی اِس کیس میں سائل دیکھنے میں عام سا دیہاتی دیکھائی دیتا تھا اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اُس نے کئی روز سے کچھ کھایا پیا بھی نہیں اور کپڑئے اُس کے ایسے تھے جیسے کسی مزار کی چادر سے بنائے گئے ہوں۔اِسی طرح قتل کے کیس میں ضمانت کے لیے درخواست لگی تو ایک انتہائی بزرگ سفید داڑھی کے ساتھ غربت و عُسر ت کی تصویر بنے عدالت میں موجود تھا۔ اِس کا بیٹا جو کہ مزدوری کرتا تھا وہ کسی قتل کے کیس میں جیل میں تھا۔ عدالت نے متعلقہ ایس ایچ او کو ریکارڈ سمیت طلب کرلیا اور تیں ہفتے بعد کی تاریخ مقرر فرمادی۔متذکرہ بالا عدالتی کاروائی کا حال اِس بات کی غمازی کرتا ہے کہ (1) مقدمہ بازی میں سب سے زیادہ لوگ جو پڑئے ہوئے ہیں وہ انتہائی غریب ہیں (2) دوسری بہت بڑی وجہ جو دیکھنے میں آتی ہے وہ ہے تعلیمی پسماندگی ) (3 دین پر ایمان صرف زبانی کلامی ، عمل نام کی کوئی شے نہیں (4) نتیجاتاً معاشرئے کا سماجی معاشی عمرانی نفسیاتی رویہ انتہائی ہوس زدہ۔مجھے کریمنل کورٹ میں امیر تو دور کی بات وسط درجے کے سائل بھی نظر نہیں آئے۔ معاشرئے میں تعلیم کی کمی بہت بڑا ظلم ہے اِس لیے ملک کے دانشور طبقے کو چاہیے کہ وپ حکمرانوں کو باور کروائیں کہ تعلیم عام کرنے سے معاشرہ بہت بہتر ہوسکتا ہے ورنہ آبادی کے پھیلاؤ سے غربت میں بہت تیزی سے مزید اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور امن امان کی صورتحال کا بہتر نہ ہونا۔ چوری ڈاکے لوٹ مار، اِن سب کے پیچھے ایک محرک بہت اہم جو ہے وہ توتعلیم کا نہ ہونا ہے۔اور محرکات بھی ہوسکتے ہیں اور ہیں لیکن تعلیم بہت ضروری ہے۔
No comments:
Post a Comment