Saturday, 11 June 2016

شہید پاکستان ڈاکٹر سرفرا نعیمی شھیدؒ .............. صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ


 شہید پاکستان ڈاکٹر سرفرا نعیمی شھیدؒ 

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

پاکستان اور پاکستان سے باہر جامعہ نعیمیہ کو اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید نے اپنی شہادت سے چند روز قبل جامعہ نعیمیہ میں اپنے ایک خطبے میں ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید نے ایک دہشتگرد مسلک کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا۔ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی ناظم اعلی جامعہ نعیمیہ و تنظیم المدارس پاکستان نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ آج پاکستان میں چند انتہاء پسند دہشت گرد اپنی شریعت نافذ کر رہے ہیں، اولیا اللہ کے مزاروں، درباروں اور مشائخ کو شہید کرنے کے بعد بے حرمتی کی جا رہی ہے، یہ اہلسنت سواد اعظم کی غلطی ہے کہ سنی کے نام پر دھوکہ دینے والے تکفیری، خارجی گروہ کی روک تھام نہیں کی ہم نے مزارات کو مالی مفادات کا ذریعہ بنا رکھا ہے اگر نظریاتی کام کرتے تو ایسی صورتحال پیش نہ آتی۔ ہر سنی عالم دین کام کرنا شروع کر دے تو ہم پھر اس ملک میں سواد اعظم بن سکتے ہیں۔سانحہ جامعہ نعیمیہ وطن عزیز میں تکفیری دہشت گردی کے سلسلے کی ایک کڑی ہے جب 12جون2009بروز جمعہ کو نماز جمعہ کے فورا بعد جامعہ نعیمیہ میں ایک انتہا پسند خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑ ا دیاجس کے نتیجے میں جامعہ نعیمیہ کے سربراہ اور ملک عزیز کی معروف مذہبی، دینی اور سیاسی شخصیت ڈاکٹر مفتی سرفراز نعیمی سمیت پانچ قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں۔ ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب انتہائی صلح جو، معتدل المزاج اورمتوازن شخصیت کے مالک تھے، آپ اختلافی مسائل میں شدت پسندی کی بجائے رواداری اور اعتدال پسندی کے قائل وفاعل تھے، انہوں نے مملکت خدادا د پاکستان میں جاری طالبان کی دہشت گردی کی مخالفت میں 21جماعتوں پر مشتمل ایک اتحاد تشکیل دیا تھا.جس پر ان کو قتل کی دھمکیاں بھی مل رہی تھیں۔ عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ اگر اہم دینی شخصیت ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی کے اہم معاملے پر مٹی ڈال دی گئی ہے تو ہمار ے حکومتی ادارے عام لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہونگے۔ مسئلہ صرف ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے قاتلوں کو پکڑنے کا نہیں، بلکہ اسلام کے نام پر بدمعاشی کرنے والے اس ٹولے انکے فکری سرپرستوں کو بے نقاب کرنیکا ہے۔ دہشتگردی کے زور پر اسلام کی تعبیر کا حق قبول کر لیا تو پھر اسلام کی شکل کیا بن کر رہ جائے گی۔ بندوق کے زور پر مرضی کا اسلام مسلط کرنے والے یہ گروہ خوارج کا تسلسل ہیں، ان کو پنپنے کا موقعہ دینا اسلام کے خوبصورت چہرے کو مسخ کرنے اور قوم کو تباہی سے دوچار کرنے کے مترادف ہے ۔لوگو! جہاد اور فساد میں فرق ہوتا ہے۔ صحابہ نے جو کیا وہ جہاد تھا۔ اور جو کچھ ایک عرصہ پہلے ہوتا رہا اور جوکچھ لوگ آج صحابہ کے نام پر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ جہاد نہیں فساد ہے۔ڈاکٹر مفتی سرفراز نعیمی،مفتی محمد حسین نعیمی کے بیٹے تھے۔ جامعہ نعیمیہ گڑھی شاہو لاہور ان کی زیر نگرانی و سرپرستی میں چلتا رہا۔ جامعہ نعیمیہ مفتی صاحب کے بیٹے علامہ راغب حسین نعیمی کی سر پرستی میں اپنا علمی مشن جاری رکھے ہوئے ہے۔ آج تک ڈاکٹر مفتی سرفراز نعیمی کے قاتلوں کو کٹہرے میں نہ لایا جا سکا۔ مفتی محمد حسین نعیمی اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید، موجودہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے قریبی دوست تھے۔ برطانوی اخبار ’دی ٹائمز‘ کو انٹرویو میں انہوں نے طالبان کو اسلام کے نام پر ایک دھبہ قرار دیتے ہوئے حکومت کی جانب سے انہیں تباہ کرنے کی ہر کوشش کی حمایت کا اعلان بھی کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ ’پاکستان کو بچائیں گے‘۔ مرحوم لال مسجد کے مہتم غازی عبدالرشید کی مخالفت کرنے والے علماء میں بھی شامل رہے اور ساتھ ساتھ وہ امریکی و سعودی پالیسیوں کے بھی ناقد تھے۔پچپن سالہ ڈاکٹر سرفراز نعیمی پاکستان میں اہلِ سنت والجماعت کے تقریباً چھ ہزار مدارس کی تنظیم کے گزشتہ دس برس سے ناظم اعلٰی تھے۔ وہ اپنے والد علامہ مفتی محمد نعیمی کے انتقال کے بعد جامعہ نعیمیہ کے مہتمم بن گئے تھے۔ اس مدرسے میں اس وقت چودہ سو کے قریب طلبہ زیر تعلیم ہیں اور اس کی پانچ شاخیں بھی ہیں۔ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ انہیں کی طرف سے کافی عرصے سے دھمکیاں مل رہی تھیں جنہیں جمعہ کو عملی جامہ پہنا دیا گیا۔ مرحوم نے سوگواران میں ایک بیٹا اور پانچ بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ڈاکٹر سرفراز نعیمی نے ابتدائی تعلیم اسی مدرسے نعیمیہ میں ہی حاصل کی جہاں انہیں دھماکے میں ہلاک کیا گیا۔ بعد ازاں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے معروف اسلامی درس گاہ جامعہ الازہر مصر سے بھی ایک کورس کر رکھا تھا۔مفتی پاکستان مفتی منیب الرحمان مرحوم ڈاکٹر سرفراز کے قریبی ساتھی رہے ہیں۔ ان کے مطابق مرحوم کی قائدانہ صلاحیتیوں اور ان کی حق گوئی ان کے دشمنوں کو قبول نہیں تھیں لہذا انہیں قتل کیا گیا۔مفتی منیب کے مطابق ’مرحوم سادہ مزاج، سادہ لباس اور سادہ وضع قطع کے انسان تھے۔ وہ موٹر سائیکل پر بھی گھومتے پھرتے تھے اور پروٹوکول میں یقین نہیں رکھتے تھے‘۔راقم سے اکثر اُن کی ملاقات رہتی ۔ اللہ پاک اُن کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین 


Wednesday, 11 May 2016

Class Discrimination In Our Society, written by Sahaibzada Mian Ashraf Asmi Advocate High court


Class Discrimination In Our Society


Sahaibzada Mian Ashraf Asmi
Advocate High court
  While writing this article, i don’t, think that , we may  say our people as society or community, it is a crowed of the people, Mr. Muhammad Ali Jinnah, father of nation tried to unite the people, but as Pakistan came into existence , his early death spoiled all the determination and the nation was caught by  so called greedy leader. As evident from the present scenario that our people have acute discrimination in every segment of the society, there is no rule of law, there is nothing harmony among the masses, there is no respect for religion of each other, even gradually we have lost the status of respect which has been given by our religion to our parents. So we have not only lost the moral values of our society as well as we have no fear of ALLAH. Every Muslim at least bow before ALLAH five times a day, but in fact, practically , there is nothing, People of whole country are divided on the basis of cast creed , language. Then where is unity, Society means what collective efforts are being carried by the masses of the country. when we look the conditions of the people of the southern Punjab, there is high level of class discrimination, there is low productivity, there is lesser resources for employment, the infrastructure facilities for the people of south Punjab can be seen, in the sad event of the Laeyea where around forty  person has been died , because of the poisoned sweets. It is reported in the media, who  rush for hospital did not come alive, but those people , did not go for treatment  in the hospitals , they are alive, the Punjab government often determined in the media, that there is not a single no go area in the Punjab, but whole country has seen "CHOTOO GANG" proved the capabilities of our civil administration. Punjab Law  Minister , Rna Sanaullah , now should resign for  his    portfolio , as being a opener batsman of the chief minister of the Punjab, he has proved his sickness.
.....................................................................
Writer is practicing Lawyer & author of research based book “RULE OF LAW”


Saturday, 16 April 2016

پاکستان فلاح پارٹی....................... صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ٍٍ



پاکستان فلاح پارٹی



صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ٍٍ 
پاکستان کی موجود صورتحال سب کے سامنے ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام نے ملک کی غریب عوام کو نچوڑ لیا ہے۔ سابق فوجی جرنیلوں وڈیروں جاگیر داروں کی شکل میں سیاسی روپ دھارئے معاشرئے کا یہ طبقہ آکٹوپسی کی طرح وطن کو جکڑئے ہوئے ہے۔انجمن طلبہ ء اسلام اور مصطفائی تحریک کے عظیم تر مشن سے وابستہ افراد کی یہ سیاسی جماعت یقینی طور پر کرپشن کو بنیادوں سے ختم کرنے کے لیے میدان عمل میں اُتری ہے۔ رسول پاکﷺ کی محبت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنانے والی پاکستان فلاح پارٹی کا قیام گو کہ کافی تاخیر سے ہوا ہے ۔ انجمن طلبہ ء اسلام سے وابستہ افراد گذشتہ سنتالیس سالوں سے انجمن سے فراغت کے بعد سیاست کے لیے دیگر جماعتوں میں جاتے رہے۔اور معاشرئے میں اہم حثیت کے حامل ہیں۔ لیکن اقتدار کی غلام گردشوں میں نظریاتی لوگ بھی جاکر اطیواللہ و اطیوالرسول کے حوالے سے تگ و تاز میں کامیاب نہ ہوئے وجہ اُن کے سیاسی لیدڑ تو نظریہ کی بجائے صرف بادشاہت کے لیے اقتدار میں آتے ہیں۔ یوں نصف صدی کے قریب ہونے کوآیا ہے کہ انجمن طلبہ ء اسلام سے فراغت اختیار کرنے کے بعد نظریاتی افراد کبھی پی ایم ایل ن ، کھبی پی پی پی ، جے یو پی، پی ٹی آئی میں رہے۔نظام مصطفے پارٹی بھی بنی لیکن فعالیت اختیار نہیں کر سکی۔یوں گھر سے مکتب تک اور مکتب سے معاشرئے تک کے انجمن طلبہ ء اسلام کے مشن کے لیے جو افرادی قوت تھی اُس کو بہتر سیاسی رہنمائی میسر نہ آسکی اور لوگ بکھرتے رہے۔ حتیٰ کہ مایوسیوں نے گھر کر لیا۔انجمن طلبہ اسلام سے وابستہ طاہر القادری جحاجی حنیف طیب ، صاحبزادہ فضل کریم ، حامد سعید کاظمی و دیگر احباب اپنے طور پر سیاست کرتے رہے لیکن میکرو لیول پر نظریاتی لوگوں کو اُس طرح ایڈجسٹ نہ کر سکے جس طرح کا تقاضا تھا۔جے یو پی میں دھڑا بندی اور تقسیم در تقسیم کے عمل نے بھی انجمن طلبہ اسلام سے وابستگان افراد کو مایوسیوں میں رکھا۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ جے یوپی کا مرکز اور صوبائی اسمبلیوں میں نام لیوا کوئی نہیں۔ حامد سعید کاظمی صاحب نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا وزیر مذہبی امور رہے اور اُن کو ایسی گرداب میں پھنسا دیا گیا کہ میڈیا نے اُن کا ایسا حشر کیا کہ احمد سعید کاظمی ؒ جیسی ہستی کے صاحبزادئے کے ساتھ یہ سلوک اور گرفتاری نے انجمن طلبہ اسلام کے افراد کو مزید مایوس میں ڈال دیا۔ پاکستان فلاح پارٹی کے قیام سے انجمن طلبہ اسلام سے وابستہ افراد کو امید کی ایک نئی کرن نظر آئی ہے کہ سیاسی مزاج کے حامل افراد کو ایک بہتر سیاسی پلیٹ فارم میسر آجائے۔قاضی عتیق الرحمان امانت علی زیب، بدر ظہور چشتی، سید راشد گردیزی جیسے باکمال اور باہمت افراد اِس سیاسی پلیٹ فارم کے لیے تگ و تاز میں ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سال میں کچھ عرصہ دورہ جات کا شیڈول بناکر جناب ڈاکٹر ظفر اقبال نوری پاکستان تشریف لے آیا کریں تاکہ احباب کو موبلائز کیا جاسکے۔پاکستانی خطے کا مزاج ایسا ہے کہ اِس خطے میں سیاسی پارٹی کے لیے ایک نمایاں شخصیت ہونا ضروری ہے۔ حاجی حنیف طیب ، ڈاکٹر ظفر اقبال نوری یہ ایسی شخصیات ہیں جو احباب کو فعال کر سکتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں روحانی انداز پنپ نہیں سکا۔ فکر آخرت رب کریم کا خوف ، زندگی کو عا رضی جاننا ان تصورات کے ہوتے ہوئے تو مسلم سوسائٹی دنیا بھر کے تمام ممالک اور مذاہب کے لوگوں کے لیے نشان راہ ہونی چاہے تھی لیکن افسوس جن قوموں کو ہم کافر کو کہتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کفار نے جنت میں نہیں جانا بلکہ جنت صرف مسلمانوں کے لیے ہے۔ ان کفار کے ممالک میں انسانی حقوق بھی انسانوں کو حاصل ہیں اور پولیس و دیگر محکمہ جات بھی قانون پر عمل پیرا ہیں۔ رشوت کرپشن جو ہماری پولیس کا قومی نشان بن چکا ہے۔ اس نشان کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اسلام جیسے عظیم مذہب پر اس کی روح کے مطابق عمل کرکے معاشرے کو امن و سکون کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے۔ اسی مقصد کے لیے بلا امتیاز قانون سب کے لیے ایک جیسا ہونا چاہے۔ با اثر سے بااثر افراد اگر کسی جرم کا ارتکاب کرتے ہیں تو پھر یہ حکمرانوں کے اوپر ہے کہ وہ ان لوگوں کی پکڑ کریں اور انصاف سب کو بلاامتیاز مہیا کریں۔اگر اللہ کی پکڑ سے بچنا ہے تو پھر ان جرائم پیشہ ،رشوت خور پولیس افسران کو پکڑنا ہو گااور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا ہوگا۔حضرت قائداعظمؒ اور حضرت علامہ اقبال ؒ کے خوابوں کی تکمیل یہ پاکستان کی صرف روح ہی چھلنی نہیں بلکہ اس پاکستان کے جسم کو کو بھی اس طرح نوچا جا رہا ہے جیسے یہ لا وارث ہو۔ 27 رمضان المبارک کی شب وجود میں آنے والی اس سرزمین پاک کو رب تعالیٰ نے قائم رکھنے کے لیے بنایا ہے۔ اس ملک نے ہمیشہ قائم و دائم رہنا ہے۔ اور اس کی جڑیں کھوکھلی کرنے والوں نے آخر جہنم رسید ہونا ہے۔ اگر قانون شکنوں کو قانون کی پکڑ میں نہ لایا گیا تو پھر اللہ کی پکڑ سے پھر کون بچ سکتا ہے۔ حضور نبی کریمﷺ نے انسانیت کا بول بالا فرما دیا ۔ حتیٰ کہ کفار جو آپ ﷺ کے جانی دشمن تھے ان کے ساتھ بھی حسن سلوک کا مظاہرہ فرمایا ۔ ایام جنگ میں خواتین بچوں اور بوڑھوں پر تلوار اٹھانے سے منع فرمایا۔ جانوروں کے ساتھ بھی آپﷺ نے رحم دلی فرمائی ۔ جب نبی کریم ﷺ نے انسانی وقار اور احترام کا ایک مکمل ضابطہ دیا تو پھر 1400 سال سے زائد عرصہ گزرنے بعد بھی مسلم معاشرہ ابھی تک ارتقاء میں ہے۔ یہ ارتقائی سفر مثبت سمت کی بجائے منفی رجحان کی طرف گامزن ہے۔ عراق، ایران ، مصر ، عرب ممالک شام، لیبیا ، ترکی ، پاکستان ان تمام ممالک میں عوام کے ساتھ بے رحمانہ سلوک ہوتا ہے۔ آمریتیں جہاں جہاں اپنے قدم جمائے ہوئی ہیں وہاں وہاں کے حکمران لوگوں کی قسمت کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ انسانیت کی قدر کی تعلیم دینے والی مسلمان قوم اب عملی شکل میں انسانیت کی قدر دان کیوں نہیں ہے۔ پاکستان فلاح پارتی جیسی نظریاتی سوچ کی حامل سیاسی جماعت کی معاشرئے میں نفوس پزیری ہونی چاہیے۔

Tuesday, 12 April 2016

وکلاء میں جسٹس(ر) افتخار چوہدری کی سیاسی پارٹی کی پزیرائی؟.................. صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ


وکلاء میں جسٹس(ر) افتخار چوہدری کی سیاسی پارٹی کی

 پزیرائی؟
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ

پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسی شخصیت بھی ہیں جنہوں نے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔آمریت کے دور میں جناب مشرف سے ایسی غلطی سرزد ہوئی کہ وہی اُن کے زوال کا باعث بن گئی۔اللہ پاک نے ہاتھی والوں کو بھی ننھے سے پرندؤں کے ہاتھوں بربدا کروایا تھا۔اِسی طرح افتخار چوہدری کے خلاف جنرل مشرف نے جو راستہ اختیار کیا وہ اُن کو لے ڈوبا۔ افتخار چوہدری کی قوت وکلاء تھے وکلاء انصاف کے اعلیٰ ترین ایون کی بالا دستی کے لیے میدان عمل میں آئے ۔ وکلاء نے جانیں قربان کیں۔معاشی نقصان اُٹھائے۔ لیکن ڈٹے رہے۔ افتخار چوہدری صاحب بحال ہوئے۔ یہ الگ بات ہے کہ اتنے فعال چیف جستس ہونے کے باوجود ماتحت عدلیہ کی حالت کو درست کرنے کے حوالے سے کو راست قدم نہ اُٹھا سکے۔ یہ درست ہے حکومتیں اُن کیساتھ تعاون نہیں کرتی رہیں۔اب جناب افتخار چوہدری نے ایک سیاسی پارٹی بنائی ہے۔پاکستانی سیاست کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اِن حالات میں چوہدری صاحب کے لیے دُعا ہے کہ وہ ثابت قدم رہیں۔چوہدری صاحب نے موجود حالات پر جو باتیں کی ہیں وہاُن کی زبانی ہی سنتے ہیں۔سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ آئندہ کوئی بھی جرنیل ملک میں مارشل لاء لگانے کی جرات نہیں کر سکتا اور نہ ہی اعلی عدلیہ کا کوئی بھی جج پی سی او کے تحت حلف اٹھائے گا۔ پرویز مشرف کو بیرون ملک باہر بھیجنے کی ذمہ دار عدلیہ نہیں نواز شریف حکومت ہے۔ تین نومبر 2007 کو ملک میں مارشل لاء کے خلاف مزاحمت کی جس کے نتیجے میں ایک جمہوری حکومت نے اپنی مدت پوری کی اوراب دوسری جمہوری حکومت مدت پوری کر رہی ہے، اس اقدام سے ملک میں آئین کا بول بالا اور ایک مائنڈ سیٹ تبدیل ہوتے نظر آ گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا فیصلہ چار رکنی بنچ نے دیاتھا ان کے ساتھ ہمارا کوئی ذاتی عناد نہیں ہے تاہم ذاتی تعلقات ہیں ایک دوسرے کے خاندان کا احترام کا رشتہ موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2013 کے جنرل الیکشن میں نواز شریف کا ساتھ دینے کا تاثر غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ محض مفروضہ ہے،الیکشن میں دھاندلی کے حوالے سے کسی قسم کا ہاتھ نہیں ہو سکتا ہے، ملک میں جمہوریت چاہتے ہیں۔ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے حوالے سے کہا کہ یہ مقدمہ فی الحال زیر سماعت ہے، اس پر تبصرہ نہیں کر سکتا۔ انہوں نے سابق صدر پرویز مشرف کو بیرون ملک بھیجنے کی ذمہ دار حکومت کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں ان کو بیرون ملک بھیجنے کے حوالے سے کوئی حکم موجود نہیں۔نجی ٹی و ی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کا کہنا تھا کہ ان کا مشرف کے ساتھ کوئی ذاتی جھگڑا نہیں تھا،بلکہ ریاستی قانون کو اس ملک میں چلناہے یا پھر شخصی قانون کو ؟اس بات پر اختلاف تھا، میں یہ سمجھتاتھا کہ اس ملک میں وقت آ گیاہے کہ ریاستی قوانین کا بول بالا ہوناچاہیے اور شخصی قانون ختم ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ سسٹم کی کے سروائیول کیلئے انہوں نے پی سی او کے تحت حلف لیا،کسی جگہ پر آپ کو اس قسم کافیصلہ کرنا پڑتاہے،اسی فیصلے کی وجہ سے اللہ نے مجھے اور میرے ساتھیوں کو موقع دیا اورملک میں آئین کی بالادستی کا بول بالا کروایا۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ ہم نے مارشل لا ء جسے اس وقت ایمرجنسی پلس کہتے تھے،اس کی مخالفت کی اور اس کے بعد جمہوری حکومت قائم ہوئی اور اب دوسری جمہوری حکومت اپنی مدت پوری کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے مشرف کیخلاف تحریک میں بھر پور ساتھ دیا،عمران خان کو الیکشن میں ہروانے والی بات صرف ایک مفروضہ ہے چیئرمین پی ٹی آئی اس بات کا کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکے۔سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کا کہناتھا کہ وہ نوازشریف کے مشرف کے ساتھ معاہدے کر کے چلے جانے کے سخت خلاف ہیں،جب آپ لیڈر ہیں تو آپ کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ آپ کو کس قسم کے ریاستی جبر کا سامناہے۔ جب ہم نے مشرف کیخلاف تحریک شروع کی تواس وقت پرویز مشرف بہت مضبوط تھاان کے خلاف کوئی کھڑا ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتاتھا،صر ف وکلائمشر ف کے خلاف کھڑے ہوئے اور پھر بعد میں تمام سیاسی جماعتوں نے ہمارا ساتھ دیا۔انہوں نے کہا کہ جب میں اپنی پیشی کیلئے جا رہاتھا تو اس وقت مولانا فضل الرحمان آئے انہوں نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور اپنا تعارف کروایا،جس پر میں نے کہا کہ میں آپ کو جانتاہوں کیونکہ آپ کی کوئٹہ میں حکومت ہوا کرتی تھی اور میں آپ کے لوگوں کو بھی جانتاہوں،اسفند یار ولی کو بھی میں نے کہا کہ میں آپ کو جانتاہوں کہ آپ کے والد صاحب وکالت کرتے تھے۔افتخار چوہدری کا کہناتھا کہ عمران خان نے وکلا تحریک میں اس وقت اپنی بھر پور طاقت کے حساب سے میرا ساتھ دیا ۔عمران خان کو الیکشن میں ہروانے اور نوازشریف کو جتوانے کی باتیں صر ف ایک مفروضہ ہے،آج تک عمران خان اس بات کو ثابت نہیں کر سکیں ہیں، چیف جسٹس اس ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرنا چاہتاہوتو ایسے کسی کام میں اس کا ہاتھ کیسے ہو سکتاہے۔انہوں نے کہا کہ دھاندلی کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنایا گیا جس میں عمران خان نے دنیا جہان کے ثبوت پیش کیے لیکن وہ میرے خلاف کوئی ثبوت نہیں پیش کر سکے۔افتخار چوہدری کا کہناتھا کہ ہماری پارٹی عام آدمی کی پارٹی ہے اس لیے ہمیں پیسوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ لوگ خود پیسے دیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان کے کوئی اثاثے نہیں ہیں پینشن آتی ہے اور اچھا گزارہ ہو جاتاہے،اگر میں نے آف شو ر کمپنی بنائی ہوتی تو میں کرائے کے گھر میں نہیں رہتا۔میرا ایک گھر لاہور میں زیر تعمیر ہے،میں عاجز سا بندہ ہوں،سب کی عزت کرتاہوں۔جناب چوہدری صاحب کی موجود گفتگو کے حوالے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ وہ میدان سیاست میں کچھ کر دکھانے کے لیے آئے ہیں اور ہر کسی کا حق ہے۔سیاست میں جو حالات ہین وہ جناب چوہدری صاحب کو بخوبی پتہ ہیں۔ لیکن اُن کی سیاسی جماعت کی وکلا میں پزیرائی کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ وکلاء اِس حوالے سے کوئی خاص پر جوش حالت میں نہیں ہیں۔ چوہدری صاحب اِس جانب توجہ فرمائیں۔ 

Saturday, 26 March 2016

بھارتی جاسوسی نیٹ ورک اور پاکستانی لسانی سیاسی جماعت ............... ashraf asmi about Raw "s intervention in Pakistanarticle by صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ



بھارتی جاسوسی نیٹ ورک اور پاکستانی لسانی سیاسی جماعت

صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ 
بھارت کی سازشیں ہر روز بے نقاب ہو رہی ہیں۔ جب سے جنگ عضب پاک فوج نے شروع کی تب سے بھارت کی دُم پر پاؤں آگیا اور اِس کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کے حوالے سے وہ کچھ سننے کو مل رہا ہے جس کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ پاکستانی وزیر اعظم کو قتل کرنے کامنصوبہ بنانے والی راہ، پاکستان کے اندر دہشت گردی کی فضا پیدا کرنے والی راہ۔ملک کو سماجی اور معاشی طور پر اندھے کنویں میں پھینکنے والی راہ۔اتنے بڑئے افسر کا بلوچستان میں کاروائیوں میں مصروف ہونا اِس بات کی دلالت ہے کہ بھارت کے دن گنے چُنے جا چکے ہیں۔راہ کا پاکستان کے خلاف کھلم کھلا وار کرنا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔پاکستان کے خلاف گھنانی سازش ناکام بنا دی گئی۔ حساس اداروں نے خفیہ معلومات پر بلوچستان میں کارروائی کر کے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ایجنٹ بھارتی نیول کمانڈر کو گرفتار کر لیا۔ کل بھوشن یادیو بھارتی نیوی میں کمانڈر رینک کا افسر ہے۔ گرفتار ’’را‘‘ کے ایجنٹ کو خصوصی طیارے کے ذریعے اسلام آباد منتقل کیا ہے۔ اِس لیے اب پاکستانی حکومت اور فوج اور خفیہ اداروں کو پاکستان کی سلامتی کے حوالے سے بہت سے اہم فیصلے کرنا ہوں گیا۔ اب آتے ہیں ایم کیو ایم کے ایک سابق لیڈر کے انکشافات۔
یم کیو ایم کے لندن کے سابق رہنما ارشد صدیقی نے کہا ہے کہ ’’را‘‘ نہیں چاہتی کہ پاکستان کے حالات ٹھیک ہوں،بھارت کے علاوہ سعودی عرب بھی ایم کیو ایم کو فنڈنگ کرتا ہے،ایم کیوایم کے کارکنو ں کو بھارت بجھوانے پر الطاف حسین سے اختلاف ہوا،محمد انور متحدہ کے کارکنو ں کو بھارت ٹریننگ کے لئے بجھواتا تھا،بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ الطاف حسین سے پاک آرمی کے خلاف تقریریں کرواتی تھی،میں ایم کیو ایم کے سارے کالے کرتوتوں کا چشم دید گواہ ہوں حکومت پاکستان مجھے بلائے میں تمام ثبوت مہیا کرؤنگا۔ ایم کیو ایم لندن کے سابق رہنما ارشد صدیقی کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے لوگوں کو بھارت کے فوری ویزے مل جاتے تھے،پاکستان ن کے حالات خراب کرنے میں متحدہ کا بڑا ہاتھ ہے،یہ لوگ بھارت کے لئے کام کرتے تھے،ہم نظریاتی لوگ ہیں،ہماری بات نہیں سنی جاتی تھی،نظریاتی کارکنوں کو خوف ہے کہ اگر ہم الطاف حسین سے الگ ہوئے تو انہیں مار دیا جائے گا،وہ ڈر کے مارئے آواز نہیں اٹھاتے،برطانیہ سے میرے ساتھ 400افراد مصطفے کمال کے ساتھ شامل ہوں گے۔ارشد صدیقی کا کہنا تھا کہ ایم کیوایم میں ڈاکٹر عمران فاروق کی بھی کوئی بات نہیں سنتا تھا،وہ کارکنوں کے انڈیا جانے کے خلاف تھے اور اکثر کہتے تھے کہ متحدہ میں کوئی انکی نہیں سنتا،فنڈز کے غلط استعمال پر بھی ڈاکٹر عمران فاروق کے الطاف حسین سے اختلافات تھے،ایم کیوایم قائد نے میرے سامنے ڈاکٹر عمران فاروق کو ’’لمبی چھٹی‘‘ پر بھیجنے کا کہا،جسے مارنا ہوتا وہ ’’یہی کورڈ ورڈ‘‘ استعمال کرتے تھے،میں نے عمران فاروق کو کہا کہ آپ لمبی چھٹی پر جارہے ہیں انہوں نے کہاکہ میں ایم کیو ایم کو ساتھ لیکر جاؤنگا۔ارشد صدیقی کا کہنا تھا کہ پارٹی فنڈز سے ایم کیو ایم کے رہنما جوا کھیلتے تھے،غریب پارٹی کا لیڈر لندن میں 8ملین پارؤنڈ کے گھر میں رہتاہے،ایم کیو ایم رہنماؤں کی بیرون ملک گیارہ ملین پاؤنڈ کی جائیدادیں ہیں،35سال سے سنیماؤں میں ایم کیو ایم کی لگی فلم 2016میں اتر جائیگی،برطانوی حکومت کے پاس متحدہ کیخلاف تمام ثبوت ہیں،ساؤتھ افریقہ، سعودی،عرب،لندن اور بیشمار ملکوں سے چندہ آتا تھا،بھارت سے فنڈنگ کے متعلق معلوم ہوا تو میں نے انور سے پوچھا یہ کیو ںآرہی ہے اسکے بعد انہوں نے دبئی میں کمپنی کھولی اس کے ذریعے پیسے آتے جاتے تھے،ہم نے بھارت سے آنے والے پیسے پر کافی شور مچایا، سکاٹ لینڈ یارڈ میں بھارت میں سے آنیوالے پیسوں کے ثبوت موجود ہیں،لندن آفس اور الطاف حسین کے گھروں سے پیسہ نکلا ہے یہ یو کے اور پاکستان گورنمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ تحقیقات کرے، اگر پاکستان ثبوت چاہتا ہے تو میں پاکستان آنے کیلئے تیار ہوں۔انہوں نے کہا کہ رابطہ کمیٹی کے لوگ فنڈز سے جوئے کھلتے ہیں، ندیم نصرت کی آمدنی کیا ہے؟ مصطفے عزیز آبادی کی آمدنی نہیں ہے، انھیں پیسے کہاں سے آتے ہیں؟پارٹی فنڈز سے ویلفئیر کے کام کئے جاتے ہیں،جوئے اور شراب کے لئے نہیں۔ لندن میں ایم کیو ایم کی گیارہ پراپرٹییز ہیں محمد انور نے کرائے پر پراپرٹی دی ہوئی ہے انکو کسی غریب کارکن کا خیال نہیں،مصطفے کمال کے ساتھ انکے خلاف آوازاٹھائیں گے۔مصطفے کمال اور انیس خاکوانی سے بہت پہلے نبیل گبول کی جانب سے ایم کیوایم کو خیر باد کہہ دیا گیاتھا۔ بچپن میں عمران سیریز کے ناول پڑھا کرتے تھے۔ بالکل انگریزی جاسوسی فلموں کی طرز پر ایم کیو ایم کی جانب سے کراچی کھلواڑ میں کیا گیا۔ نبیل گبول کی جانب سے یہ بیان کہ ایم کیو ایم کی جانب سے میرئے لیے کوڈ نام آلو تھا۔ اور میرئے لیے یہ آرڈر جاری ہوچکا تھا کہ آلو کو کاٹ دو۔ عامر خان اور آفاق احمد کے بعد ایم کیو ایم میں بہت عرصے بعد اتنے وسیع پیمانے پر انخلا ہورہا ہے۔ جناب الطاف حسین کی صحت کے حوالے سے بھی جو خبریں گردش میں ہیں اُس سے بھی اِس امر کو تقویت ملتی ہے کہ گورنر عشرت العباد کی جانب سے لمبے عرصے تک گورنری کرنے بعد اب اسٹبلشمنٹ کے پاس ایک انتہائی تجربہ کار شخص پروان چڑھ چکا ہے۔ اِسی لے امید واثق ہے کہ گورنر عشرت العباد نے بارہا الطاف حسین کے کہنے کے بادجود گورنری نہیں چھوڑی بلکہ وہ خاموش رہے ہیں۔ اِس سے یہ بات طے ہے کہ الطاف حسین کی جانب سے بوری بند لاشوں کے جو انبار لگے تھے وہ سلسلہ اب انشا اللہ رُکنے کو ہے۔ را کے ساتھ ایم کیو ایم کے تعلقات کے حوالے سے تو میڈیا کئی دہائیوں سے شور مچا رہا ہے ۔ لیکن اِس حوالے سے کوئی ٹھوس قدم نہیں اُٹھایا گیا۔ گویا دنیا کی بڑی طاقتیں ایم کیو ایم کے ذریعہ سے پاکستانی ریاست کو خوف کے عالم میں رکھنا چاہتی رہی ہیں اور اِس کام میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی رہی ہیں۔ ایم کیو ایم کے خلاف نصیر اللہ بابر نے آپریشن کیا تھا۔ لیکن مشرف نے اپنی کرسی کی مضبوطی کے لیے ایم کیوایم کی جانب سے ہر فعل پر آنکھیں بند کیے رکھیں بلکہ چیف جسٹس کے خلاف کراچی میں ایم کیو ایم کو استعمال کیا گیا اور کراچی میں افتخار چوہدری کی آمد کو روکنے کے لیے وکلاء کو قتل کیا گیا۔ اُس رات مشرف نے اسلام آباد میں مُکا لہرا کر بیان دیا تھا کہ ہاں ہم نے کراچی میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔ جب مشرف ایم کیو ایم کے ذریعے سے اپنی طاقت کا استعمال کر رہے تھے تو طاقت کا سرچشمہ اللہ پاک بھی دیکھ رہا تھا اور قدرت نے اپنا انتقام بھی لینا تھا۔ کہ کالے کوٹ والے جن کے ہاتھ میں کوئی اسلحہ نہیں بلکہ کتاب ہوتی ہے اُن کی تحریک نے تاریخ کے بدترین آمر کو رخصت کر دیا بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جاء نہ ہوگا کہ مشرف کا حشر کردیا گیا۔تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی۔ جس طرح ہاتھوں والوں کو ابابیل جیسے ننھے پرندئے کے ہاتھو ں نشانِ عبرت بنا دیا گیا تھا۔ اِسی طرح میڈیا اور وکلاء نے ہر طرح کی قربانی دئے کر ملک سے مشرف آمریت کو چلتا کیا۔بات ایم کیو ایم کی ہو رہی تھی مشرف تک پہنچ گئی ۔ مشرف نے ایم کیو ایم کو اپنے لیے اِس طرح استعمال کیا جس طرح اُس نے گجرات کے چوہدریوں کو بطور اُٹھائی گیر رسہ گیر اور لٹیرئے کے طور پر استعمال کیا۔ گجرات کے چوہدری رواداری کی حد تک تو بہتر تصور کیے جاتے ہیں۔ لیکن زرداری اور بے نظیر کے خلاف پرویز الہی کے بیانات تو اپنی جگہ پرویز الہی نے خود کے لیے زردار دور میں نایب وزیر اعظم کا عہدہ پیدا کرو الیا۔ یوں شجاہت کو مشرف نے وزیر اعظم چالیس دنوں کے لیے بنوایا اور پرویز الہی زرداری کے کندھوں پر بیٹھ کر ناہب وزیر اعظم کے پروٹوکول کے مزئے لیتے رہے۔ مشرف دور میں ایم کیو ایم ، جماعت اسلامی ، مولانا فضل الرحمان ور گجرات کے چوہدریوں کے طفیل بدترین آمریت قائم رہی ۔ پاکستانی سیاست کے نشیب و فراز عجب صورت حال سے دو چار رہتے ہیں۔ نشیب و فراز تو خود دو چار ہونے کا ہی نام ہے لیکن ہمارئے ہاں بے چارہ نشیب وفراز بھی بے چارگی سے دو چار ہے۔ مصطفے کمال کی جانب سے ایف آئی ائے کو تعاون کی پیش کش۔ سرفراز مرچنٹ کی جانب سے را سے فنڈنگ لینے کے ایم کیو ایم کے معاملے میں گواہی دینے کی جانب آمادگی۔حکومت کی جانب سے مصطفے کمال کے حوالے سے نرم رویہ یہ سب کچھ اِس بات کی غمازی ہے کہ کراچی میں اب انشااللہ حالات درست ہونا ہی ہیں۔اِسی لیے رب پاک نے مصطفے کمال کو بھیجا ہے۔ امید ہے کہ مصطفےٰ کمال اپنے نام کی لاج رکھیں گے۔ پنجاب سے مصطفے کمال کی پارٹی میں شریک ہونے والی کی بہت بڑی تعداد ہوگی۔ جو لوگ فوج کو امن و امان کی وجہ سے سپورٹ کر رہے ہیں۔ وہ بھی مصطفے کمال کو سپورٹ کریں گے۔ نبیل گبول جیسے سیاستدان نے جس کی بات کی ہے کہ اُن کے متعلق بھی آرڈر ہوچکا تھا۔ کہ آلو کو کاٹ دو۔ اللہ پاک کرئے کہ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں کراچی میں امن قائم ہوجائے۔ اب ایم کیو ایم سے منحرف ہونے والے مصطفے کمال کے ساتھ دیگر بہت اہم رہنماؤں کا مل جانا یقینی طور پر ایک اہم پیش رفت ہے۔جنگ عضب کے آخری مرحلے میں پاک فوج یقینی طور پر بھارتی ایجنسی راہ اور ملک دُمن عناصر کا قلع قمع کرنے کی تیاری میں ہے۔ انشا اللہ بھارت کے خود اپنے ٹوٹنے کا وقت قریب ہے۔ 

Sunday, 28 February 2016

(ہڑتال ( افسانہ) ........................................................................ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی







(ہڑتال ( افسانہ)
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

مجھے آج پھر اُس کی کال موصول ہوئی کہ وہ بہت تکلیف میں ہے اُس کا خاوند جو بالکل قلاش ہے اوروہ اُسے اور اُس کے بچوں کو دو وقت کی روٹی نہیں دئے پارہا ہے۔ بچوں کو سکول سے اُٹھوا لیا گیا ہے۔ گھر میں فاقے ہیں۔ وہ اپنا شوہر سے طلاق چاہتی تھی ۔میں نے اُسے تسلی دی کہ وہ صبر کرئے۔ اُس نے کہا ٹھیک ہے لیکن بچوں کو پھر کھانے کے لیے کیا دوں۔پھر ایک دن وہ اپنے دونوں بچوں کے ساتھ مجھے ملنے پہنچ گئی ۔اُس کی حالت دیکھ کر مجھے ایسے لگا جیسے وہ انتہائی کسمپرسی کے عالم میں بھی اپنا بھرم رکھے ہوئے ہے۔انتہائی شستہ لہجہ اُسکا لباس ایسا تھا جیسے جوان لڑکی نے فرعون دور کی ممی کا لباس زیب تن کر رکھا ہو۔بچوں نے انتہائی شکستہ حال جوتے پہن رکھے تھے۔میں نے اُس کو صبر کرنے کا مشورہ دیا اور اُس نے مجھے بتایا کہ اُسکے شوہر کا ایک پلاٹ ڈیفنس میں ہے جس پر قبضہ گروپ قابض ہے۔ اِس کا کچھ کردیں۔ میں نے اُسے کہا کہ ٹھیک ہے میں سول کورٹ میں کیس کردیتا ہوں۔دن گزرتے گئے ایک دن پھر اُس کا فون مجھے آیا کہ میرئے بچے کئی دنوں سے بھوکے ہیں خاوند بھی گھر نہیں آرہا ہے۔وہ غربت کے ڈر سے گھر نہیں آرہا تھا۔نشہ پانی کہیں اپنے دوستوں کے ساتھ کر رہا ہوگا۔مجھے وہ کہنے لگی کہ آپ کچھ کریں ہمارا پلاٹ مل جائے تاکہ اُسکا شوہر کوئی کام کر سکے۔میں نے اُسے تسلی دی کہ کیس عدالت میں ہے اور پچھلے چند دنوں سے ہڑتال ہے عدالتی کام ٹھپ ہے۔اُس نے فون بے چارگی کے عالم میں بند کر دیا۔میرئے کلرک نے کہا کہ جی یہ تو کوئی فیس تو دیتی نہیں تو ہم قبضہ گروپ کے خلاف کیسے لڑیں گے۔ میں نے کلرک کو کہا کہ وہ تو روٹی سے عاری ہے ۔ہمیں کہاں سے فیس دے گی۔ایک دن پھر اُسکا فون آیا کہنے لگی میں مال روڈ پہ آئی ہوئی ہوں آپ کے دفتر آرہی ہوں۔ میں آفس نہیں تھا سو وہ آکر چلی گئی۔ مجھے اُس کا ایس ایم ایس آیا کہ وہ آفس میں ہے میں نے کہا کہ میں آفس سے دور ہوں اِس لیے نہ آپاؤں گا۔یوں وقت گزرتا جارہا تھا۔ پھر ایک دن اُس کا فون آگیا کہ وہ بہت پریشان ہے اور بیمار ہے دوا دارو لینا اُس کے بس میں نہیں رہا۔میرئے کیس کا کیا بناء ہے میں نے اُسے بتایا کہ قانون کی بالادستی کے حق میں تین دن سے ہڑتال ہے اور عدالتوں میں کام نہیں ہورہا ہے۔کافی ہفتے گزر گئے اُس کا فون نہ آیا۔ ایک دن ڈاک کے ذریعہ سے ایک خط موصول ہوا جو کہ اُسی میری کلائنٹ کی جانب سے تھا۔ اُس نے لکھا تھا کہ میں بھوک غربت بیماری سے تنگ آگئی ہوں مجھے پلاٹ کا قبضہ بھی نہیں مل رہا اگر مل جاتا تو اُسے بیچ کر ہم گزر بسر کرتے۔مزید لکھا تھا کہ وکیل صاحب آپکی عدالتوں میں تو انصاف کی ہڑتالیں چل رہی ہیں جس وقت آپ کو میرا خط ملے گا میں اِس دنیا میں نہیں ہوں گی میں اپنے بچوں سے سمیت زندگی کے خلاف ہڑتال پر جارہی ہوں۔خط پڑھتے ہی میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ اِسی اثناء میں میرئے فون کی گھنٹی بجی دوسری طرف سے میرا کلرک سول کورٹ سے بول رہا تھا کہ سر آج ہڑتا ل ہے آپ سول کورٹ نہ آئیے گا۔ ٍ

article about women Protection Bill passed by Punjab Assembly recently. by ashraf asmi advocate


Thursday, 21 January 2016

بھارتی ایجنسی را کاپٹھان کوٹ ائیر بیس سے باچا خان یونیورسٹی چارسدہ تک شیطانی کھیل ............صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ






بھارتی ایجنسی را کاپٹھان کوٹ ائیر بیس سے باچا خان 
یونیورسٹی چارسدہ تک شیطانی کھیل
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ

باچا خان یونیورسٹی میں جو خونی ڈرامہ رچایا گیا۔ اِس حوالے سے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی را نے پٹھانکوٹ کے ائیر بیس پر حملے کی ہزمیت جو اُسے اُٹھانا پڑی اُس کا بدلہ معصوموں کا لہو بہا کر لینے کی کوشش کی ہے۔بھارت نے پہلے دن سے ہی پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا۔یوں پاکستانیوں کی زندگی کے چراغ گُل کرنا اُس کے لیے ثواب کا کام ہے۔ ہندوستان میں بسنے والے مسلمان بھی شودر سی زندگی گزار رہے ہیں۔اللہ پاک نعرہ تکبیر بلند رکھنے والی پاک فوج کا نگہبان ہے کہ پاک فوج نے ضرب عضب کے ذریعے پاکستان میں بھارت اور بھارتی و امریکی ایجنٹوں کا قلع قمع کیا ہے۔چین کی جانب سے پاکستان میں معاشی راہداری کے لیے کیے جانے والے اقدامات نے درحقیقت بھارت اور امریکہ کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔اِس لیے بھارت نے پہلے خود ڈرامہ رچایا اور پٹھانکوٹ پہ قتل و ٖغارت خود کرکے پاکستان کو موردِالزام ٹھرایا۔اب خود پاکستان پہ اپنے نام نہاد ایجنٹوں سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔ امریکی صدارتی امیدوار اور سبق وزیر خارجہ خود اقرار کر چکی ہیں کہ داعش پینٹاگان کی پیدا کردہ ہے ۔ اور اُس کا مقصد خلیجی مسلمان ممالک کو تہہ و بالا کرنا ہے۔چین کے ساتھ بھارت اور امریکہ کی مخاصمت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔پاکستان کا معاشی طور پر مستحکم ہونا کسی طور متزکرہ بالا ہر دو ممالک کے لیے سوہان روح ہے ۔ مزید یہ کہ پاکستانی آرمی چیف اور وزیر اعظم کی جانب سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان امن ڈپلومیسی نے بھی مسلمانوں کے دشمنوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ اِس لیے چارسدہ کی یونیورسٹی میں را ایجنسی نے جو ڈرامہ کیا۔اُس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ جب بھی نام نہاد دانشور اپنی عقل کے گھو ڑے دوڑانے کے بعد تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں اور اُن کے سامنے کوئی اور مسلہء نہیں ہوتا تو یہ کاغذی شیر اور لبرل فاشسٹ پاک فوج کے خلاف زبان درازی شروع کردیتے ہیں۔زندگی کسے پیاری نہیں ہوتی یہ پیاری زندگی اربوں روپے سے خریدی نہیں جاسکتی۔ ڈالر زندگی کا نعم البدل نہیں ہیں۔صرف چند ساعتوں کے لیے غور کرنے سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ پاکستان کے مشرق میں جو ہمسایہ موجود ہے یہ وہ ہمسایہ ہے جو کہ اکھنڈ بھارت کا پرچار کرنے والا ہے اور بھارت کی تقسیم کو ہنوز پاپ یعنی گناہ گردانتا ہے۔ ان حا لات میں جب کشمیر لہو لہو ہے۔ سات لاکھ سے زائد ہندوستانی فوج نہتے کشمیریوں سے برسرپیکار ہے تو پوری قوم نے دیکھ لیا ہے کہ امن کی آشا کسی طرح بھی اپنا رنگ جمانے میں برُی طرح ناکام رہی ہے۔۔ثقافتی معاذ پر جس طرح سے بھارت نے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور پاکستانی چینل جس دھڑلے سے ہندوستانی سوچ کو پروان چڑھانے کی کوششں میں ہیں اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں لباس میں مشرقی اور اسلامی رنگ ناپید دیکھائی دے رہا ہے۔ ہمارے پاکستانی چینلز کو تو اپنے کاروبار سے غرض ہے قوم کی سوچ ، ثقافتی بربادی اور اسلامی اقدار سے دوری کا ان کو کیا لینا دینا۔ ان حالات میں پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی کا کردار محبِ وطن اور اسلام پسند طبقے کے لیے قابلِ طمانیت ہے۔ لیکن بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے کرپٹ عناصر جو خود تو ناکام ہیں اور قوم ان سیاسی حکومتوں کی کارکردگی سے اچھی طرح واقف ہے۔کہ پاکستانی قوم افراطِ زر کی چکی میں کس بُری طرح پیس رہے ہیں۔ اس کامطلب یہ نہیں کہ ملک میں فوجی مارشل لاء ہونا چاہیے بلکہ پاک فوج کا کام وطن پاک کی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے اور بس۔ سیاست میں پاک فوج کا کوئی کردار نہیں ہے۔ اگر کوئی بھی طالع آزما ء کوئی بھی بھی منفی قدم اُٹھاتا ہے تو فوج بحثیت ایک ادارہ اُس کی ذمہ دار نہیں ہے ایسا ایکٹ ایک شخص کا ذاتی ایکٹ تصور ہوگا نہ کہ پوری فوج کے پیچھے پڑ کے اُس کا مورال منفی جانب لے جایا جائے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ نام نہاد سیکولر دانشور طبقہ جو خود اور ملکوں کی قومیت کا حامل بھی ہے وہ پاکستانی آرمی اور آئی ایس آئی کے خلاف زبان درازی کرتا ہے۔ یہ امر اس ملک کے بسنے والے 99% افراد کے لیے تکلیف کا باعث ہے کہ وطن فروشی کے حاملین ہماری پاک فوج کو اس طرح ڈسکس کریں جیسے کہ وہ کسی اور ملک کا ادارہ ہے۔ اگر کوئی آمر آئین کو پا مال کرتا ہے تو اُس کو ایک فرد کی حثیت سے ملکی قانون کے مطابق عبرت کا نشان بنادینا چاہیے لیکن پرویز مشرف جیسے ڈکٹیڑوں کے اعمال کی پاک آرمی جواب دہ نہیں ہے۔ یہ ایک ادارہ ہے اور اس نے ہمیشہ پاک وطن کی آبیاری اپنے لہو سے کی ہے یہ ملک گارئے اور مٹی سے نہیں بلکہ ان پاک فوج کے شہداء کے لہو سے قائم دائم ہے اس کی مٹی میں راجہ عزیز بھٹی، سرور شھید، راشد منہاس جسے عظیم شہداء کا خون ہیں اور اُس کے ساتھ ساتھ ایسے ہزاروں جانباز ہیں جن کے ناموں کو شائد قوم نہیں جانتی لیکن وہ بھی مادر وطن کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔ ۔ خدانخواستہ اگر وطن پر کوئی کڑا وقت آیا تو یہ اشرافیہ اور لبرل طبقہ تو پہلے ہی دوہری دوہری قومیتوں کا حامل ہے اس نے تو اپنے غیر ملکی آقاوٗں کی خدمت میں پیش ہوجانا ہے وطن کا دفاع اسی پاک آرمی اور 99% عام لوگوں نے کرنا ہے جن کا ٹھکانہ اس وطن کے سوا کہیں اور نہیں۔ مووجودہ حالات میں نفوس پذیری کے حامل طبقے جن میں اساتذہ ، طلبہ، وکلاء، ڈاکٹرز اور سول سوسائٹی کے ارکان شامل ہیں کو آگے بڑھ کر وطن سے محبت کے جذبے کو پروان چڑھانا چاہیے۔اشرافیہ اور لبرل فاشسٹ کے اہل وعیال تو پہلے ہی دوسرے ممالک میں تعلیم اور شاپنگ کی غرض سے دورروں پر رہتے ہیں۔ اس وطن کے لیے یہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ پڑی جو ضرورت تو ہم دیں گے لہو کا تیل چراغوں میں جلانے کے لیے۔ لیکن ایک بات ہمیشہ پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ جس طرح ہمارے ملک کی اشرافیہ نے ملکی وسائل کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ عوام کو مہنگائی کی چکی میں ایسے چکر دیے ہیں کہ خدا کہ پناہ۔ بیروزگاری کی حالت یہ ہے کہ ایم بی اے، ایم ایس سی، بی کام جیسی پیشہ ورانہ ڈگریوں کے حامل افراد خون کے آنسو رو رہے ہیں۔لیکن ایک بات ہمیشہ ملحوظ خاطر رکی جانی چاہیے کہ پاکستانی فوج کے مورال کو ہمیشہ بلند رکھنا چاہیے۔ پاک فوج جس طرح عیار دُشمن کے ساتھ برسر پیکار ہے پاکستان میں رائے عامہ کے افراد کو پاک فوج کے حوالے سے منفی تبصرے کرنے والے نام نہاد جعلی دانشوروں کوُ منہ توڑ جواب دینا چاہیے۔ راقم کی جانب سے پاک آرمی کو سلام۔ پاک آڑمی نے جس طرح دہشت گردی کو ختم کرنے کی ٹھانی ہوئے ہے ۔ جس طرح آرمی پبلک سکول پر حملہ آور ظالموں کو آرمی کی طرف سے کیفر کردار تک پہنچایا گیا اِسی طرح جناب راحیل شریف باچا خان یونیورسٹی کے شہدا کے لہو کے پاس رکھیں گے۔ اللہ پاک پاک فوج کو ہمیشہ سلمات رکھے۔ پٹھانکوٹ سے لے کر باچا خان یونیورسٹی تک جس طرح بھاری ایجنسی را نے کھیل کھیلا ہے اور پاکستان کی امن کی کوششوں کو زہر آلود کیا ہے۔ پوری قوم کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ بھارت کے عزائم کیا ہیں۔ 
ُ ٓپاکستان زندہ باد۔ پاک فوج زندہ آباد