Sunday, 28 February 2016

(ہڑتال ( افسانہ) ........................................................................ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی







(ہڑتال ( افسانہ)
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی

مجھے آج پھر اُس کی کال موصول ہوئی کہ وہ بہت تکلیف میں ہے اُس کا خاوند جو بالکل قلاش ہے اوروہ اُسے اور اُس کے بچوں کو دو وقت کی روٹی نہیں دئے پارہا ہے۔ بچوں کو سکول سے اُٹھوا لیا گیا ہے۔ گھر میں فاقے ہیں۔ وہ اپنا شوہر سے طلاق چاہتی تھی ۔میں نے اُسے تسلی دی کہ وہ صبر کرئے۔ اُس نے کہا ٹھیک ہے لیکن بچوں کو پھر کھانے کے لیے کیا دوں۔پھر ایک دن وہ اپنے دونوں بچوں کے ساتھ مجھے ملنے پہنچ گئی ۔اُس کی حالت دیکھ کر مجھے ایسے لگا جیسے وہ انتہائی کسمپرسی کے عالم میں بھی اپنا بھرم رکھے ہوئے ہے۔انتہائی شستہ لہجہ اُسکا لباس ایسا تھا جیسے جوان لڑکی نے فرعون دور کی ممی کا لباس زیب تن کر رکھا ہو۔بچوں نے انتہائی شکستہ حال جوتے پہن رکھے تھے۔میں نے اُس کو صبر کرنے کا مشورہ دیا اور اُس نے مجھے بتایا کہ اُسکے شوہر کا ایک پلاٹ ڈیفنس میں ہے جس پر قبضہ گروپ قابض ہے۔ اِس کا کچھ کردیں۔ میں نے اُسے کہا کہ ٹھیک ہے میں سول کورٹ میں کیس کردیتا ہوں۔دن گزرتے گئے ایک دن پھر اُس کا فون مجھے آیا کہ میرئے بچے کئی دنوں سے بھوکے ہیں خاوند بھی گھر نہیں آرہا ہے۔وہ غربت کے ڈر سے گھر نہیں آرہا تھا۔نشہ پانی کہیں اپنے دوستوں کے ساتھ کر رہا ہوگا۔مجھے وہ کہنے لگی کہ آپ کچھ کریں ہمارا پلاٹ مل جائے تاکہ اُسکا شوہر کوئی کام کر سکے۔میں نے اُسے تسلی دی کہ کیس عدالت میں ہے اور پچھلے چند دنوں سے ہڑتال ہے عدالتی کام ٹھپ ہے۔اُس نے فون بے چارگی کے عالم میں بند کر دیا۔میرئے کلرک نے کہا کہ جی یہ تو کوئی فیس تو دیتی نہیں تو ہم قبضہ گروپ کے خلاف کیسے لڑیں گے۔ میں نے کلرک کو کہا کہ وہ تو روٹی سے عاری ہے ۔ہمیں کہاں سے فیس دے گی۔ایک دن پھر اُسکا فون آیا کہنے لگی میں مال روڈ پہ آئی ہوئی ہوں آپ کے دفتر آرہی ہوں۔ میں آفس نہیں تھا سو وہ آکر چلی گئی۔ مجھے اُس کا ایس ایم ایس آیا کہ وہ آفس میں ہے میں نے کہا کہ میں آفس سے دور ہوں اِس لیے نہ آپاؤں گا۔یوں وقت گزرتا جارہا تھا۔ پھر ایک دن اُس کا فون آگیا کہ وہ بہت پریشان ہے اور بیمار ہے دوا دارو لینا اُس کے بس میں نہیں رہا۔میرئے کیس کا کیا بناء ہے میں نے اُسے بتایا کہ قانون کی بالادستی کے حق میں تین دن سے ہڑتال ہے اور عدالتوں میں کام نہیں ہورہا ہے۔کافی ہفتے گزر گئے اُس کا فون نہ آیا۔ ایک دن ڈاک کے ذریعہ سے ایک خط موصول ہوا جو کہ اُسی میری کلائنٹ کی جانب سے تھا۔ اُس نے لکھا تھا کہ میں بھوک غربت بیماری سے تنگ آگئی ہوں مجھے پلاٹ کا قبضہ بھی نہیں مل رہا اگر مل جاتا تو اُسے بیچ کر ہم گزر بسر کرتے۔مزید لکھا تھا کہ وکیل صاحب آپکی عدالتوں میں تو انصاف کی ہڑتالیں چل رہی ہیں جس وقت آپ کو میرا خط ملے گا میں اِس دنیا میں نہیں ہوں گی میں اپنے بچوں سے سمیت زندگی کے خلاف ہڑتال پر جارہی ہوں۔خط پڑھتے ہی میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ اِسی اثناء میں میرئے فون کی گھنٹی بجی دوسری طرف سے میرا کلرک سول کورٹ سے بول رہا تھا کہ سر آج ہڑتا ل ہے آپ سول کورٹ نہ آئیے گا۔ ٍ

article about women Protection Bill passed by Punjab Assembly recently. by ashraf asmi advocate