Monday, 18 April 2016
Saturday, 16 April 2016
پاکستان فلاح پارٹی....................... صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ٍٍ
پاکستان فلاح پارٹی
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ٍٍ
پاکستان کی موجود صورتحال سب کے سامنے ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام نے ملک کی غریب عوام کو نچوڑ لیا ہے۔ سابق فوجی جرنیلوں وڈیروں جاگیر داروں کی شکل میں سیاسی روپ دھارئے معاشرئے کا یہ طبقہ آکٹوپسی کی طرح وطن کو جکڑئے ہوئے ہے۔انجمن طلبہ ء اسلام اور مصطفائی تحریک کے عظیم تر مشن سے وابستہ افراد کی یہ سیاسی جماعت یقینی طور پر کرپشن کو بنیادوں سے ختم کرنے کے لیے میدان عمل میں اُتری ہے۔ رسول پاکﷺ کی محبت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنانے والی پاکستان فلاح پارٹی کا قیام گو کہ کافی تاخیر سے ہوا ہے ۔ انجمن طلبہ ء اسلام سے وابستہ افراد گذشتہ سنتالیس سالوں سے انجمن سے فراغت کے بعد سیاست کے لیے دیگر جماعتوں میں جاتے رہے۔اور معاشرئے میں اہم حثیت کے حامل ہیں۔ لیکن اقتدار کی غلام گردشوں میں نظریاتی لوگ بھی جاکر اطیواللہ و اطیوالرسول کے حوالے سے تگ و تاز میں کامیاب نہ ہوئے وجہ اُن کے سیاسی لیدڑ تو نظریہ کی بجائے صرف بادشاہت کے لیے اقتدار میں آتے ہیں۔ یوں نصف صدی کے قریب ہونے کوآیا ہے کہ انجمن طلبہ ء اسلام سے فراغت اختیار کرنے کے بعد نظریاتی افراد کبھی پی ایم ایل ن ، کھبی پی پی پی ، جے یو پی، پی ٹی آئی میں رہے۔نظام مصطفے پارٹی بھی بنی لیکن فعالیت اختیار نہیں کر سکی۔یوں گھر سے مکتب تک اور مکتب سے معاشرئے تک کے انجمن طلبہ ء اسلام کے مشن کے لیے جو افرادی قوت تھی اُس کو بہتر سیاسی رہنمائی میسر نہ آسکی اور لوگ بکھرتے رہے۔ حتیٰ کہ مایوسیوں نے گھر کر لیا۔انجمن طلبہ اسلام سے وابستہ طاہر القادری جحاجی حنیف طیب ، صاحبزادہ فضل کریم ، حامد سعید کاظمی و دیگر احباب اپنے طور پر سیاست کرتے رہے لیکن میکرو لیول پر نظریاتی لوگوں کو اُس طرح ایڈجسٹ نہ کر سکے جس طرح کا تقاضا تھا۔جے یو پی میں دھڑا بندی اور تقسیم در تقسیم کے عمل نے بھی انجمن طلبہ اسلام سے وابستگان افراد کو مایوسیوں میں رکھا۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ جے یوپی کا مرکز اور صوبائی اسمبلیوں میں نام لیوا کوئی نہیں۔ حامد سعید کاظمی صاحب نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا وزیر مذہبی امور رہے اور اُن کو ایسی گرداب میں پھنسا دیا گیا کہ میڈیا نے اُن کا ایسا حشر کیا کہ احمد سعید کاظمی ؒ جیسی ہستی کے صاحبزادئے کے ساتھ یہ سلوک اور گرفتاری نے انجمن طلبہ اسلام کے افراد کو مزید مایوس میں ڈال دیا۔ پاکستان فلاح پارٹی کے قیام سے انجمن طلبہ اسلام سے وابستہ افراد کو امید کی ایک نئی کرن نظر آئی ہے کہ سیاسی مزاج کے حامل افراد کو ایک بہتر سیاسی پلیٹ فارم میسر آجائے۔قاضی عتیق الرحمان امانت علی زیب، بدر ظہور چشتی، سید راشد گردیزی جیسے باکمال اور باہمت افراد اِس سیاسی پلیٹ فارم کے لیے تگ و تاز میں ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سال میں کچھ عرصہ دورہ جات کا شیڈول بناکر جناب ڈاکٹر ظفر اقبال نوری پاکستان تشریف لے آیا کریں تاکہ احباب کو موبلائز کیا جاسکے۔پاکستانی خطے کا مزاج ایسا ہے کہ اِس خطے میں سیاسی پارٹی کے لیے ایک نمایاں شخصیت ہونا ضروری ہے۔ حاجی حنیف طیب ، ڈاکٹر ظفر اقبال نوری یہ ایسی شخصیات ہیں جو احباب کو فعال کر سکتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں روحانی انداز پنپ نہیں سکا۔ فکر آخرت رب کریم کا خوف ، زندگی کو عا رضی جاننا ان تصورات کے ہوتے ہوئے تو مسلم سوسائٹی دنیا بھر کے تمام ممالک اور مذاہب کے لوگوں کے لیے نشان راہ ہونی چاہے تھی لیکن افسوس جن قوموں کو ہم کافر کو کہتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کفار نے جنت میں نہیں جانا بلکہ جنت صرف مسلمانوں کے لیے ہے۔ ان کفار کے ممالک میں انسانی حقوق بھی انسانوں کو حاصل ہیں اور پولیس و دیگر محکمہ جات بھی قانون پر عمل پیرا ہیں۔ رشوت کرپشن جو ہماری پولیس کا قومی نشان بن چکا ہے۔ اس نشان کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اسلام جیسے عظیم مذہب پر اس کی روح کے مطابق عمل کرکے معاشرے کو امن و سکون کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے۔ اسی مقصد کے لیے بلا امتیاز قانون سب کے لیے ایک جیسا ہونا چاہے۔ با اثر سے بااثر افراد اگر کسی جرم کا ارتکاب کرتے ہیں تو پھر یہ حکمرانوں کے اوپر ہے کہ وہ ان لوگوں کی پکڑ کریں اور انصاف سب کو بلاامتیاز مہیا کریں۔اگر اللہ کی پکڑ سے بچنا ہے تو پھر ان جرائم پیشہ ،رشوت خور پولیس افسران کو پکڑنا ہو گااور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا ہوگا۔حضرت قائداعظمؒ اور حضرت علامہ اقبال ؒ کے خوابوں کی تکمیل یہ پاکستان کی صرف روح ہی چھلنی نہیں بلکہ اس پاکستان کے جسم کو کو بھی اس طرح نوچا جا رہا ہے جیسے یہ لا وارث ہو۔ 27 رمضان المبارک کی شب وجود میں آنے والی اس سرزمین پاک کو رب تعالیٰ نے قائم رکھنے کے لیے بنایا ہے۔ اس ملک نے ہمیشہ قائم و دائم رہنا ہے۔ اور اس کی جڑیں کھوکھلی کرنے والوں نے آخر جہنم رسید ہونا ہے۔ اگر قانون شکنوں کو قانون کی پکڑ میں نہ لایا گیا تو پھر اللہ کی پکڑ سے پھر کون بچ سکتا ہے۔ حضور نبی کریمﷺ نے انسانیت کا بول بالا فرما دیا ۔ حتیٰ کہ کفار جو آپ ﷺ کے جانی دشمن تھے ان کے ساتھ بھی حسن سلوک کا مظاہرہ فرمایا ۔ ایام جنگ میں خواتین بچوں اور بوڑھوں پر تلوار اٹھانے سے منع فرمایا۔ جانوروں کے ساتھ بھی آپﷺ نے رحم دلی فرمائی ۔ جب نبی کریم ﷺ نے انسانی وقار اور احترام کا ایک مکمل ضابطہ دیا تو پھر 1400 سال سے زائد عرصہ گزرنے بعد بھی مسلم معاشرہ ابھی تک ارتقاء میں ہے۔ یہ ارتقائی سفر مثبت سمت کی بجائے منفی رجحان کی طرف گامزن ہے۔ عراق، ایران ، مصر ، عرب ممالک شام، لیبیا ، ترکی ، پاکستان ان تمام ممالک میں عوام کے ساتھ بے رحمانہ سلوک ہوتا ہے۔ آمریتیں جہاں جہاں اپنے قدم جمائے ہوئی ہیں وہاں وہاں کے حکمران لوگوں کی قسمت کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ انسانیت کی قدر کی تعلیم دینے والی مسلمان قوم اب عملی شکل میں انسانیت کی قدر دان کیوں نہیں ہے۔ پاکستان فلاح پارتی جیسی نظریاتی سوچ کی حامل سیاسی جماعت کی معاشرئے میں نفوس پزیری ہونی چاہیے۔
Tuesday, 12 April 2016
وکلاء میں جسٹس(ر) افتخار چوہدری کی سیاسی پارٹی کی پزیرائی؟.................. صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ
وکلاء میں جسٹس(ر) افتخار چوہدری کی سیاسی پارٹی کی
پزیرائی؟
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ
پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسی شخصیت بھی ہیں جنہوں نے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔آمریت کے دور میں جناب مشرف سے ایسی غلطی سرزد ہوئی کہ وہی اُن کے زوال کا باعث بن گئی۔اللہ پاک نے ہاتھی والوں کو بھی ننھے سے پرندؤں کے ہاتھوں بربدا کروایا تھا۔اِسی طرح افتخار چوہدری کے خلاف جنرل مشرف نے جو راستہ اختیار کیا وہ اُن کو لے ڈوبا۔ افتخار چوہدری کی قوت وکلاء تھے وکلاء انصاف کے اعلیٰ ترین ایون کی بالا دستی کے لیے میدان عمل میں آئے ۔ وکلاء نے جانیں قربان کیں۔معاشی نقصان اُٹھائے۔ لیکن ڈٹے رہے۔ افتخار چوہدری صاحب بحال ہوئے۔ یہ الگ بات ہے کہ اتنے فعال چیف جستس ہونے کے باوجود ماتحت عدلیہ کی حالت کو درست کرنے کے حوالے سے کو راست قدم نہ اُٹھا سکے۔ یہ درست ہے حکومتیں اُن کیساتھ تعاون نہیں کرتی رہیں۔اب جناب افتخار چوہدری نے ایک سیاسی پارٹی بنائی ہے۔پاکستانی سیاست کا جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ اِن حالات میں چوہدری صاحب کے لیے دُعا ہے کہ وہ ثابت قدم رہیں۔چوہدری صاحب نے موجود حالات پر جو باتیں کی ہیں وہاُن کی زبانی ہی سنتے ہیں۔سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ آئندہ کوئی بھی جرنیل ملک میں مارشل لاء لگانے کی جرات نہیں کر سکتا اور نہ ہی اعلی عدلیہ کا کوئی بھی جج پی سی او کے تحت حلف اٹھائے گا۔ پرویز مشرف کو بیرون ملک باہر بھیجنے کی ذمہ دار عدلیہ نہیں نواز شریف حکومت ہے۔ تین نومبر 2007 کو ملک میں مارشل لاء کے خلاف مزاحمت کی جس کے نتیجے میں ایک جمہوری حکومت نے اپنی مدت پوری کی اوراب دوسری جمہوری حکومت مدت پوری کر رہی ہے، اس اقدام سے ملک میں آئین کا بول بالا اور ایک مائنڈ سیٹ تبدیل ہوتے نظر آ گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا فیصلہ چار رکنی بنچ نے دیاتھا ان کے ساتھ ہمارا کوئی ذاتی عناد نہیں ہے تاہم ذاتی تعلقات ہیں ایک دوسرے کے خاندان کا احترام کا رشتہ موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2013 کے جنرل الیکشن میں نواز شریف کا ساتھ دینے کا تاثر غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ محض مفروضہ ہے،الیکشن میں دھاندلی کے حوالے سے کسی قسم کا ہاتھ نہیں ہو سکتا ہے، ملک میں جمہوریت چاہتے ہیں۔ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے حوالے سے کہا کہ یہ مقدمہ فی الحال زیر سماعت ہے، اس پر تبصرہ نہیں کر سکتا۔ انہوں نے سابق صدر پرویز مشرف کو بیرون ملک بھیجنے کی ذمہ دار حکومت کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں ان کو بیرون ملک بھیجنے کے حوالے سے کوئی حکم موجود نہیں۔نجی ٹی و ی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کا کہنا تھا کہ ان کا مشرف کے ساتھ کوئی ذاتی جھگڑا نہیں تھا،بلکہ ریاستی قانون کو اس ملک میں چلناہے یا پھر شخصی قانون کو ؟اس بات پر اختلاف تھا، میں یہ سمجھتاتھا کہ اس ملک میں وقت آ گیاہے کہ ریاستی قوانین کا بول بالا ہوناچاہیے اور شخصی قانون ختم ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ سسٹم کی کے سروائیول کیلئے انہوں نے پی سی او کے تحت حلف لیا،کسی جگہ پر آپ کو اس قسم کافیصلہ کرنا پڑتاہے،اسی فیصلے کی وجہ سے اللہ نے مجھے اور میرے ساتھیوں کو موقع دیا اورملک میں آئین کی بالادستی کا بول بالا کروایا۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا کہ ہم نے مارشل لا ء جسے اس وقت ایمرجنسی پلس کہتے تھے،اس کی مخالفت کی اور اس کے بعد جمہوری حکومت قائم ہوئی اور اب دوسری جمہوری حکومت اپنی مدت پوری کر رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے مشرف کیخلاف تحریک میں بھر پور ساتھ دیا،عمران خان کو الیکشن میں ہروانے والی بات صرف ایک مفروضہ ہے چیئرمین پی ٹی آئی اس بات کا کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکے۔سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کا کہناتھا کہ وہ نوازشریف کے مشرف کے ساتھ معاہدے کر کے چلے جانے کے سخت خلاف ہیں،جب آپ لیڈر ہیں تو آپ کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ آپ کو کس قسم کے ریاستی جبر کا سامناہے۔ جب ہم نے مشرف کیخلاف تحریک شروع کی تواس وقت پرویز مشرف بہت مضبوط تھاان کے خلاف کوئی کھڑا ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتاتھا،صر ف وکلائمشر ف کے خلاف کھڑے ہوئے اور پھر بعد میں تمام سیاسی جماعتوں نے ہمارا ساتھ دیا۔انہوں نے کہا کہ جب میں اپنی پیشی کیلئے جا رہاتھا تو اس وقت مولانا فضل الرحمان آئے انہوں نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور اپنا تعارف کروایا،جس پر میں نے کہا کہ میں آپ کو جانتاہوں کیونکہ آپ کی کوئٹہ میں حکومت ہوا کرتی تھی اور میں آپ کے لوگوں کو بھی جانتاہوں،اسفند یار ولی کو بھی میں نے کہا کہ میں آپ کو جانتاہوں کہ آپ کے والد صاحب وکالت کرتے تھے۔افتخار چوہدری کا کہناتھا کہ عمران خان نے وکلا تحریک میں اس وقت اپنی بھر پور طاقت کے حساب سے میرا ساتھ دیا ۔عمران خان کو الیکشن میں ہروانے اور نوازشریف کو جتوانے کی باتیں صر ف ایک مفروضہ ہے،آج تک عمران خان اس بات کو ثابت نہیں کر سکیں ہیں، چیف جسٹس اس ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرنا چاہتاہوتو ایسے کسی کام میں اس کا ہاتھ کیسے ہو سکتاہے۔انہوں نے کہا کہ دھاندلی کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنایا گیا جس میں عمران خان نے دنیا جہان کے ثبوت پیش کیے لیکن وہ میرے خلاف کوئی ثبوت نہیں پیش کر سکے۔افتخار چوہدری کا کہناتھا کہ ہماری پارٹی عام آدمی کی پارٹی ہے اس لیے ہمیں پیسوں کی ضرورت نہیں ہے بلکہ لوگ خود پیسے دیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان کے کوئی اثاثے نہیں ہیں پینشن آتی ہے اور اچھا گزارہ ہو جاتاہے،اگر میں نے آف شو ر کمپنی بنائی ہوتی تو میں کرائے کے گھر میں نہیں رہتا۔میرا ایک گھر لاہور میں زیر تعمیر ہے،میں عاجز سا بندہ ہوں،سب کی عزت کرتاہوں۔جناب چوہدری صاحب کی موجود گفتگو کے حوالے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ وہ میدان سیاست میں کچھ کر دکھانے کے لیے آئے ہیں اور ہر کسی کا حق ہے۔سیاست میں جو حالات ہین وہ جناب چوہدری صاحب کو بخوبی پتہ ہیں۔ لیکن اُن کی سیاسی جماعت کی وکلا میں پزیرائی کی صورتحال سب کے سامنے ہے۔ وکلاء اِس حوالے سے کوئی خاص پر جوش حالت میں نہیں ہیں۔ چوہدری صاحب اِس جانب توجہ فرمائیں۔
Subscribe to:
Posts (Atom)