Monday, 2 February 2015

امریکہ بھارت گٹھ جوڑ اور خطے کی صورتحال میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ An Article By ashraf Asmi Advocate About Regional Conditions and New Indi US Love Story


امریکہ بھارت گٹھ جوڑ اور خطے کی صورتحال

میاں محمد اشرف عاصمی
ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

نبی پاک ﷺ کا فرمان عالی شان ہے وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے ۔اللہ پاک اپنے کتابِ حکیم میں فرماتا ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ موجودہ حالات میں امن کے فروغ کے لیے عملی اقدامات اُٹھانے کی اتنی زیادہ ضرورت ہے کہ اِس کی ذمہ داری ایک ایک پاکستانی پر عائد ہوتی ہے۔پاکستان کے قیام اور تعمیر میں مسلمانوں کے ساتھ عیسائی، پارسی اقلیت نے بھی اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔26 جنوری 2015کو سینٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ جنرل راحیل شریف نے امریکی انتظامیہ کو پاکستان میں بھارت کی مداخلت کے ناقابلِ تردیدثبوت پیش کیے ہیں اور پاکستان میں نام نہاد طالبان کو مکمل طور پر بھارت کی حمایت حاصل ہے اور انہی حالات میں امریکی صدر بارک اوباما کا دورہ بھارت 25 جنوری2015 کو ہوا ۔ اِس دورئے میں جس انداز میں نریندر موددی یہ تاثر دئے رہا ہے کہ اُس کے امریکہ کے ساتھ بہت گہرے تعلقات ہے اور اِس تاثر کی وجہ سے پاکستانی عوام بے چین دیکھائی دیتی ہے۔بارک اوبامہ نے اپنے اعزاز میں دئیے گے استقبالیہ سے خطاب میں یہ اعلان کیا کہ امریکہ بھارت کو اپنا قابلِ اعتماد گلوبل پارٹنر سمجھتا ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ اوبامہ نے یہ بھی اعلان کردیا کہ امریکہ سلامتی کونسل میں مستقل نشت کے لیے بھارت کی حمایت کرتا ہے۔بات یہاں تک ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ امریکہ نے نیوکلیر ٹیکنالوجی بھارت کو دینے کا بھی اعلان کیا۔ امریکہ بھارت پہ واری ہورہا ہے اور امریکہ صدر نے 26 جنوری 2015 کو یہ بھی نوید بھارتی جنتا کو سُنائی کہ بھار ت کے اندر امریکہ 400 ارب روپے کی سرمایہ کاری کرئے گا۔ پہلی دفعہ کسی امریکی صدر نے بھارت کے یومِ جمہوریہ کے موقع پر تقریب میں شرکت کی۔امریکہ بھارت یہ آغازِ عشق کوئی نیا نہیں ہے بلکہ منموہن سنگھ کے ساتھ بھی سول نیوکلیر ٹیکنالوجی کی فراہمی کی بات کی گئی تھی۔لیکن اب صورتحال مختلف ہے۔امریکہ نے اپنے افغانستان میں مقاصد حاصل کر لیے ہیں وہ مقاصد افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانا اور پاکستان کے اندر دہشت گردی کو ہوا دینا۔ پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ سے تقریباً پچاس ہزار سول آبادی اور پانچ ہزار سے زیادہ فوجی شھید ہو چُکے ہیں۔پاکستانی فوج کا اتنا نقصان ہوا ہے کہ بیان سے باہر ہے ایک سپاہی سے لے کر جنرل تک اِس جنگ میں شھید ہوئے ہیں۔ اور اِس پہ ہی یہ سلسلہ موقوف نہیں بلکہ جی ایچ کیو، واہگہ بارڈر، کراچی میں نیوی یارڈ، پشاور میں آرمی سکول وچرچ لاہور میں ایف ائی اے اور آئی ایس آئی کے مراکز پر حملے۔یہ سب مظالم ڈھانے میں امریکہ اور بھارت نے مل کر سازشیں کی ہیں۔ چین کی جانب سے تجارتی سرگرمیاں عروج پر پہنچ جانے سے امریکی تھانیداری خطرے میں ہے اور امریکہ چین کو روکنے کے لیے بھارت کے ساتھ مل کر ایک ہُوا کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان نے گوادر پورٹ بھی چین کے حوالے کردی ہے یوں گرم پانیوں تک چین کی رسائی نے امریکی انتظامیہ کی نیندیں حرام کر دی ہیں جس وقت نریندر مودی اوباما کو اپنے ہاتھ سے چائے بنا کر پیش کر رہا تھا عین اُسی وقت پاکستانی آرمی چیف چین کے سربراہ سے مل رہا تھا۔چین کا دورہ اِس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستانی قوم نفسیاتی طور پر کبھی بھی بھارت کی برتری کسی بھی حال میں قبول نہیں کرئے گی۔بھارت بہت بڑا ملک ہے اِس کو وسیع القلب ہونے کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا لیکن صد افسوس پاکستان کے اندر ہونے والی تمام تر دہشت گردی کے تانے بانے بھارت کے ساتھ ہی جڑئے ہیں۔ بھارت کے اندر یہ بات راسخ ہے کہ بھارت کی تقسیم بہت بڑا پاپ ہے اِس لیے بھارت پاکستان کو تسلیم نہیں کرتا۔پاکستانی فوج کے اوپر بے شمار ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اِسی لیے جب سول انتظامیہ ملکی معاملات کو کنٹرول نہیں کر پاتی تو پھر چاروناچار فوج کو دخل اندازی کرنا پڑتی ہے۔یوں پھر فوج کا پاکستان کے ہر معاملے میں دخل اندازی دینا یقیناً اچھی بات نہیں لیکن پاکستان کی سٹریٹیجک صورتحال ہی ایسی ہے کہ فوج کو نہ چاہتے ہوئے بھی ملکی معاملات کا بنظرِ غور جائزہ لینا پڑتا ہے۔ یوں پاکستان کے اندر کی صورتحال کافی خراب ہے۔انسانی حقوق کی تنظیمیں اکژ اپنے تحفظات کا اظہار کرتی ہیں لیکن دراصل یہ نقار خانے میں طوطی کی آواز کے مترادف ہے۔ ہمارئے پاکستان میں جب بھی ملک کے خلاف کوئی بڑی محاذ آرائی ہوئی یا ملک کو شدید نقصان پہنچا ہو تو ایسا جب بھی ہوا پاکستان پہ حکومت فوج کی تھی۔ اِس وقت ضرورت اِس امر کی ہے کہ پاکستان میں بسنے والے تمام طبقہ جات مل کر ملک کے خلاف ہونے والی سازشوں کو ناکام بنائیں۔ملک میں قومی یک جہتی کے فروغ کے لیے معاشرے میں نفوذ پزیری کے حامل افراد کو اپنا بھر پور کردار ادا کرنا ہوگا۔اساتذہ، وکلاء، ڈاکٹرز، انسانی حقوق کی تنظیمیں سماجی ورکرز اور سول سوسائٹی کے افراد قوم کو ایک لڑی میں پرونے کے لیے خود کو ایک ہی صف میں کھڑئے کرکے پاکستان کے دُشمنوں کے عزائم خاک میں ملا سکتے ہیں۔نبی پاک ﷺ کا فرمان عالی شان ہے وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے ۔اللہ پاک اپنے کتابِ حکیم میں فرماتا ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقے میں نہ پڑو۔
                                                    ashrafasmi92@gmail.com 

No comments:

Post a Comment