Saturday, 14 March 2015

true story.but name and places has been changed.regards. ashraf asmi advocate,حواکی بیٹی۔ ایک مقدمہ ایک کہانی اشر ف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ کی پیشہ ورانہ زندگی کا سچا واقعہ

حواکی بیٹی۔ ایک مقدمہ ایک کہانی

اشر ف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ کی پیشہ ورانہ زندگی کا سچا واقعہ

جب میں جیل کی سلاخوں کے کے پیچھے کھڑی حوا کی بیٹی سے اُس پر گزرنے والے واقعات سن رہا تھا تو مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ معاشرئے کی بے رحمی کا سلسلہ یہاں تک پہنچ چکا ہے۔اُس نے بتایا کہ اُس کا خاوند نشہ کرتا تھا اور وہ شادی کے پہلے دن سے ہی ایک پیسہ بھی کما کر نہیں لایا۔ اِس لیے جب بھی وہ گھر کے اخراجات کے لیے اُس سے رقم کا تقاضا کرتی تو وہ اُسے مارنا پیٹنا شروع کر دیتا۔ وقت گزرتا گیا دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں گزرتے گئے۔زرتاشہ نے خود محنت مزدور ی شروع کردی تھی وہ ایک فیکٹری میں نوکری کرنے لگی تھی یوں صبح ناشتے کے بعد جاتی اور شام گئے فیکٹری کی بس اُسے مین سڑک پر اُتارتی اور وہ وہاں سے پیدل پندرہ منٹ کا راستہ چلتی گھر پہنچتی۔ اِسی اثناء میں وہ تین بیٹیوں کی ماں بن چکی تھی لیکن اکبر تھا کہ ہر وقت نشے کے لیے بے چین رہتا۔ بری بیٹی جب ساتویں جماعت میں پہنچی تو زرتاشہ کے بالوں میں چاندنی نے جگہ لے لی تھی۔نوکری اور گھر کے تفکرات نے اُسے ایسے بنا ڈالا تھا کہ جیسے وہ برسوں سے بیمار ہو۔ بات بھی کچھ ایسی ہی تھی جب پیدا ہوئی تو ماں باپ دنیا سے جلد اُٹھ گئے۔ دو بھائی تھے اُنھوں نے تھوڑا بہت پڑھایا اور 19 سال کی عمر میں ہی اُسے بیا دیا اور پھر مڑ کر خبر نہ لی۔زرتاشہ کی قسمت ہی کچھ ایسی ٹھنڈی تھی کہ شائد کاتب تقدیر نے ادھوری لکھی تھی بڑی بیٹی کو جوان ہوتے دیکھ کر زرتاشہ کی راتوں کی نیند اُڑ چکی تھی۔جب زرتاشہ مجھے اپنی کہانی سنا رہی تھی تو مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ میں کہیں دور جنگل و بیاباں کا باسی ہوں جہاں انسانیت کی قدر جانوروں سے بھی کم ہے۔ مجھے یہ جان کر شدید جھٹکا لگا جب زرتاشہ نے کہا کہ وکیل صاحب ایک رات اُس کا خاوند ایک اوباش کو گھر لے آیا دونوں نے شراب پی رکھی تھی اُس اوباش نے نشے کی حالت میں میری کلائی پکڑ لی میری تینوں بیٹیاں ڈر کے مارئے رونے لگ گئی لیکن اکبر ایسا بے غیرت تھا کہ وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ میں نے شور مچایا لیکن کوئی محلے دار میری مدد کو نہ آیا کیونکہ سب لوگ عادی ہوچکے تھے کہ اکبر کا کام ہی یہ ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں اور بیوی کو مارتا پیٹتا رہتا ہے۔بس وکیل صاحب اُس دن اپنی بیٹیوں اور نامراد خاوند کے سامنے مجھے اُس اوباش نے اپنی ہوس کا نشانہ بنا ڈالا شائد قدرت کوبھی یہ ظلم دیکھ کر ترس آگیا کہ میں نے صبح سویرئے جس کمرئے میں اکبر اور وہ اوباش سو رہے تھے کہ وہاں تیل چھڑک کر آگ لگا دی ۔ دونوں شراب کے نشے کی حالت میں تھے اِس لیے سیدھا جہنم رسید ہو گئے۔ آگ کے کے شعلے جب بلند ہوئے تو علاقے کے لوگ اُمڈ آئے پویس اور فائر برگیڈ والے پہنچے۔ پولیس نے زرتاشہ کو گرفتار کرلیا۔مقدمہ چلا چونکہ پیروی کرنے والا کوئی نہ تھا زرتاشہ کو ٹرائل کورٹ نے عمر قید سنا دی۔زرتاشہ کے بھائیوں نے پھر بھی اُس کی خبر نہ لی۔اُس کی بیٹیوں کو یتم خانے پہنچا دیا گیا۔ جب زرتاشتہ اپنی ساری درد بھری داستان سنا چکی تو میں نے بوجھل دل کے ساتھ اُس سے وکالت نامے پر دستخط کروائے اور جیل کے اہل کار سے اُس پر مہر لگائی اور واپس اپنے چیمبر آگیا۔لاہور ہائی کورٹ میں اُس کو دی جانے والی سزا کے خلاف اپیل دائر کردی ۔عدالت نے چند تاریخوں کے بعد ہی زرتاشہ کی اپیل منظور کرلی اور اُسے رہائی کا پروانہ مل گیا۔یوں مردوں کے معاشرئے میں مردوں کے ہاتھوں برباد ہونے والی زرتاشہ تین سال جیل میں گزارنے کے بعد رہا ہوگئی اب معاملہ اِس بدنصیب خاندان کی بحالی کا تھا۔ میری اپیل پر چند احباب نے اُن کی اپنے گھر واپسی کو ممکن بنایا اور وہ اپنی بیٹوں کے ساتھ واپس گھر لوٹ گئی اور گھر میں اپنی بڑی بیٹی کے ساتھ کپرئے سینے کا کام کرنے لگی یوں حوا کی بیٹی کے اوپر ہونے والے اُس کے اپنے ہی مرد کے سامنے ظلم نے اِس خاندان کو ایک ایسے کرب میں مبتلا کردیا تھا کہ جب تک زرتاشہ اور اُسکی بیٹیاں زندہ ہیں یہ دکھ اُن کو ڈستا رہے گا۔

No comments:

Post a Comment