Saturday, 20 September 2014

جامعہ کراچی کے ڈاکٹر محمد شکیل اوج قتل روشن فکری کی سزا،BRUTAL MURDER OF DR SHAKEEL OU, ACUTE GRIEF BY ASHRAF ASMI ADVOCATE HIGH COURT, HUMAN RIGHTS ACTIVIST



زندگی کی خوبصورتی سے ڈاکٹر شکیل صاحبؒ کو محروم کرنے کا فعل رب پاک کے کام میں مداخلت ہے ۔
زندگی کو معاشرئے کے لیے وقف کرنا اور پھر انسان کو شرف انسانیت سے ہمکنار کرنے والے عظیم تدریسی مشن کے ساتھ موت تک ساتھ نبھانا۔اقتدار کی غلام گردشوں کی بھول بھلیوں میں گم ہونے والے کراچی کے ناخدا اتنے خوبصورت انسان کو موت کے مُنہ سے نہیں بچا سکے۔ سیرت مصطفے ﷺ کے پرچارکے لیے شب وروز مصروفِ عمل جناب ڈاکٹر شکیل بہت ہی محنتی اُستاد اور زمانے کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے انسان تھے۔ انجمن طلبہء اسلام کے ساتھ وابستہ ایک ایک شخص عشقِ مصطفے ﷺ کی شمع فروزاں کو دُنیا بھر کے انسانوں کے دلوں میں جا گزیں کرنے کے مشن پر عمل پیرا ہے۔ محبت رسول ﷺ میں نہ تو کسی فرقہ واریت کی گنجائش ہے۔اور نہ ہی ان اللہ پاک کے درویشوں کودُنیاوی حوالے سے کوئی لالچ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی شہادت کی خبر نے میری روح پرا تنا بوجھ ڈال دیا ہے کہ جناب ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی شہادت کا دکھ تازہ ہوگیا ہے۔
میری سمجھ میں یہ بات نہیں سما پارہی کہ ایسی شخصیت جو کہ سراپاِ شفقت ہو۔ جس کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا نبی پاکﷺ کی محبت ہو جس کا 
مشن آقا کریمﷺ کے دین کی آ بیاری ہو جو محبتوں کا پیامبر ہو جوعلم 
ے نو رسے دلوں کو منور کرنے والا ہو
ایسی ہستی جناب ڈاکٹر شکیل اوج صاحبؒ کی ہو کہ ہر کوئی اُن کے لیے محبت احترام کے جذبات رکھتا ہو ۔ ایسے میں دہشت گردوں کی جانب سے ایسی کرشماتی حُسنِ اخلاق رکھنے والی شخصیت کو گولیوں کی نظر کرنابہت بڑا ظلم ہے عالم کی موت عالم کی یعنی جہاں کی موت ہے ڈاکٹر شکیل جیسے ماہر تعلیم اور سیر ت نگار کے ساتھ دہشت گردوں کا یہ ظلم ناقابل برداشت ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے ڈین آف اسلامک سڈیز کو ظالموں نے شہید کرکے ظلم بھی کمایا اور علم کی پیاس بجھانے والے پروانوں کو بھی اپنے اُستادِ محترم کی شفقت سے محروم کردیا۔ جناب ڈاکٹر ظفر اقبال نوری، جناب معین نوری جناب افتخار غزالی صاحبان کے جذبات کی جب میں نے پوسٹ پڑھیں تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں ہائی کورٹ جانے سے پہلے ہی اپنی اسٹڈی میں بیٹھا جناب ڈاکٹرشکیل اوج صاحب کی شہادت پر ماتم کناں ہوں۔ حکومت سندھ کو کراچی کے حالات کو کنٹرول کرنا ہوگا اور علمی شخصیت جناب ڈاکٹر شکیل اوج صاحبؒ کے قاتلوں کو گرفتار کرنا ہوگا۔ میں انجمن طلبہء اسلام کے دوستوں سے یہ عرض کروں گا کہ ڈاکٹر صاحبؒ کی شہادت کے خلاف پُرامن احتجاج کریں اور حکمرانوں کو مجبور کردیں کہ ہمارئے پیارئے ڈاکٹر صاحبؒ کے قاتلوں کو گرفتار کیا 
جائے۔جمعرات کو فائرنگ کے ایک واقعے میں جب جامعہ کراچی کے شعبۂ اسلامی تعلیمات کے اس سربراہ کی ہلاکت کی خبر ملی تو یہ جاننے کی خواہش ہوئی کہ ان کا ’جرم‘ کیا تھا۔
کلِک روشن فکری کی سزا، موت
نجی ٹی وی چینل کے میزبان انیق احمد کے مطابق ڈاکٹر اوج ایک سلجھی ہوئی اور شگفتہ مزاج شخصیت کے حامل تھے۔ ان کا حلقۂ اثر، حلقہ احباب بہت بڑا تھا اور تخلیقی سوچ رکھنے والے ڈاکٹر شکیل ہمیشہ ایک کرید، ایک علمی جستجو میں رہتے تھے۔
اسی جستجو کا نتیجہ ان کے لاتعداد مقالے، مضامین اور تحریریں ہیں جو اخبارات و رسائل کی زینت بن چکے ہیں۔ڈاکٹر اوج لگ بھگ 15 کتابوں کے مصنف بھی تھے۔
وہ علومِ تفسیر قرآن میں تحقیق و تصنیف کے حوالے سے معروف تھے اور قرآن کے آٹھ اردو تراجم کے تقابل پر سنہ 2000 میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔
کالم نگار خورشید ندیم ڈاکٹر اوج کے دوستوں میں سے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ڈاکٹر اوج کی سوچ اور فکر میں ارتقا تھا۔وہ اپنی علمی زندگی میں بڑے تنوع سے گزرے۔ وہ بنیادی طور پر ایک روایتی مذہبی عالم تھے اور انھوں نے قرآن پر براہ راست غور و فکر کرتے ہوئے اپنے کچھ نتائج فکر مرتب کیے تھے۔‘
خورشید ندیم کا کہنا ہے کہ ’ڈاکٹر شکیل کے ہاں مکالمے کی بہت اہمیت تھی۔ انھوں نے چند ماہ قبل کراچی میں سیرت کانفرنس بھی منعقد کروائی تھی جس میں ہر مکتبۂ فکر کے لوگ موجود تھے۔‘
’وہ اپنی رائے کو کبھی حرف آخر کی طرح پیش نہیں کرتے تھے بلکہ وہ بحث کو آگے بڑھاتے تھے۔کبھی انہوں نے اس کو مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی۔اگر ان کی بات کبھی صحیح نہ بھی ہوتی تو رجوع کرنے پر بھی آمادہ رہتے تھے۔‘
ڈاکٹر شکیل اوج دو طرفہ ابلاغ کے قائل تھے اور یہی ان کی تعلیم کا بھی اسلوب تھا۔
انیق احمد کے مطابق وہ بہت اچھے استاد تھے۔ وہ اپنے طلبا کی صلاحیتوں کو آگے بڑھاتے تھے اور سوچ کو وسعت دیتے تھے اور شاید یہ ہی تو ان کا جرم تھا۔



Saturday, 13 September 2014

ASHRAF ASMI ADVOCATE ADVOCATE HIGH COURT HUMAN RIGHTS ACTIVIST.افعال میں اقوال کی تصدیق نہیں میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ



































افعال میں اقوال کی تصدیق نہیں

میاں محمد اشرف عاصمی

ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات اِس نہج پر پہنچ چُکے ہیں کہ کسی کی سچی بات بھی جھوٹی محسوس ہوتی ہے اور مقتول اور قاتل کے درمیان فرق روا رکھنا مشکل ٹھر گیا ہے۔ پورا عالم اسلام اور پاکستان بالخصوص جس طرح کے حالات سے دوچار ہے اور مصر، شام، عراق، لیبیاء کشمیر افغانستان میں جو حشر مسلمانوں کا امریکہ کی سرکردگی میں کیا جا چکا ہے اب فلسطین میں قتل عام سوہان روح بنا ہوا ہے۔سماجی معاشی اخلاقی نفسیاتی عمرانی پہلووں کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اغیار کے ساتھ ساتھ ہم خود بھی بربادی کے ذمہ دار ہیں۔ سرمایہ داری نظام نے عام آدمی کو یرغمال بنا رکھا ہے اور سُکھ چین چھین لیا ہے امریکی حاشیہ برداری سے معیشت کو آزاد کروانا ہوگاپاکستانی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے حکومت کونوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔پُرامن ماحول ترقی کا ضامن ہے۔ سودی معیشت سے چھٹکارہ ہی پسے ہوئے طبقے کو امن و سکون کی ضمانت دے سکتا ہے اور ملک کی معیشت میں خیر و برکت کا سبب بن سکتا ہے انرجی بحران پر قابو پا کر روزگار اور ترقی کی شرح نمو میں اضافہ کیا جا سکتا ہے اورپیداواری لاگت کو کم کرکے افراطِ زر کو نیچے لایا جاسکتا ہیحکومتی اداروں کی اور ہالنگ کی ضرورت ہے۔اِس مقصد کے لیے سیاسی مداخلت بند کرنا ہو گی اور انصاف کا بول بالا کرنا ہو گا
جب تک معاشی طور پر پسے ہوئے طبقے کو معاشی تحفظ نہیں حاصل ہوگا ملک میں امن اومان کے مسائل پیدا ہوتے رہیں گے۔ حکومتِ پاکستان دہشت گردی کے ساتھ جس قسم کی جنگ لڑ رہی ہے اِس میں کامیابی ہورہی ہے لیکن معاشی طور پر ملک کو مضبوط کیے بغیر ملک میں امن وامان قائم نہیں ہو سکتا۔ ملک کے ساٹھ فیصد لوگ خطِ غُربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ملک میں چند ہزار لوگ اکانومی پر قابض ہیں اور یہ ہی طبقہ اقتدار کے ایوانوں پر بھی برا جمان ہے۔پاکستانی جغرافیائی پوزیشن اُس کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہے امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستان میں چین بہت زیادہ سرمایہ کاری کرئے اور پاکستان کی معیشت کو سہارہ دے۔ سماجی اور معاشی انصاف کے بغیر معاشرئے میں امن نہیں ہوسکتا۔ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے بھی معاشی اور سماجی انصاف ہی بہترین طریقہ ہیں۔ بھارت، پاکستان ،بنگلہ دیش کے عوام کا رہن سہن ایک جیسا ہے لیکن سماجی اور معاشی انصاف کی بدولت بھار ت اور بنگلہ دیش معاشی طور پر مستحکم ہو چُکے ہیں اور فی کس آمدنی میں اضافہ،شرح نمو میں ترقی اور خواندگی کی شرح میں بھی پاکستان کے مقابلے میں بہت بہتر ہوچکی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے پاکستان کے مقابلے میں امن ومان کی صورتحال اُن ممالک میں بہتر ہے۔
تعلیم کے ساتھ کردار سازی انتہائی ضروری ہے۔ پاکستانی معاشرئے میں فحاشی کا سرایت کر جانا بہت بڑا المیہ ہے۔تعلیم برائے تعلیم کی بجائے تعلیم برا ئے تربیت کے ماٹو کو اپنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔سرکاری و پرائیوٹ تعلیمی اداروں میں اسلامی ومشرقی اقدار سے ہم آہنگ ماحول قائم کرنا بہت اہم ہے۔نجی چینلز کے لیے کوئی بھی ضابطہ اخلاق نہیں ہے۔آزادیِ رائے اور مادر پدر آزاد معاشرئے میں فرق رکھنا ضروری ہے۔ معاشرئے میں نفوس پزیری کے حامل افراد اساتذہ، ڈاکٹرز، وکلاء،فلاحی تنظیمیں،سول سوسا ئٹی کو آگے بڑھ کر ا پنا بھر پور کردار ادا کرنا ہوگا۔فحاشی وعریانی اخلاقی و روحانی تباہی کا سبب بن رہی ہے۔ تعلیمی اداروں میں تعلیمی اوقات میں موبائل فون کا استعمال طلبہ وطالبات کے لیے زہرِ قاتل ہے ۔پاکستانی معاشرئے میں جتنی تیزی کے ساتھ فحاشی پھیلائی جا رہی ہے ۔ اور فیشن کے نام پر خواتین کے لباس میں اِس طرح کی تبدیلی لا جارہی ہے لگتا ہی نہیں کہ یہ مسلمان ممالک کے لوگ ہیں۔ اخلاقی تربیت کے بغیر معاشرئے میں رواداری برداشت کے جذبے پروان نہیں چڑھ سکتے ۔اللہ پاک اور نبی پاکﷺ کے قائم کردہ اصول ضوابط کے بغیر دُنیا اور آخرت میں کا میابی نہیں مل سکتی۔ مسلمانیت ،نصرانیت میں فرق واضع تب ہی ہو سکتا ہے جب اسلام کے طور طریقے اپنائے جائیں۔ حیرت ہوتی ہے اور ماتم کرنے کو بھی جی چاہتا ہے کہ ہمارئے سیاستدان نہ جانے احمقوں کی کونسی جنت میں بس رہے ہیں کہ اُن کو زمینی حالات کا ادراک ہی نہیں۔لیبیا میں جو کچھ ہوا اور جس طرح وہاں خون خرابہ کیا گیا معمر قذافی کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔اِسی طرح عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی عراقی صدر صدام حسین کو عبرت کا نشان بنانے کے لیے وہ دن چُنا گیا جب مسلمانوں کی عید کا دن تھا اور دنیا بھر کے حالات جہاں تک پہنچے ہیں اور وہاں جس طرح عوام کا قتل عام ہورہا ہے اُس حوالے سے کوئی دو آرا نہیں پائی جاتی ہیں۔مصری عوام اِس وقت یرغمال بنے ہوئے ہیں۔عراق اور مصر میں خانہ جنگی کا ماحول ہے۔یہ داستانیں صدیوں پرانی نہیں ہیں جب خبریں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ نہیں پاتی تھیں یہ انٹرنیٹ، تھری فورجی فور کا دور ہے۔ آن واحد میں دنیا کے ایک کونے کی خبر لاءئیو دوسرئے کونے میں دکھا دی جاتی ہے۔
شام میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ تباہ برباد کرکے رکھ دیا گیا ہے شام کو ۔بھوک افلاس نے ڈیرئے ڈال رکھے ہیں۔کشمیر قیام پاکستان سے لے کر اب تک خون سے رنگین ہے اور قبرستانوں میں جگہیں کم پڑتی جارہی ہیں
افغانستان کی قسمت بھی کچھ ایسی ہی ہے سویت حملے سے لے کر اب تک افغانستان میں قتل و غارت عروج پر ہے امریکی سامراج جن کو پہلے دوست رکھتا تھا اب اُن کے خلاف ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لڑ رہا ہے۔ لاکھوں افغان قتل کردئیے گئے ہیں۔ تباہ حال افغانستان بھوک افلاس کا عبرتناک نشان بن چکا ہے۔اِسی طرح یمن میں بھی شورش جاری ہے بحرین میں بھی لااوا پک چکا ہے اور اِس کا حال گزشتہ مہینوں میں دیکھا بھی جا چکا ہے۔مسلم دنیا کے حوالے سے ایران اور سعودی عرب کا کردار قابل ستائش نہیں ہے۔ اپنی صدیوں سے جاری سرد جنگ کی وجہ سے یہ دونوں ممالک مسلمان ممالک میں ہونے والی تخریبی سرگرمیوں کو آشیرباد دیتے ہیں۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ فرقہ ورانہ جنگ کے بیج بو دئیے گئے ہیں اور سعودی عرب اور ایران اس حوالے سے اپنا کردا ر ادا کرہے ہیں۔خونِ مسلمان کی ارزانی کا اندازہ اِس سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی سامراج مسلمانوں کو تہہ وبالا کرنے پہ تُلا ہوا ہے لیکن مسلمان ممالک کبوتر کی طرح آنکھیں موندھے ہوئے ہیں۔مُتذکرہ بالا ممالک میں خواتیں بوڑھے اور بچے جس جہنم میں زندگی گزار رہے ہیں اُسکا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ گاجر مولیوں کی طرح بچوں بوڑھوں عورتوں کو شھید کیا جارہا ہے۔ترکی، پاکستان، ایران اور سعودی عرب اگر یہ ممالک آپس میں مل بیٹھ جائیں تو شائد امریکی سامراج کو مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے سے منت سماجت کرکے روک سکیں۔ پاکستان میں جاری دہشت گردوں کے خلاف جنگ دراصل بھارت، امریکہ کے خلاف ہے اور پاکستان میں بلوچستان اور کے پی کے میں جتنا نقصان پاک فوج اُٹھا چکی ہے اُس کے مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ عام جوان سے لے کر جرنیل تک اِس دہشت گردی کی جنگ میں شھید ہوئے ہیں۔ اِسی طرح عوام بھی ہزاروں کی تعداد میں دہشت گردی کی نذر ہوچکے ہیں۔ مالی نقصان بھی کھربوں میں ہے۔ہمارئے ملک کے سیاستدان نہ جانے کہاں بستے ہیں وہ ایک دوسرئے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں اُنھیں اِس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ خدا نخواستہ ملک کے وجود کو شدید خطرات لاحو ہیں اور اِن خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے آپس میں اتحاد و اتفاق ہونا ضروری ہے۔پاک فوج آپریشن عضب میں دُشمن سے برسرپیکار ہے۔ اور سیاستدان عوام کو آپس میں لڑوارہے ہیں۔پاکستانی سیاستدانوں کو اپنی کرسی کی حرص کو بالا طاق رکھتے ہوئے ریاست کی حفاظت کے لیے متحد ہوجانا چاہیے۔اقوام متحدہ ،او آئی سی،نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار ممالک کو اِس خون کی ارزانی کا کوئی احساس تک نہیں ہے۔ رزقِ حرام انسان سے ہرطرح کا حیاء اور رواداری چھین لیتا ہے اور انسانی جسم کے اندر داخل ہوکر وہ گُل کھلاتا ہے کہ شراب اور خنزیر سے بھی زیادہ شدت کا حامل ہوتا ہے اور انسان سے انسانیت چھین کر اُسے خوب رسوا کرتا ہے ۔صرف بلی اور کتے کا گوشت حرام نہیں ہوتا بلکہ حرام کی کمائی سے خریدا اور کھایا جانے والا مُرغے کا گوشت حلال ہونے کے باوجود حرام ہوجاتا ہے اور انسان کے قلب کو اور اُس کی روح کو پراگندہ کردیتا انسان کے اندر جاکر وہ حرام زدگیاں کرتا ہے کہ رشتوں کی پہچان تک چھین لیتا ہے۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ کیا اچھا ہے اور کیا بُرا ہے تو یہ بات یقین سے بھی بڑھ کر ہمیں پتہ چلتی ہے کہ کسی کا حق مارانا دنیا میں سارئے فساد کی جڑہے۔ حق مارنے سے مراد یہ ہے کہ عدل نہ کیا جائے جس چیز کو جہاں ہونا چاہیے اُسے وہاں نہ رکھا جائے ۔ جو جس کا ہے اُس کے حوالے نہ کیا جائے۔قدرت کے سامنے تمام ترمحرکات ہوتے ہیں قدرت نے ان افعال سے چشم پوشی اختیار نہیں کی ہوتی کیونکہ کائنات کے نظام میں اصل مرکز تو ہے ہی عدل۔ اِس لیے جب کوئی کسی کا حق مارتا ہے ہے تو وہ گویا اپنے لیے حرام چُن لیتا ہے۔وہ حرام جب اُس بندئے کے جسم میں د اخل ہوتا ہے تو اُس کے اندر ایسی جینیاتی تبدیلیاں لاتا ہے کہ خدا کی پناہ ۔پھر وہ شخص نہ تو رشتوں کا تقدس برقرار رکھتا ہے اور نہ ہے حق اور ناحق میں فرق۔ وہ ایک ایسے گدھ کی شکل اختیار کرلیتا ہے جس کی منزل صرف اور صرف مُردار کھانا ہوتا ہے۔رب پاک نے یہ کائنات ویسے بناکر نہیں رکھ چھوڑی کہ اِس کا نظام خود ہی چلتا رہے بلکہ ہر عمل کے بدلے ہرلمحے ردِعمل پیدا ہوتا ہے اور اُس کے اثرات کا خمیازہ پھر اُسے بھگتنا پڑتا ہے جو اِس عمل کا حامل ہوتا ہے۔زندگی میں یہ نہیں کہ ہم جو بھی کرتے رہیں اُس کی کوئی پوچھ گچھ نہیں ایسا نہیں ہے رب پاک ہر فعل کے بدلے اُسی طرح کے عمل سے انسان کو گزارتا ہے جس طرح کا مستحق ہوتا ہے۔ پاکستان کو باعزت قائم رکھنے کے ضروری ہے اِس دیس کے باسی لالچ، تصنع بناوٹ ، لوٹ مار۔ فراڈ،دھوکہ دہی کو چھوڑ کا اسلامی اقدار کو اپنائیں۔کیونکہ آنے والے کل کو بہتر بنانے کے لے قوم کو اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا۔ ایک آخری بات کیا مسلمان اپنے آپ کو سب اُمہ سمجھتے ہیں۔عوام تو سمجھتے ہیں لیکن حکمران ایسا نہیں چاہتے۔ کیونکہ یہود و نصاریٰ صدی ڈیرھ صدی کے بعد مسلمان ممالک کے جغرافیائی نقشے میں اپنی پسن سے تبدیلیاں کرتے ہیں اور اپنی مرغی کے حکمران لے آتے ہیں جن کے جذبات دین کی سربلندی کے لیے نہیں بلکہ اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لیے ہوتے ہیں ان حالات میں اُمتِ واحدہ کا خواب شرمندہ تعبیر کیسے ہوگا۔؟












what is out come of azadi march and inqlab march, written by ashraf asmi advvocte , human rights activist, انقلاب وآزادی مارچ کے ممکنہ نتائج و عواقب

        

آزادی اور انقلاب مارچ کے ممکنہ نتائج و عواقب

میاں محمد اشرف عاصمی

ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
 
پاکستانی معاشرئے میں برداشت رواداری کی شدت سے کمی محسوس ہورہی ہے۔اسلحہ لے کر اپنی بات منوانے کا رواج چل نکلا ہے دہشت گرد تو اپنی جگہ آ کسفورڈ کے تعلیم یافتہ کپتان بھی اب اپنے کارکنوں کو ہلاشیری دیتے نظر آرہے ہیں۔اُن کے کارکناں سوشل میڈیا پر اپنے مخالفین کو گالیوں سے نواز رہے ہیں اور اسلام آباد میں جیو کے دفتر ، پی ٹی وی اور پولیس کو لٹھ لے کر پڑئے ہوئے ہیں۔میانہ روی کا دور دور تک نشان نہیں ہے۔اپنی اپنی بات کو حرفِ آکر سمجھنے والے عمران کے ساتھ ساتھ مولانا صاحب جو کہ کینیڈا کی قومیت کے حامل ہیں وہ بھی امیرالمومنین بننے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں ایک بات تو طے ہے کہ عمران خان صاحب کو مشرف نے جو وزیراعظم بننے کے خواب دیکھائے تھے اُن کی تعبیر نہ ہونے کی وجہ سے وہ بہت ہی پریشان ہیں بلکہ ہلکان ہوئے جارہے ہیں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ خود کو وزیر اعظم ہی سمجھ بیٹھے ہیں اور اپنی تقاریر میں جو زبان استعمال کر رہے ہیں اُس سے اُن کی سیاسی تربیت کا اندازہ ہوتا ہے۔یہ ہی حال قادری صاحب کا ہے پرویز مشرف نے اُن کو بھی وزیراعظم بننے کے خواب دیکھائے لیکن بعد ازاں بے وفائی کی اور یوں قادری صاحب بھی حکومت میں
ٓآنے کے لیے بے چین ہیں۔ شروع شروع میں جب حالیہ دھرنا شروع ہوا تو قادری عمران دونوں نے اپنے حواس پر قابو رکھا ہوا تھا لیکن پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ایک ماہ سے زائد دھرنا د ینے کے بعد اب عمران قادری کے لب و لجے میں کافی تبدیلی آچُکی ہے۔ کچھ چینلز نے اِس دھرنے کے دوران کئی مرتبہ حکومت کا دھرن تختہ کیا اور بیسیوں بار نواز شریف کو گھر بھیجا اور اِسی طرح فوج جیسے ادارئے کو بھی اُنھوں نے خوب اِس میں گھسیٹنے کی کوشش کی ۔سلام ہے پاک فوج کو کہ اُس نے اپنی توجہ آپریشن ضربِ عزب پر مرکوز رکھی ہوئی ہے۔ اور پاک فوج سیلاب زدگان کے لیے دن رات مصروفِ عمل ہے۔ ہماری پچاس سال سے زائد کی تارئیخ میں پیدا ہونے ہوالے مسائل کے حوالے سے عمران قادری نے خوب محنت کی اور اِن مسائل کو زبانِ زدوعام کر دیااب اِن مسائل کو نظر انداز کرنا کسی بھی حکومت کے لیے ممکن نہ ہوگا دوسری بات یہ کہ میڈیا کی وجہ سے عوام کے اندر آگہی و ادراک کی ایک لہر اُٹھی ہے اور آنے والے کل میں یہ سب کچھ پاکستان کے عوام کے لیے انقلاب پیدا کرسکتی ہے۔ اب دوسری طرف آئیں یہ کہنا کہ عمران کو یا قادری کو حکومت ملے تو مسائل حل ہو جائیں گے۔اِس حوالے سے راقم کی عرض ہے کہ ملک کو انتشار سے بچائیں اور ملک کے انتخا بی نظام میں اصلاحات لانے سے معاملات بہتری کی طر ف اپنا رُخ بدل لیں گے اور یوں قادری عمران کے دھرنے کے ثمرات بھی باآور ہوں گے لیکن اگر عمران قادی ر سارئے نظام کا بستر گول کرکے خود ہی حکمرانی کرنا چاہتے ہیں تو ملک میں انارکی پھیلنے کا شدید خطرہ ہے ۔ نظام کو چلنے دیں اور حکومت سے اصلاحتی نظام لاگو کروائیں اور عوام کو ایجوکیٹ کریں تاکہ بہتر پاکستان بن سکے اور گا لیاں دینا اور بد تمیزی سے جلسوں میں مخلالفین کو بُلانا اچھا فعل نہیں ہے۔ جاوید ہاشمی کی اسمبلی کے فلور میں تقریر کے بعد عمران خان کو بہت کچھ سوچنے کی ضرورت ہے وہ ایک اچھے کرکٹ کے کھلاڑی ضرور ہین لیکن عوام کی نبض پر اُن کا ہاتھ بالکل نہیں ہے اور قادری صاحب کے متعلق بھی صورتحال اچھی نہیں ہے راقم خود بہت عرصہ منہاج القران اور عوامی تحریک سے وابستہ رہا میرئے خیال میں قادری صاحب نے اپنی انا اور نواز دُشمنی میں اپنے معتقدین کے خوابوں کو چکنا چُور کیا ہے ۔
جاوید ہاشمی نے عمران کے طرز انقلاب کو پسند نہیں کیا اور عمران کے متعلق وہ سب کچھ زبان پر لے آئے جو کوئی اور کہتا تو شائد تحریک انصاف والے نہ مانتے لیکن یہ سب کچھ تو اُن کے اپنے صدر نے کہا ہے۔ قادری،عمران کی لندن میں ملاقات، دارلحکومت پہ چڑھائی،پی ٹی وی پر حملہ، حکومت پاکستان اور ریاستِ پاکستا ن کو عملاً عضو معطل بنا دینا۔ جاوید ہاشمی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بو لتے اُن کا ایک کردار ہے ۔اُن کی جانب سے یہ کہنا کہ عمران نے یہ سب کچھ فوج کے عناصر کی جانب سے ہلا شیری سے کیا ہے اور وہ ہر قیمت پر وزیر اعظم بننا چاہتا ہے۔ اِس حوالے سے عمران خان کے کزن اور بہنوئی حفیظ اللہ نیازی کے جنگ اخبار میں چھپنے والے دو حالیہ کالم بہت اہم ہیں جن میں ہاشمی صاحب کے موقف کی تائید نظر آتی ہے۔عمران اور قادری کا اکھٹے دھرنا دینا اور قادری کا عمران کو اپنا بھائی قرار دینا۔ یہ سب کیا ہے۔عمران بھی وزیر اعظم بننا چاہتا ہے لیکن افسوس اب بھی غریب لوگوں کا خون بہایا اور عمران قادری نے اپنی انا اور لالچ کے بھینت معصوم لوگوں کو مروایا۔سانحہ ماڈل ٹاون المناک داستان ہے لیکن اِس کے پیچھ بھی قادری صاحب کی سانحہ سے پہلے والی تقریر ہے جس میں اُنھوں نے کفر اور حق کی جنگ میں کو د جانے کا درس اپنے تقلید کرنے والوں کو دیا۔جن قوتوں نے لانگ مارچ کروانے کے لیے عوام النا س کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کی اُن کو عوام الناس سے کوئی مثبت ردِعمل نہیں مل سکا۔ طاہرالقادری صاحب کے صرف ماننے والے جن کی تعداد آزاد میڈیا کے مطابق چند ہزار کے قریب تھی وہ اس لانگ مارچ اور دھرنے میں شریک ہیں لیکن قادری صاحب خود ایک پُرآسائش کنٹینر میں۔ درد سے آشنائی بھی عجب شے ہے۔ زمانے کے اپنے انداز ہوا کرتے ہیں مادی خواہشات انسان کو اس منصب سے بھی بعض اوقات گرادیتی ہیں جس کے حصول کے لیے انسانی تہذیب وتمدن نے ایک طویل جہدوجہدسے ایک لمبا سفر طے کیا۔ ایک ایسے ماحول میں جب دُنیا بہت سی دشورایوں سے گزر رہی ہے ان حالات میں مغرب اور مشرق کے طور طریقے نئے رنگوں میں ڈھل رہے ہیں لیکن ایک افسوس ناک پہلو اس ساری تگ ودو کا یہ ہے انسانی اقدار میں اِس طرح سے کمی آئی ہے کہ انسانیت کی اخلاقی تنزلی کا ساماں یہ ہی مادی ترقی ثابت ہورہی ہے۔ یہ درست ہے کہ تمام تر مسائل یکِ جنبشِ قلم حل نہیں ہوسکتے لیکن پھر بھی کوئی بھی ایسی ٹھوس کوشش اِس حوالے سے وقوع پذیر نہیں ہو پارہی ۔ دُنیا بھر کے مذہبی مبلغین خواہ جن کا تعلق کسی بھی مذہب نسل ، قوم،علاقے سے ہے اپنے طور پر تو دن رات کوشاں ہیں لیکن یہ تمام تر کوششیں ثمر آور نہیں ہو پارہی ہیں۔ یہ ہی حال جناب قادری صاحب کے لانگ مارچ کا ہے کہ ملک میں استحکام نہیں ۔معاشی طور جس طرح ملک کو لاغر کردیا گیا ہے اِن دھرنے والوں کے شغل شغل میں ملک کھربوں کا نقصان پہنچایا گیا ہے۔ نواز شریف کے پیچھے تو عمران قادری ایسے پڑ گئے ہیں جیسے وہ ہی حکمران تھا حالانکہ ماضی قریب میں تو زرداری،مشرف تھے نواز شریف تو چودہ سل بعد وزیراعظم بنے ہیں ۔مشرف کے حواری ملک میں حقیقی جمہوریت لانے کے لیے ہلکان ہورہے ہیں جتنے کردار اِس وقت دھرنے میں اِن ہیں یہ تمام کے تمام مشرف کے ریفرنڈم کے پیشکار تھے۔ قادری، گجرات کے چوہدری، شیخ رشید،عمران مشرف کے فرنٹ مین تھے اُس وقت دودھ کی نہریں بہہ رہی تھیں ملک خوشحال تھے۔بدترین منافقت کا شاخسانہ اِن دونوں کا کردار ہے جو کہ
ایک کرکٹر ہے اور دوسرا مذہب کے نام پر اموشینل بلیک میلنگ کر رہا ہے۔

Friday, 12 September 2014

نیویارک میں جسٹس پیر کرم شاہ الاازہری ؒ کے مشن کا تسلسل پروفیسر علامہ شہباز احمد چشتی

 

 

 

نیویارک میں جسٹس پیر کرم شاہ الاازہری ؒ کے مشن کا تسلسل پروفیسر علامہ شہباز احمد چشتی

علامہ شہباز احمد چشتی صاحب جسٹس پیر محمد کرم شاہؒ کی زیرِ سایہ علمی مدارج طے کرنے والی بہت ہی محنتی شخصیت ہیں راقم کی لاہور میں اِن سے چند بار ملاقات بھی ہوئی۔پروفیسر علامہ شھباز احمد چشتی صاحب قانون کے طلبہء کو بھی پڑھاتے رہے ہیں اور دینی تعلیم کے حوالے سے بھی اِن کی خدمات اظہر من الشمس ہیں۔ بہت اچھا لگا کہ جب یہ خبر سُنی کے چشتی صاحب کی سرپرستی میں نیو یارک میں عالم کورس اور قرانِ مجید کے حفظ کی تعلیم کا آغازکیا گیا ہے۔ یقینی طور پر وہ احباب جنہوں نے جسٹس پیر کرم شاہؒ سے اکتسابِ فیض حاصل کیا ہے وہ لوگ معاشرئے کے بہت ہی قیمتی لوگ ہیں کیونکہ اِن لوگوں نے ہی نبی پاکﷺ کی محبت کے مشن کو جناب جسٹس پیر کرم شاہؒ کے انداز میں آگے بڑھانے کی ذمہ داریوں سے عہدا براہ ہونا ہے۔کتنے عظیم لوگ ہوتے ہیں جو ظاہری پردہ فرمانے کے بعد بھی معاشرئے کے لیے انتہائی فائدہ مند ہوتے ہیں علم نور ہے اور ایسا نور ہے کہ اِسے زوال نہیں ہے دُنیا بھر میں جناب جسٹس پیر محمد کرم شاہؒ کے قائم کردہ تعلیمی ادارئے اسلام کی روشنی سے عوام الناس کے قلوب و اذہان کو بہرہ ور کے ہوئے ہیں۔ بھیرہ شریف میں قائم محمدیہ غوثیہ یونیورسٹی ہائر ایجوکیشن کمیشن سے منطور شدہ ادارہ ہے اور اپنی مثال آپ ہے۔اِس یونیورسٹی / دارلعلوم سے علم حاصل کرنے والے علماء پوری دنیا میں اسلام کی خدمت کر رہے ہیں اِس کے ساتھ ساتھ عالمِ اسلام کی عظیم درسگاہ جامعہ الاازہر میں بھی بھیرہ شریف کے دارلعلوم کے طلباء داخل ہوتے ہیں۔اِس حوالے سے بہت ہی قابلِ قدر نام جناب پیر مشتاق شاہ الاازہری کا بھی ہے اِس کے علاوہ جناب علامہ اکرم الاازہری صاحب بھی پیر کرم شاہؒ کے مشن کے تکمیل میں کوشاں ہیں۔ہمارئے محترم دوست جناب غلام مصطفےٰ بلوچ بھی جو بھیرہ شریف سے فارغ التحصیل ہیں وہ گزشتہ تین دہائیوں سے آسٹریا میں دین کے مشن میں مصروف عمل ہیں۔لاہور میں جناب علامہ خان محمد قادری صاحب بھی پیر کرم شاہؒ کے بتائے اور سکھائے ہوئے اصولوں کے مطابق دینی تعلیم کے حامل ایک بہت بڑئے ادارئے کو چلا رہے ہیں۔سرگودہا میں جناب پیر مشتاق شاہ الاازہری جوکہ بھیرہ شریف سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد جامعہ الازہر سے اعلیٰ حضرت امام احمد رضاؒ فاضل بریلی شریف کی شخصیت پر ایم فِل کی ڈگری کا اعزاز رکھتے ہیں جناب پیر مشتاق شاہ الازہری اور راقم سرگودہا میں انجمن طلبہء اسلام کے مشن میں اکھٹے رہے ہیں جناب پیر مشتاق شاہ الاازہری سرگودہا میں دینی ودنیاوی تعلیم کا ایک بہت بڑا ادار غوثیہ گرلز کالج کے نام سے سیٹلائٹ ٹاون سی بلاک سرگودہا میں قائم کرکے اُس کے لیے دن رات وقف کیے ہوئے ہیں اور اِس کے علاوہ ایک اور ادارہ بھی دینی تعلیم کے حوالے سے بشیر کالونی سرگودہا میں طلبہء کے لیے قائم ہے۔ جناب علامہ شھباز احمد چشتی نیو یارک میں اِس حوالے سے بہت اہم خدمات انجام دئے رہے ہیں۔ پیر محمد کر م شاہؒ سے ملاقات کا شرف راقم کو رہا ہے کیونکہ آپ میرئے ماموں جان اور پیرو مُرشد جناب حکیم میاں محمد عنائت خان قادری نوشاہی صاحب کے گھر واقع سرگودہا تشریف لاتے رہے ہیں یوں اُن کی دست بوسی کا شرف مجھ حقیر کو بھی حاصل رہا۔ عہدساز روحانی علمی شخصیت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الاازہریؒ وطن پاک میں عظیم ترین لوگوں کی مساعی جمیلہ کا کردا ر مختلف شعبوں میں رہا ہے ۔ دین اسلام سے محبت اور جدید دُنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ معاشرئے کی نفسیاتی سوچ میں ہمہ گیر مثبت ردِ عمل کے فروغ میں جسٹس پیرکرم شاہؒ جیسے عظیم مصلع مدبر،دانشور بیمثل خطیب، نامور قانون دان تاریخ دان ،اُستاد کا بہت بڑا کردار ہے۔ بھیرہ سرگودہا کی مردم خیز مٹی میں پروان چڑھنے والی عظیم شخصیت جسٹس پیرکرم شاہ نے معاشرتی، سماجی، عمرانی، مذہبی اور نفسیاتی حوالوں سے معاشرئے پر انمٹ اثرات چھوڑئے ہیں بلکہ یہ وہ شخصیت ہیں جن کا عشقِ رسولﷺ کے حوالے سے معاشرئے کی روحانی اقدار میں اتنا بڑا کام ہے شائد مستقبل کا ہی مورخ اس کا احاطہ کر پائے۔قیام پاکستان سے پہلے ہی یہ عظیم شخصیت اپنی مجاہدانہ صلاحیتوں سے امن وآشتی اور شمع توحید ورسالت کے حوالے سے سرگرم عمل رہی۔ اپنے والدِ محترم کی خواہش پر آپ نے عالم اسلام کی عظیم اسلامی جامعہ ، جامعہ الاازہر سے اکتساب فیض کیا۔ اگر پیرکرم شاہ صاحبؒ کی شخصیت کا جائزہ لیا جائے تو عقلی تقاضے حیرانی کے سمندر میں سرگرداں نظر آتے ہیں کہ ان کی شخصیت کا کونسا پہلو ہے جس کا احاطہ کیا جائے ایک ایسے اُستاد کہ پاکستان بھر میں آپ کے تعلیمی ادارئے قائم ہیں یعنی دارلعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ شریف سے علم وآگہی کے وہ سرچشمے پھوٹ رہے ہیں کہ معاشرئے میں ان کی نفوس پذیری کی مشال نہیں ملتی۔ ان کے قائم کردہ ادارئے نہ صرف پاکستان بلکہ امریکہ، سپین، برطانیہ ، فرانس لاتعداد غیر ممالک میں دین اسلام کی خدمت میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ اسی طرح آپ کے ادارئے کے بیشمار طلبہء اپنی علمی پیاس بجھانے کے لیے ہر سال باقاعدگی سے جامعتہاالاازہر میں داخلہ لیتے ہیں اور ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطع کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ آپ کے قائم کردہ تعلیم ادروں میں کمپیوٹر، معاشیات،سائنس کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ درحقیقت پیر کرم شاہ صاحبؒ کے تعلیمی مشن کا سب سے کامیاب پہلو یہ ہے کہ انھوں نے دینی اداروں میں ماڈریٹ سوچ کو پروان چڑھایا اور علمی تحقیقی امور پر زور دیا۔ روایتی اور جدیت کے تقاضوں سے ہم آہنگ مذہبی تعلیمی امور کو وسعت دی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آپ کے ادروں سے فارغ التحصیل افراد معاشرئے میں وہ کردار ادا کر رہے ہیں جو کہ نفوذپزیری کا حامل ہے۔ ایک اہم نکتہ جو کہ بہت اہمیت کا حامل ہے وہ یہ کہ پیر صاحب نے اہلسنت عوام کو معتدل رکھنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔ جمیت علما ئے پاکستان کے پلیٹ فارم سے عملی سیاست میں بھی وقت کے فرعونوں کو للکارا اور تحریک نظام مصطفےﷺ میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی طرح آپ کا تحریک ختم نبوت میں بھی شاندار کردار رہا۔ ملک کے طول و عرض میں عشقِ مصطفےﷺ کے فروغ کے لیے دورے فرمائے اور اسی طرح آپ کی دینی و تبلیغی کاوشیں یورپ ، امریکہ ایشیا اور افریقہ تک پھیلی ہوئی ہیں۔روحانی اعتبار سے پیرکرم شاہ صاحب کا تعلق چشتی سلسلے تھا۔لیکن آپ تمام سلاسل میں انتہائی محترم ترین ہستی کے طور پر مانے جاتے ہیں۔ زاویہ فاونڈیشن کے زیرِاہتمام لاہور میں منعقدہ ایک سیمینار میں جہاں راقم بھی شریک تھا آپ کے صاحبزادہ صاحب جناب پیر امین الحسنات صاحب نے فرمایا تھا کہ ہمارئے والد صاحب ن
ہمیں ہمیشہ ایک بات کی تلقین کرتے تھے کہ بیٹا ہمیشہ اسلام، پاکستان اور نبی پاکﷺ سے محبت کرنی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پیرامین الحسنات صاحب وطن پاک کی خاطر ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔جناب جسٹس پیر کرم شاہ صاحب کا ایک بہت بڑا کارنامہ ایک ضیاالقران پبلیکیشنز کی صورت میں ایک عظیم ادارئے کا قیام ہے جو پوری دنیا میں اسلامی کتب کی اشاعت اُردو کے علاوہ قرانِ مجید کے تراجم کی دنیا کی مختلف زبانوں میں اشاعت میں مصروفِ عمل ہے۔ اس کام میں آپ کے صاحبزدگان جناب حفیظ البرکات صاحب ، میجر ابراہیم شاہ صاحب اور محسن شاہ صاحب کا فعال کردار ہے۔وطن عزیز کی سیاسی سماجی ، معاشی، عمرانی حوالے سے رہنمائی کے لیے ماہنامہ ضیائے حرم عظیم صحافتی کردار کا حامل ہے یہ میگزین عالم اسلام کی ہر حوالے سے رہنمائی میں قابل ر شک کردار ادا کررہا ہے۔ ضیائے حرم میگزین میں جناب جسٹس پیرکرم شاہؒ کے اداریے اور مضامین پوری قوم اور پورے عالمِ اسلام کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ جسٹس پیرکرم شاہ کا ایک بہت عظیم کا ر نامہ قران مجید کی تفسیر ضیاالقران ہے جو کہ لاجواب علمی و روحانی کاوش ہے جس کا ترجمہ بہت سی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے عشقِ نبی پاکﷺ میں ڈوب کر لازوال ضیاالنبیﷺ کی تحریری کاوش کی جس کا ایک ایک حرف اور ایک ایک لفظ نبی پاکﷺ کی محبت میں ڈوبا ہوا ہے۔ یقیناً ان جیسی ہستیوں کا روحانی فیض تاابد جاری رہے گا۔ پیر کرم شاہ صاحب نے بطور جج قابلِ ذکر کردار ادا کیا اور کئی لازوال فیصلے فقہی معاملات کے حوالے سے دیے۔پیر کرم شاہ صاحب کا ہمارے معاشرئے پر ایک اور بہت بڑا احسان عشق رسولﷺ کی علمبردار طلبہ تنظیم انجمن طلبہ اسلام کی سرپرستی ہے۔ پیرکرم شاہ صاحب نے ہمیشہ ہر معاملے میں انجمن طلبہ اسلا م کے تحریکی، تنظیمی اور تربیتی کاموں میں مدد کی۔ یوں معاشرئے میں عشقِ رسولﷺ کے فروغ کے لیے ایک عظیم گروہ تیار کیا جو زندگی کہ ہر شعبے میں فعا لیت کا حامل ہے۔ جناب پیر کرم شاہ صاحب ؒ کی جہدوجد ہمیشہ دین اسلام کی سربلندی کے لیے رہی۔ اگر ہم ان کی معاشرے کے لیے خدمات کا تذکرہ کریں تو یہ بات قرین قیاس ہے کہ یہ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے دین کی محبت اور وطن سے لگاؤ کی انمٹ داستان رقم کی۔آپ نہ صرف خود بلکہ اپنے حلقہِ اردات میں شامل افراد کا معاشرئے میں فعال کردار ادا کرنے کے داعی تھے۔ دین کی خدمت میں روز و شب اپنی مسا عی جمیلہ میں شبنم کے قطروں کی ماند آپ کے شاگرد اور مریدین پوری دنیا میں دینی فلاحی خدمات میں مصروف عمل ہیں۔آپ کے ہی حلقہ اردات میں شامل افراد زندگی کے بے شمار شعبوں میں اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایک بات جو ببانگِ دہل کی جاسکتی ہے وہ یہ کہ پیر محمد کرم شاہ بیسویں صدی میں مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے اقبالؒ اور حضرت قائداعظمؒ کی جدوجہد کے تسلسل کے علمبردار تھے۔ اُ پ کے قائم کردہ ادارئے اور اُن اداروں سے فیض یاب ہونے والے افراد معاشرئے میں اپنی خدمات اس انداز میں سر انجام دے رہے ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پیر کرم شاہ صاحب ؒ کا مشن جاری وساری ہے ۔ رب پاک پیر کر م شاہ صاحبؒ کے درجات کو بلند فرمائے اور ان جیسی عظیم روحانی شخصیات کے طفیل اس ارض پاک کی حفاطت فرمائے۔(آمین) علامہ شھباز احمد چشتی جو کہ دینی علوم کیساتھ ساتھ قانون اور انتظامی امور کی تعلیم کے حامل ایک بیدار مغز شخصیت ہیں۔اِن کی سرپرستی میں نیو یارک میں دینی تعلیم کا عظیم ادارہ تارکینِ وطن کے لیے بہت بڑا کام ہے اللہ پاک پروفیسر علامہ شھباز احمد چشتی کے جذبوں کو سلامت رکھے آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون نگار میاں اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہا ئی کورٹ گزشتہ دو دہائیوں سے سماجی ،معاشی عمرانی و قانونی موضوعات پر لکھتے ہیں۔ ہائی کورٹ میں وکالت کرتے ہیں درگاہ حضرت میاں وڈاصاحبؒ لاہور کے خانوادے سے تعلق ہے۔ اور انسانی حقوق کی عالم گیر تنظیم مصطفائی جسٹس فورم انٹرنیشنل کے سربراہ ہیں۔