زندگی کی خوبصورتی سے ڈاکٹر شکیل صاحبؒ کو محروم کرنے کا فعل رب پاک کے کام میں مداخلت ہے ۔
زندگی کو معاشرئے کے لیے وقف کرنا اور پھر انسان کو شرف انسانیت سے ہمکنار کرنے والے عظیم تدریسی مشن کے ساتھ موت تک ساتھ نبھانا۔اقتدار کی غلام گردشوں کی بھول بھلیوں میں گم ہونے والے کراچی کے ناخدا اتنے خوبصورت انسان کو موت کے مُنہ سے نہیں بچا سکے۔ سیرت مصطفے ﷺ کے پرچارکے لیے شب وروز مصروفِ عمل جناب ڈاکٹر شکیل بہت ہی محنتی اُستاد اور زمانے کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے انسان تھے۔ انجمن طلبہء اسلام کے ساتھ وابستہ ایک ایک شخص عشقِ مصطفے ﷺ کی شمع فروزاں کو دُنیا بھر کے انسانوں کے دلوں میں جا گزیں کرنے کے مشن پر عمل پیرا ہے۔ محبت رسول ﷺ میں نہ تو کسی فرقہ واریت کی گنجائش ہے۔اور نہ ہی ان اللہ پاک کے درویشوں کودُنیاوی حوالے سے کوئی لالچ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی شہادت کی خبر نے میری روح پرا تنا بوجھ ڈال دیا ہے کہ جناب ڈاکٹر سرفراز نعیمی کی شہادت کا دکھ تازہ ہوگیا ہے۔
میری سمجھ میں یہ بات نہیں سما پارہی کہ ایسی شخصیت جو کہ سراپاِ شفقت ہو۔ جس کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا نبی پاکﷺ کی محبت ہو جس کا
مشن آقا کریمﷺ کے دین کی آ بیاری ہو جو محبتوں کا پیامبر ہو جوعلم
ے نو رسے دلوں کو منور کرنے والا ہو
ایسی ہستی جناب ڈاکٹر شکیل اوج صاحبؒ کی ہو کہ ہر کوئی اُن کے لیے محبت احترام کے جذبات رکھتا ہو ۔ ایسے میں دہشت گردوں کی جانب سے ایسی کرشماتی حُسنِ اخلاق رکھنے والی شخصیت کو گولیوں کی نظر کرنابہت بڑا ظلم ہے عالم کی موت عالم کی یعنی جہاں کی موت ہے ڈاکٹر شکیل جیسے ماہر تعلیم اور سیر ت نگار کے ساتھ دہشت گردوں کا یہ ظلم ناقابل برداشت ہے۔ کراچی یونیورسٹی کے ڈین آف اسلامک سڈیز کو ظالموں نے شہید کرکے ظلم بھی کمایا اور علم کی پیاس بجھانے والے پروانوں کو بھی اپنے اُستادِ محترم کی شفقت سے محروم کردیا۔ جناب ڈاکٹر ظفر اقبال نوری، جناب معین نوری جناب افتخار غزالی صاحبان کے جذبات کی جب میں نے پوسٹ پڑھیں تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں ہائی کورٹ جانے سے پہلے ہی اپنی اسٹڈی میں بیٹھا جناب ڈاکٹرشکیل اوج صاحب کی شہادت پر ماتم کناں ہوں۔ حکومت سندھ کو کراچی کے حالات کو کنٹرول کرنا ہوگا اور علمی شخصیت جناب ڈاکٹر شکیل اوج صاحبؒ کے قاتلوں کو گرفتار کرنا ہوگا۔ میں انجمن طلبہء اسلام کے دوستوں سے یہ عرض کروں گا کہ ڈاکٹر صاحبؒ کی شہادت کے خلاف پُرامن احتجاج کریں اور حکمرانوں کو مجبور کردیں کہ ہمارئے پیارئے ڈاکٹر صاحبؒ کے قاتلوں کو گرفتار کیا
جائے۔جمعرات کو فائرنگ کے ایک واقعے میں جب جامعہ کراچی کے شعبۂ اسلامی تعلیمات
کے اس سربراہ کی ہلاکت کی خبر ملی تو یہ جاننے کی خواہش ہوئی کہ ان کا
’جرم‘ کیا تھا۔
کلِک روشن فکری کی سزا، موت
نجی ٹی وی چینل
کے میزبان انیق احمد کے مطابق ڈاکٹر اوج ایک سلجھی ہوئی اور شگفتہ مزاج
شخصیت کے حامل تھے۔ ان کا حلقۂ اثر، حلقہ احباب بہت بڑا تھا اور تخلیقی سوچ
رکھنے والے ڈاکٹر شکیل ہمیشہ ایک کرید، ایک علمی جستجو میں رہتے تھے۔
اسی جستجو کا نتیجہ ان کے لاتعداد مقالے، مضامین اور تحریریں ہیں جو
اخبارات و رسائل کی زینت بن چکے ہیں۔ڈاکٹر اوج لگ بھگ 15 کتابوں کے مصنف
بھی تھے۔
وہ علومِ تفسیر قرآن میں تحقیق و تصنیف کے حوالے سے معروف
تھے اور قرآن کے آٹھ اردو تراجم کے تقابل پر سنہ 2000 میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری
حاصل کی تھی۔
کالم نگار خورشید ندیم ڈاکٹر اوج کے دوستوں میں سے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ڈاکٹر اوج کی سوچ اور فکر میں ارتقا تھا۔وہ اپنی علمی
زندگی میں بڑے تنوع سے گزرے۔ وہ بنیادی طور پر ایک روایتی مذہبی عالم تھے
اور انھوں نے قرآن پر براہ راست غور و فکر کرتے ہوئے اپنے کچھ نتائج فکر
مرتب کیے تھے۔‘
خورشید ندیم کا کہنا ہے کہ ’ڈاکٹر شکیل کے ہاں
مکالمے کی بہت اہمیت تھی۔ انھوں نے چند ماہ قبل کراچی میں سیرت کانفرنس بھی
منعقد کروائی تھی جس میں ہر مکتبۂ فکر کے لوگ موجود تھے۔‘
’وہ اپنی
رائے کو کبھی حرف آخر کی طرح پیش نہیں کرتے تھے بلکہ وہ بحث کو آگے بڑھاتے
تھے۔کبھی انہوں نے اس کو مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی۔اگر ان کی بات کبھی
صحیح نہ بھی ہوتی تو رجوع کرنے پر بھی آمادہ رہتے تھے۔‘
ڈاکٹر شکیل اوج دو طرفہ ابلاغ کے قائل تھے اور یہی ان کی تعلیم کا بھی اسلوب تھا۔
انیق احمد کے مطابق وہ بہت اچھے استاد تھے۔ وہ اپنے طلبا کی صلاحیتوں کو
آگے بڑھاتے تھے اور سوچ کو وسعت دیتے تھے اور شاید یہ ہی تو ان کا جرم تھا۔
No comments:
Post a Comment