افعال میں اقوال کی تصدیق نہیں
میاں محمد اشرف عاصمی
ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات اِس نہج پر پہنچ چُکے ہیں کہ کسی کی سچی بات
بھی جھوٹی محسوس ہوتی ہے اور مقتول اور قاتل کے درمیان فرق روا رکھنا مشکل
ٹھر گیا ہے۔ پورا عالم اسلام اور پاکستان بالخصوص جس طرح کے حالات سے
دوچار ہے اور مصر، شام، عراق، لیبیاء کشمیر افغانستان میں جو حشر مسلمانوں
کا امریکہ کی سرکردگی میں کیا جا چکا ہے اب فلسطین میں قتل عام سوہان روح
بنا ہوا ہے۔سماجی معاشی اخلاقی نفسیاتی عمرانی پہلووں کا اگر جائزہ لیا
جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اغیار کے ساتھ ساتھ ہم خود بھی بربادی
کے ذمہ دار ہیں۔ سرمایہ داری نظام نے عام آدمی کو یرغمال بنا رکھا ہے اور
سُکھ چین چھین لیا ہے امریکی حاشیہ برداری سے معیشت کو آزاد کروانا
ہوگاپاکستانی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے حکومت کونوجوانوں کو روزگار کے
مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔پُرامن ماحول ترقی کا ضامن ہے۔ سودی معیشت سے
چھٹکارہ ہی پسے ہوئے طبقے کو امن و سکون کی ضمانت دے سکتا ہے اور ملک کی
معیشت میں خیر و برکت کا سبب بن سکتا ہے انرجی بحران پر قابو پا کر روزگار
اور ترقی کی شرح نمو میں اضافہ کیا جا سکتا ہے اورپیداواری لاگت کو کم
کرکے افراطِ زر کو نیچے لایا جاسکتا ہیحکومتی اداروں کی اور ہالنگ کی
ضرورت ہے۔اِس مقصد کے لیے سیاسی مداخلت بند کرنا ہو گی اور انصاف کا بول
بالا کرنا ہو گا
جب تک معاشی طور پر پسے ہوئے طبقے کو معاشی تحفظ نہیں حاصل ہوگا ملک میں امن اومان کے مسائل پیدا ہوتے رہیں گے۔ حکومتِ پاکستان دہشت گردی کے ساتھ جس قسم کی جنگ لڑ رہی ہے اِس میں کامیابی ہورہی ہے لیکن معاشی طور پر ملک کو مضبوط کیے بغیر ملک میں امن وامان قائم نہیں ہو سکتا۔ ملک کے ساٹھ فیصد لوگ خطِ غُربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ملک میں چند ہزار لوگ اکانومی پر قابض ہیں اور یہ ہی طبقہ اقتدار کے ایوانوں پر بھی برا جمان ہے۔پاکستانی جغرافیائی پوزیشن اُس کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہے امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستان میں چین بہت زیادہ سرمایہ کاری کرئے اور پاکستان کی معیشت کو سہارہ دے۔ سماجی اور معاشی انصاف کے بغیر معاشرئے میں امن نہیں ہوسکتا۔ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے بھی معاشی اور سماجی انصاف ہی بہترین طریقہ ہیں۔ بھارت، پاکستان ،بنگلہ دیش کے عوام کا رہن سہن ایک جیسا ہے لیکن سماجی اور معاشی انصاف کی بدولت بھار ت اور بنگلہ دیش معاشی طور پر مستحکم ہو چُکے ہیں اور فی کس آمدنی میں اضافہ،شرح نمو میں ترقی اور خواندگی کی شرح میں بھی پاکستان کے مقابلے میں بہت بہتر ہوچکی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے پاکستان کے مقابلے میں امن ومان کی صورتحال اُن ممالک میں بہتر ہے۔
تعلیم کے ساتھ کردار سازی انتہائی ضروری ہے۔ پاکستانی معاشرئے میں فحاشی کا سرایت کر جانا بہت بڑا المیہ ہے۔تعلیم برائے تعلیم کی بجائے تعلیم برا ئے تربیت کے ماٹو کو اپنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔سرکاری و پرائیوٹ تعلیمی اداروں میں اسلامی ومشرقی اقدار سے ہم آہنگ ماحول قائم کرنا بہت اہم ہے۔نجی چینلز کے لیے کوئی بھی ضابطہ اخلاق نہیں ہے۔آزادیِ رائے اور مادر پدر آزاد معاشرئے میں فرق رکھنا ضروری ہے۔ معاشرئے میں نفوس پزیری کے حامل افراد اساتذہ، ڈاکٹرز، وکلاء،فلاحی تنظیمیں،سول سوسا ئٹی کو آگے بڑھ کر ا پنا بھر پور کردار ادا کرنا ہوگا۔فحاشی وعریانی اخلاقی و روحانی تباہی کا سبب بن رہی ہے۔ تعلیمی اداروں میں تعلیمی اوقات میں موبائل فون کا استعمال طلبہ وطالبات کے لیے زہرِ قاتل ہے ۔پاکستانی معاشرئے میں جتنی تیزی کے ساتھ فحاشی پھیلائی جا رہی ہے ۔ اور فیشن کے نام پر خواتین کے لباس میں اِس طرح کی تبدیلی لا جارہی ہے لگتا ہی نہیں کہ یہ مسلمان ممالک کے لوگ ہیں۔ اخلاقی تربیت کے بغیر معاشرئے میں رواداری برداشت کے جذبے پروان نہیں چڑھ سکتے ۔اللہ پاک اور نبی پاکﷺ کے قائم کردہ اصول ضوابط کے بغیر دُنیا اور آخرت میں کا میابی نہیں مل سکتی۔ مسلمانیت ،نصرانیت میں فرق واضع تب ہی ہو سکتا ہے جب اسلام کے طور طریقے اپنائے جائیں۔ حیرت ہوتی ہے اور ماتم کرنے کو بھی جی چاہتا ہے کہ ہمارئے سیاستدان نہ جانے احمقوں کی کونسی جنت میں بس رہے ہیں کہ اُن کو زمینی حالات کا ادراک ہی نہیں۔لیبیا میں جو کچھ ہوا اور جس طرح وہاں خون خرابہ کیا گیا معمر قذافی کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔اِسی طرح عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی عراقی صدر صدام حسین کو عبرت کا نشان بنانے کے لیے وہ دن چُنا گیا جب مسلمانوں کی عید کا دن تھا اور دنیا بھر کے حالات جہاں تک پہنچے ہیں اور وہاں جس طرح عوام کا قتل عام ہورہا ہے اُس حوالے سے کوئی دو آرا نہیں پائی جاتی ہیں۔مصری عوام اِس وقت یرغمال بنے ہوئے ہیں۔عراق اور مصر میں خانہ جنگی کا ماحول ہے۔یہ داستانیں صدیوں پرانی نہیں ہیں جب خبریں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ نہیں پاتی تھیں یہ انٹرنیٹ، تھری فورجی فور کا دور ہے۔ آن واحد میں دنیا کے ایک کونے کی خبر لاءئیو دوسرئے کونے میں دکھا دی جاتی ہے۔
شام میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ تباہ برباد کرکے رکھ دیا گیا ہے شام کو ۔بھوک افلاس نے ڈیرئے ڈال رکھے ہیں۔کشمیر قیام پاکستان سے لے کر اب تک خون سے رنگین ہے اور قبرستانوں میں جگہیں کم پڑتی جارہی ہیں
افغانستان کی قسمت بھی کچھ ایسی ہی ہے سویت حملے سے لے کر اب تک افغانستان میں قتل و غارت عروج پر ہے امریکی سامراج جن کو پہلے دوست رکھتا تھا اب اُن کے خلاف ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لڑ رہا ہے۔ لاکھوں افغان قتل کردئیے گئے ہیں۔ تباہ حال افغانستان بھوک افلاس کا عبرتناک نشان بن چکا ہے۔اِسی طرح یمن میں بھی شورش جاری ہے بحرین میں بھی لااوا پک چکا ہے اور اِس کا حال گزشتہ مہینوں میں دیکھا بھی جا چکا ہے۔مسلم دنیا کے حوالے سے ایران اور سعودی عرب کا کردار قابل ستائش نہیں ہے۔ اپنی صدیوں سے جاری سرد جنگ کی وجہ سے یہ دونوں ممالک مسلمان ممالک میں ہونے والی تخریبی سرگرمیوں کو آشیرباد دیتے ہیں۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ فرقہ ورانہ جنگ کے بیج بو دئیے گئے ہیں اور سعودی عرب اور ایران اس حوالے سے اپنا کردا ر ادا کرہے ہیں۔خونِ مسلمان کی ارزانی کا اندازہ اِس سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی سامراج مسلمانوں کو تہہ وبالا کرنے پہ تُلا ہوا ہے لیکن مسلمان ممالک کبوتر کی طرح آنکھیں موندھے ہوئے ہیں۔مُتذکرہ بالا ممالک میں خواتیں بوڑھے اور بچے جس جہنم میں زندگی گزار رہے ہیں اُسکا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ گاجر مولیوں کی طرح بچوں بوڑھوں عورتوں کو شھید کیا جارہا ہے۔ترکی، پاکستان، ایران اور سعودی عرب اگر یہ ممالک آپس میں مل بیٹھ جائیں تو شائد امریکی سامراج کو مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے سے منت سماجت کرکے روک سکیں۔ پاکستان میں جاری دہشت گردوں کے خلاف جنگ دراصل بھارت، امریکہ کے خلاف ہے اور پاکستان میں بلوچستان اور کے پی کے میں جتنا نقصان پاک فوج اُٹھا چکی ہے اُس کے مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ عام جوان سے لے کر جرنیل تک اِس دہشت گردی کی جنگ میں شھید ہوئے ہیں۔ اِسی طرح عوام بھی ہزاروں کی تعداد میں دہشت گردی کی نذر ہوچکے ہیں۔ مالی نقصان بھی کھربوں میں ہے۔ہمارئے ملک کے سیاستدان نہ جانے کہاں بستے ہیں وہ ایک دوسرئے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں اُنھیں اِس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ خدا نخواستہ ملک کے وجود کو شدید خطرات لاحو ہیں اور اِن خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے آپس میں اتحاد و اتفاق ہونا ضروری ہے۔پاک فوج آپریشن عضب میں دُشمن سے برسرپیکار ہے۔ اور سیاستدان عوام کو آپس میں لڑوارہے ہیں۔پاکستانی سیاستدانوں کو اپنی کرسی کی حرص کو بالا طاق رکھتے ہوئے ریاست کی حفاظت کے لیے متحد ہوجانا چاہیے۔اقوام متحدہ ،او آئی سی،نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار ممالک کو اِس خون کی ارزانی کا کوئی احساس تک نہیں ہے۔ رزقِ حرام انسان سے ہرطرح کا حیاء اور رواداری چھین لیتا ہے اور انسانی جسم کے اندر داخل ہوکر وہ گُل کھلاتا ہے کہ شراب اور خنزیر سے بھی زیادہ شدت کا حامل ہوتا ہے اور انسان سے انسانیت چھین کر اُسے خوب رسوا کرتا ہے ۔صرف بلی اور کتے کا گوشت حرام نہیں ہوتا بلکہ حرام کی کمائی سے خریدا اور کھایا جانے والا مُرغے کا گوشت حلال ہونے کے باوجود حرام ہوجاتا ہے اور انسان کے قلب کو اور اُس کی روح کو پراگندہ کردیتا انسان کے اندر جاکر وہ حرام زدگیاں کرتا ہے کہ رشتوں کی پہچان تک چھین لیتا ہے۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ کیا اچھا ہے اور کیا بُرا ہے تو یہ بات یقین سے بھی بڑھ کر ہمیں پتہ چلتی ہے کہ کسی کا حق مارانا دنیا میں سارئے فساد کی جڑہے۔ حق مارنے سے مراد یہ ہے کہ عدل نہ کیا جائے جس چیز کو جہاں ہونا چاہیے اُسے وہاں نہ رکھا جائے ۔ جو جس کا ہے اُس کے حوالے نہ کیا جائے۔قدرت کے سامنے تمام ترمحرکات ہوتے ہیں قدرت نے ان افعال سے چشم پوشی اختیار نہیں کی ہوتی کیونکہ کائنات کے نظام میں اصل مرکز تو ہے ہی عدل۔ اِس لیے جب کوئی کسی کا حق مارتا ہے ہے تو وہ گویا اپنے لیے حرام چُن لیتا ہے۔وہ حرام جب اُس بندئے کے جسم میں د اخل ہوتا ہے تو اُس کے اندر ایسی جینیاتی تبدیلیاں لاتا ہے کہ خدا کی پناہ ۔پھر وہ شخص نہ تو رشتوں کا تقدس برقرار رکھتا ہے اور نہ ہے حق اور ناحق میں فرق۔ وہ ایک ایسے گدھ کی شکل اختیار کرلیتا ہے جس کی منزل صرف اور صرف مُردار کھانا ہوتا ہے۔رب پاک نے یہ کائنات ویسے بناکر نہیں رکھ چھوڑی کہ اِس کا نظام خود ہی چلتا رہے بلکہ ہر عمل کے بدلے ہرلمحے ردِعمل پیدا ہوتا ہے اور اُس کے اثرات کا خمیازہ پھر اُسے بھگتنا پڑتا ہے جو اِس عمل کا حامل ہوتا ہے۔زندگی میں یہ نہیں کہ ہم جو بھی کرتے رہیں اُس کی کوئی پوچھ گچھ نہیں ایسا نہیں ہے رب پاک ہر فعل کے بدلے اُسی طرح کے عمل سے انسان کو گزارتا ہے جس طرح کا مستحق ہوتا ہے۔ پاکستان کو باعزت قائم رکھنے کے ضروری ہے اِس دیس کے باسی لالچ، تصنع بناوٹ ، لوٹ مار۔ فراڈ،دھوکہ دہی کو چھوڑ کا اسلامی اقدار کو اپنائیں۔کیونکہ آنے والے کل کو بہتر بنانے کے لے قوم کو اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا۔ ایک آخری بات کیا مسلمان اپنے آپ کو سب اُمہ سمجھتے ہیں۔عوام تو سمجھتے ہیں لیکن حکمران ایسا نہیں چاہتے۔ کیونکہ یہود و نصاریٰ صدی ڈیرھ صدی کے بعد مسلمان ممالک کے جغرافیائی نقشے میں اپنی پسن سے تبدیلیاں کرتے ہیں اور اپنی مرغی کے حکمران لے آتے ہیں جن کے جذبات دین کی سربلندی کے لیے نہیں بلکہ اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لیے ہوتے ہیں ان حالات میں اُمتِ واحدہ کا خواب شرمندہ تعبیر کیسے ہوگا۔؟
جب تک معاشی طور پر پسے ہوئے طبقے کو معاشی تحفظ نہیں حاصل ہوگا ملک میں امن اومان کے مسائل پیدا ہوتے رہیں گے۔ حکومتِ پاکستان دہشت گردی کے ساتھ جس قسم کی جنگ لڑ رہی ہے اِس میں کامیابی ہورہی ہے لیکن معاشی طور پر ملک کو مضبوط کیے بغیر ملک میں امن وامان قائم نہیں ہو سکتا۔ ملک کے ساٹھ فیصد لوگ خطِ غُربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ملک میں چند ہزار لوگ اکانومی پر قابض ہیں اور یہ ہی طبقہ اقتدار کے ایوانوں پر بھی برا جمان ہے۔پاکستانی جغرافیائی پوزیشن اُس کے لیے مسائل پیدا کر رہی ہے امریکہ نہیں چاہتا کہ پاکستان میں چین بہت زیادہ سرمایہ کاری کرئے اور پاکستان کی معیشت کو سہارہ دے۔ سماجی اور معاشی انصاف کے بغیر معاشرئے میں امن نہیں ہوسکتا۔ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے بھی معاشی اور سماجی انصاف ہی بہترین طریقہ ہیں۔ بھارت، پاکستان ،بنگلہ دیش کے عوام کا رہن سہن ایک جیسا ہے لیکن سماجی اور معاشی انصاف کی بدولت بھار ت اور بنگلہ دیش معاشی طور پر مستحکم ہو چُکے ہیں اور فی کس آمدنی میں اضافہ،شرح نمو میں ترقی اور خواندگی کی شرح میں بھی پاکستان کے مقابلے میں بہت بہتر ہوچکی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے پاکستان کے مقابلے میں امن ومان کی صورتحال اُن ممالک میں بہتر ہے۔
تعلیم کے ساتھ کردار سازی انتہائی ضروری ہے۔ پاکستانی معاشرئے میں فحاشی کا سرایت کر جانا بہت بڑا المیہ ہے۔تعلیم برائے تعلیم کی بجائے تعلیم برا ئے تربیت کے ماٹو کو اپنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔سرکاری و پرائیوٹ تعلیمی اداروں میں اسلامی ومشرقی اقدار سے ہم آہنگ ماحول قائم کرنا بہت اہم ہے۔نجی چینلز کے لیے کوئی بھی ضابطہ اخلاق نہیں ہے۔آزادیِ رائے اور مادر پدر آزاد معاشرئے میں فرق رکھنا ضروری ہے۔ معاشرئے میں نفوس پزیری کے حامل افراد اساتذہ، ڈاکٹرز، وکلاء،فلاحی تنظیمیں،سول سوسا ئٹی کو آگے بڑھ کر ا پنا بھر پور کردار ادا کرنا ہوگا۔فحاشی وعریانی اخلاقی و روحانی تباہی کا سبب بن رہی ہے۔ تعلیمی اداروں میں تعلیمی اوقات میں موبائل فون کا استعمال طلبہ وطالبات کے لیے زہرِ قاتل ہے ۔پاکستانی معاشرئے میں جتنی تیزی کے ساتھ فحاشی پھیلائی جا رہی ہے ۔ اور فیشن کے نام پر خواتین کے لباس میں اِس طرح کی تبدیلی لا جارہی ہے لگتا ہی نہیں کہ یہ مسلمان ممالک کے لوگ ہیں۔ اخلاقی تربیت کے بغیر معاشرئے میں رواداری برداشت کے جذبے پروان نہیں چڑھ سکتے ۔اللہ پاک اور نبی پاکﷺ کے قائم کردہ اصول ضوابط کے بغیر دُنیا اور آخرت میں کا میابی نہیں مل سکتی۔ مسلمانیت ،نصرانیت میں فرق واضع تب ہی ہو سکتا ہے جب اسلام کے طور طریقے اپنائے جائیں۔ حیرت ہوتی ہے اور ماتم کرنے کو بھی جی چاہتا ہے کہ ہمارئے سیاستدان نہ جانے احمقوں کی کونسی جنت میں بس رہے ہیں کہ اُن کو زمینی حالات کا ادراک ہی نہیں۔لیبیا میں جو کچھ ہوا اور جس طرح وہاں خون خرابہ کیا گیا معمر قذافی کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔اِسی طرح عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی عراقی صدر صدام حسین کو عبرت کا نشان بنانے کے لیے وہ دن چُنا گیا جب مسلمانوں کی عید کا دن تھا اور دنیا بھر کے حالات جہاں تک پہنچے ہیں اور وہاں جس طرح عوام کا قتل عام ہورہا ہے اُس حوالے سے کوئی دو آرا نہیں پائی جاتی ہیں۔مصری عوام اِس وقت یرغمال بنے ہوئے ہیں۔عراق اور مصر میں خانہ جنگی کا ماحول ہے۔یہ داستانیں صدیوں پرانی نہیں ہیں جب خبریں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ نہیں پاتی تھیں یہ انٹرنیٹ، تھری فورجی فور کا دور ہے۔ آن واحد میں دنیا کے ایک کونے کی خبر لاءئیو دوسرئے کونے میں دکھا دی جاتی ہے۔
شام میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ تباہ برباد کرکے رکھ دیا گیا ہے شام کو ۔بھوک افلاس نے ڈیرئے ڈال رکھے ہیں۔کشمیر قیام پاکستان سے لے کر اب تک خون سے رنگین ہے اور قبرستانوں میں جگہیں کم پڑتی جارہی ہیں
افغانستان کی قسمت بھی کچھ ایسی ہی ہے سویت حملے سے لے کر اب تک افغانستان میں قتل و غارت عروج پر ہے امریکی سامراج جن کو پہلے دوست رکھتا تھا اب اُن کے خلاف ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لڑ رہا ہے۔ لاکھوں افغان قتل کردئیے گئے ہیں۔ تباہ حال افغانستان بھوک افلاس کا عبرتناک نشان بن چکا ہے۔اِسی طرح یمن میں بھی شورش جاری ہے بحرین میں بھی لااوا پک چکا ہے اور اِس کا حال گزشتہ مہینوں میں دیکھا بھی جا چکا ہے۔مسلم دنیا کے حوالے سے ایران اور سعودی عرب کا کردار قابل ستائش نہیں ہے۔ اپنی صدیوں سے جاری سرد جنگ کی وجہ سے یہ دونوں ممالک مسلمان ممالک میں ہونے والی تخریبی سرگرمیوں کو آشیرباد دیتے ہیں۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ فرقہ ورانہ جنگ کے بیج بو دئیے گئے ہیں اور سعودی عرب اور ایران اس حوالے سے اپنا کردا ر ادا کرہے ہیں۔خونِ مسلمان کی ارزانی کا اندازہ اِس سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی سامراج مسلمانوں کو تہہ وبالا کرنے پہ تُلا ہوا ہے لیکن مسلمان ممالک کبوتر کی طرح آنکھیں موندھے ہوئے ہیں۔مُتذکرہ بالا ممالک میں خواتیں بوڑھے اور بچے جس جہنم میں زندگی گزار رہے ہیں اُسکا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ گاجر مولیوں کی طرح بچوں بوڑھوں عورتوں کو شھید کیا جارہا ہے۔ترکی، پاکستان، ایران اور سعودی عرب اگر یہ ممالک آپس میں مل بیٹھ جائیں تو شائد امریکی سامراج کو مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے سے منت سماجت کرکے روک سکیں۔ پاکستان میں جاری دہشت گردوں کے خلاف جنگ دراصل بھارت، امریکہ کے خلاف ہے اور پاکستان میں بلوچستان اور کے پی کے میں جتنا نقصان پاک فوج اُٹھا چکی ہے اُس کے مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ عام جوان سے لے کر جرنیل تک اِس دہشت گردی کی جنگ میں شھید ہوئے ہیں۔ اِسی طرح عوام بھی ہزاروں کی تعداد میں دہشت گردی کی نذر ہوچکے ہیں۔ مالی نقصان بھی کھربوں میں ہے۔ہمارئے ملک کے سیاستدان نہ جانے کہاں بستے ہیں وہ ایک دوسرئے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں اُنھیں اِس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ خدا نخواستہ ملک کے وجود کو شدید خطرات لاحو ہیں اور اِن خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے آپس میں اتحاد و اتفاق ہونا ضروری ہے۔پاک فوج آپریشن عضب میں دُشمن سے برسرپیکار ہے۔ اور سیاستدان عوام کو آپس میں لڑوارہے ہیں۔پاکستانی سیاستدانوں کو اپنی کرسی کی حرص کو بالا طاق رکھتے ہوئے ریاست کی حفاظت کے لیے متحد ہوجانا چاہیے۔اقوام متحدہ ،او آئی سی،نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار ممالک کو اِس خون کی ارزانی کا کوئی احساس تک نہیں ہے۔ رزقِ حرام انسان سے ہرطرح کا حیاء اور رواداری چھین لیتا ہے اور انسانی جسم کے اندر داخل ہوکر وہ گُل کھلاتا ہے کہ شراب اور خنزیر سے بھی زیادہ شدت کا حامل ہوتا ہے اور انسان سے انسانیت چھین کر اُسے خوب رسوا کرتا ہے ۔صرف بلی اور کتے کا گوشت حرام نہیں ہوتا بلکہ حرام کی کمائی سے خریدا اور کھایا جانے والا مُرغے کا گوشت حلال ہونے کے باوجود حرام ہوجاتا ہے اور انسان کے قلب کو اور اُس کی روح کو پراگندہ کردیتا انسان کے اندر جاکر وہ حرام زدگیاں کرتا ہے کہ رشتوں کی پہچان تک چھین لیتا ہے۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ جب ہم یہ سوچتے ہیں کہ کیا اچھا ہے اور کیا بُرا ہے تو یہ بات یقین سے بھی بڑھ کر ہمیں پتہ چلتی ہے کہ کسی کا حق مارانا دنیا میں سارئے فساد کی جڑہے۔ حق مارنے سے مراد یہ ہے کہ عدل نہ کیا جائے جس چیز کو جہاں ہونا چاہیے اُسے وہاں نہ رکھا جائے ۔ جو جس کا ہے اُس کے حوالے نہ کیا جائے۔قدرت کے سامنے تمام ترمحرکات ہوتے ہیں قدرت نے ان افعال سے چشم پوشی اختیار نہیں کی ہوتی کیونکہ کائنات کے نظام میں اصل مرکز تو ہے ہی عدل۔ اِس لیے جب کوئی کسی کا حق مارتا ہے ہے تو وہ گویا اپنے لیے حرام چُن لیتا ہے۔وہ حرام جب اُس بندئے کے جسم میں د اخل ہوتا ہے تو اُس کے اندر ایسی جینیاتی تبدیلیاں لاتا ہے کہ خدا کی پناہ ۔پھر وہ شخص نہ تو رشتوں کا تقدس برقرار رکھتا ہے اور نہ ہے حق اور ناحق میں فرق۔ وہ ایک ایسے گدھ کی شکل اختیار کرلیتا ہے جس کی منزل صرف اور صرف مُردار کھانا ہوتا ہے۔رب پاک نے یہ کائنات ویسے بناکر نہیں رکھ چھوڑی کہ اِس کا نظام خود ہی چلتا رہے بلکہ ہر عمل کے بدلے ہرلمحے ردِعمل پیدا ہوتا ہے اور اُس کے اثرات کا خمیازہ پھر اُسے بھگتنا پڑتا ہے جو اِس عمل کا حامل ہوتا ہے۔زندگی میں یہ نہیں کہ ہم جو بھی کرتے رہیں اُس کی کوئی پوچھ گچھ نہیں ایسا نہیں ہے رب پاک ہر فعل کے بدلے اُسی طرح کے عمل سے انسان کو گزارتا ہے جس طرح کا مستحق ہوتا ہے۔ پاکستان کو باعزت قائم رکھنے کے ضروری ہے اِس دیس کے باسی لالچ، تصنع بناوٹ ، لوٹ مار۔ فراڈ،دھوکہ دہی کو چھوڑ کا اسلامی اقدار کو اپنائیں۔کیونکہ آنے والے کل کو بہتر بنانے کے لے قوم کو اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا۔ ایک آخری بات کیا مسلمان اپنے آپ کو سب اُمہ سمجھتے ہیں۔عوام تو سمجھتے ہیں لیکن حکمران ایسا نہیں چاہتے۔ کیونکہ یہود و نصاریٰ صدی ڈیرھ صدی کے بعد مسلمان ممالک کے جغرافیائی نقشے میں اپنی پسن سے تبدیلیاں کرتے ہیں اور اپنی مرغی کے حکمران لے آتے ہیں جن کے جذبات دین کی سربلندی کے لیے نہیں بلکہ اپنے آقاؤں کی خوشنودی کے لیے ہوتے ہیں ان حالات میں اُمتِ واحدہ کا خواب شرمندہ تعبیر کیسے ہوگا۔؟
No comments:
Post a Comment