Saturday, 13 September 2014

what is out come of azadi march and inqlab march, written by ashraf asmi advvocte , human rights activist, انقلاب وآزادی مارچ کے ممکنہ نتائج و عواقب

        

آزادی اور انقلاب مارچ کے ممکنہ نتائج و عواقب

میاں محمد اشرف عاصمی

ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
 
پاکستانی معاشرئے میں برداشت رواداری کی شدت سے کمی محسوس ہورہی ہے۔اسلحہ لے کر اپنی بات منوانے کا رواج چل نکلا ہے دہشت گرد تو اپنی جگہ آ کسفورڈ کے تعلیم یافتہ کپتان بھی اب اپنے کارکنوں کو ہلاشیری دیتے نظر آرہے ہیں۔اُن کے کارکناں سوشل میڈیا پر اپنے مخالفین کو گالیوں سے نواز رہے ہیں اور اسلام آباد میں جیو کے دفتر ، پی ٹی وی اور پولیس کو لٹھ لے کر پڑئے ہوئے ہیں۔میانہ روی کا دور دور تک نشان نہیں ہے۔اپنی اپنی بات کو حرفِ آکر سمجھنے والے عمران کے ساتھ ساتھ مولانا صاحب جو کہ کینیڈا کی قومیت کے حامل ہیں وہ بھی امیرالمومنین بننے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں ایک بات تو طے ہے کہ عمران خان صاحب کو مشرف نے جو وزیراعظم بننے کے خواب دیکھائے تھے اُن کی تعبیر نہ ہونے کی وجہ سے وہ بہت ہی پریشان ہیں بلکہ ہلکان ہوئے جارہے ہیں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ خود کو وزیر اعظم ہی سمجھ بیٹھے ہیں اور اپنی تقاریر میں جو زبان استعمال کر رہے ہیں اُس سے اُن کی سیاسی تربیت کا اندازہ ہوتا ہے۔یہ ہی حال قادری صاحب کا ہے پرویز مشرف نے اُن کو بھی وزیراعظم بننے کے خواب دیکھائے لیکن بعد ازاں بے وفائی کی اور یوں قادری صاحب بھی حکومت میں
ٓآنے کے لیے بے چین ہیں۔ شروع شروع میں جب حالیہ دھرنا شروع ہوا تو قادری عمران دونوں نے اپنے حواس پر قابو رکھا ہوا تھا لیکن پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ایک ماہ سے زائد دھرنا د ینے کے بعد اب عمران قادری کے لب و لجے میں کافی تبدیلی آچُکی ہے۔ کچھ چینلز نے اِس دھرنے کے دوران کئی مرتبہ حکومت کا دھرن تختہ کیا اور بیسیوں بار نواز شریف کو گھر بھیجا اور اِسی طرح فوج جیسے ادارئے کو بھی اُنھوں نے خوب اِس میں گھسیٹنے کی کوشش کی ۔سلام ہے پاک فوج کو کہ اُس نے اپنی توجہ آپریشن ضربِ عزب پر مرکوز رکھی ہوئی ہے۔ اور پاک فوج سیلاب زدگان کے لیے دن رات مصروفِ عمل ہے۔ ہماری پچاس سال سے زائد کی تارئیخ میں پیدا ہونے ہوالے مسائل کے حوالے سے عمران قادری نے خوب محنت کی اور اِن مسائل کو زبانِ زدوعام کر دیااب اِن مسائل کو نظر انداز کرنا کسی بھی حکومت کے لیے ممکن نہ ہوگا دوسری بات یہ کہ میڈیا کی وجہ سے عوام کے اندر آگہی و ادراک کی ایک لہر اُٹھی ہے اور آنے والے کل میں یہ سب کچھ پاکستان کے عوام کے لیے انقلاب پیدا کرسکتی ہے۔ اب دوسری طرف آئیں یہ کہنا کہ عمران کو یا قادری کو حکومت ملے تو مسائل حل ہو جائیں گے۔اِس حوالے سے راقم کی عرض ہے کہ ملک کو انتشار سے بچائیں اور ملک کے انتخا بی نظام میں اصلاحات لانے سے معاملات بہتری کی طر ف اپنا رُخ بدل لیں گے اور یوں قادری عمران کے دھرنے کے ثمرات بھی باآور ہوں گے لیکن اگر عمران قادی ر سارئے نظام کا بستر گول کرکے خود ہی حکمرانی کرنا چاہتے ہیں تو ملک میں انارکی پھیلنے کا شدید خطرہ ہے ۔ نظام کو چلنے دیں اور حکومت سے اصلاحتی نظام لاگو کروائیں اور عوام کو ایجوکیٹ کریں تاکہ بہتر پاکستان بن سکے اور گا لیاں دینا اور بد تمیزی سے جلسوں میں مخلالفین کو بُلانا اچھا فعل نہیں ہے۔ جاوید ہاشمی کی اسمبلی کے فلور میں تقریر کے بعد عمران خان کو بہت کچھ سوچنے کی ضرورت ہے وہ ایک اچھے کرکٹ کے کھلاڑی ضرور ہین لیکن عوام کی نبض پر اُن کا ہاتھ بالکل نہیں ہے اور قادری صاحب کے متعلق بھی صورتحال اچھی نہیں ہے راقم خود بہت عرصہ منہاج القران اور عوامی تحریک سے وابستہ رہا میرئے خیال میں قادری صاحب نے اپنی انا اور نواز دُشمنی میں اپنے معتقدین کے خوابوں کو چکنا چُور کیا ہے ۔
جاوید ہاشمی نے عمران کے طرز انقلاب کو پسند نہیں کیا اور عمران کے متعلق وہ سب کچھ زبان پر لے آئے جو کوئی اور کہتا تو شائد تحریک انصاف والے نہ مانتے لیکن یہ سب کچھ تو اُن کے اپنے صدر نے کہا ہے۔ قادری،عمران کی لندن میں ملاقات، دارلحکومت پہ چڑھائی،پی ٹی وی پر حملہ، حکومت پاکستان اور ریاستِ پاکستا ن کو عملاً عضو معطل بنا دینا۔ جاوید ہاشمی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ جھوٹ نہیں بو لتے اُن کا ایک کردار ہے ۔اُن کی جانب سے یہ کہنا کہ عمران نے یہ سب کچھ فوج کے عناصر کی جانب سے ہلا شیری سے کیا ہے اور وہ ہر قیمت پر وزیر اعظم بننا چاہتا ہے۔ اِس حوالے سے عمران خان کے کزن اور بہنوئی حفیظ اللہ نیازی کے جنگ اخبار میں چھپنے والے دو حالیہ کالم بہت اہم ہیں جن میں ہاشمی صاحب کے موقف کی تائید نظر آتی ہے۔عمران اور قادری کا اکھٹے دھرنا دینا اور قادری کا عمران کو اپنا بھائی قرار دینا۔ یہ سب کیا ہے۔عمران بھی وزیر اعظم بننا چاہتا ہے لیکن افسوس اب بھی غریب لوگوں کا خون بہایا اور عمران قادری نے اپنی انا اور لالچ کے بھینت معصوم لوگوں کو مروایا۔سانحہ ماڈل ٹاون المناک داستان ہے لیکن اِس کے پیچھ بھی قادری صاحب کی سانحہ سے پہلے والی تقریر ہے جس میں اُنھوں نے کفر اور حق کی جنگ میں کو د جانے کا درس اپنے تقلید کرنے والوں کو دیا۔جن قوتوں نے لانگ مارچ کروانے کے لیے عوام النا س کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کی اُن کو عوام الناس سے کوئی مثبت ردِعمل نہیں مل سکا۔ طاہرالقادری صاحب کے صرف ماننے والے جن کی تعداد آزاد میڈیا کے مطابق چند ہزار کے قریب تھی وہ اس لانگ مارچ اور دھرنے میں شریک ہیں لیکن قادری صاحب خود ایک پُرآسائش کنٹینر میں۔ درد سے آشنائی بھی عجب شے ہے۔ زمانے کے اپنے انداز ہوا کرتے ہیں مادی خواہشات انسان کو اس منصب سے بھی بعض اوقات گرادیتی ہیں جس کے حصول کے لیے انسانی تہذیب وتمدن نے ایک طویل جہدوجہدسے ایک لمبا سفر طے کیا۔ ایک ایسے ماحول میں جب دُنیا بہت سی دشورایوں سے گزر رہی ہے ان حالات میں مغرب اور مشرق کے طور طریقے نئے رنگوں میں ڈھل رہے ہیں لیکن ایک افسوس ناک پہلو اس ساری تگ ودو کا یہ ہے انسانی اقدار میں اِس طرح سے کمی آئی ہے کہ انسانیت کی اخلاقی تنزلی کا ساماں یہ ہی مادی ترقی ثابت ہورہی ہے۔ یہ درست ہے کہ تمام تر مسائل یکِ جنبشِ قلم حل نہیں ہوسکتے لیکن پھر بھی کوئی بھی ایسی ٹھوس کوشش اِس حوالے سے وقوع پذیر نہیں ہو پارہی ۔ دُنیا بھر کے مذہبی مبلغین خواہ جن کا تعلق کسی بھی مذہب نسل ، قوم،علاقے سے ہے اپنے طور پر تو دن رات کوشاں ہیں لیکن یہ تمام تر کوششیں ثمر آور نہیں ہو پارہی ہیں۔ یہ ہی حال جناب قادری صاحب کے لانگ مارچ کا ہے کہ ملک میں استحکام نہیں ۔معاشی طور جس طرح ملک کو لاغر کردیا گیا ہے اِن دھرنے والوں کے شغل شغل میں ملک کھربوں کا نقصان پہنچایا گیا ہے۔ نواز شریف کے پیچھے تو عمران قادری ایسے پڑ گئے ہیں جیسے وہ ہی حکمران تھا حالانکہ ماضی قریب میں تو زرداری،مشرف تھے نواز شریف تو چودہ سل بعد وزیراعظم بنے ہیں ۔مشرف کے حواری ملک میں حقیقی جمہوریت لانے کے لیے ہلکان ہورہے ہیں جتنے کردار اِس وقت دھرنے میں اِن ہیں یہ تمام کے تمام مشرف کے ریفرنڈم کے پیشکار تھے۔ قادری، گجرات کے چوہدری، شیخ رشید،عمران مشرف کے فرنٹ مین تھے اُس وقت دودھ کی نہریں بہہ رہی تھیں ملک خوشحال تھے۔بدترین منافقت کا شاخسانہ اِن دونوں کا کردار ہے جو کہ
ایک کرکٹر ہے اور دوسرا مذہب کے نام پر اموشینل بلیک میلنگ کر رہا ہے۔

No comments:

Post a Comment