Wednesday, 31 December 2014

My this article about the discussion of the Military Courts, Every body has a right to comment on it.please comment and also share it. regards. ashraf asmi advocate




Military Courts ?

Ashraf Asmi
Advocate High Court


Nation of Pakistan is in acute pain in its soul, as the army Public School, incident has acute effects on the nervous. But as it is common practice when any incident took place, rulers become active, try for the action according to the situation, and then remain salient. Is it the destiny of the nation as a whole, even whole political force joined hands just after the incident of army public school? The meeting which was chaired by PM and whole political force and COAS.The Message of unity was given by the Civil & Military Establishment. But now the ball is in the court of Political Forces. Now it is the main issue there should be military court to proceed the cases of Terrorist’s. whole nation knows that our judicial system is not delivering. Pakistani Society was created in the name of peace & prosperity. The Whole Muslims of India were behind in this movement. Even the minorities, those are now living in Pakistan also contributed in the struggle of Pakistan. The founder of Pakistan was not a lay man, he was a noble Lawyer. He always supported the rule of law. When Pakistan was created, it was decided that there would be rule of law in the society. Muhammad Ali Jinah was  a true nationalist, He dedicated his whole life for the creation of a separate homeland. The objectivity of the creation of Pakistan was not fulfilled. Every nation has some liabilities, to discharge of the liability is not a duty of a person and  a group of  persons. The whole nation could not play  its role.  It is not the failure of the nation only but fact is that the nation has been hijacked by few lords. So the decision of the  destiny was only by a  group of Lords. It is clear cut fact that Pakistani nation could not become owner of its own fate.  So there has been started the game of power. Even the political leaders were not genuine , they became leaders only because of money and their undue pressure on the people of rural areas. So after the death of the great Pakistani founder Muhammad Ali Jinnah, from the day one ,  Govt formed by the Pakistani establishment  was not democratic, Now the condition is that, there is no political and social stability. People of all walks of life are disturb , Even there is no justice in any field of society. No Doubt there is satisfactory role of High Courts & Supreme Court, but the reality is that there is nothing because of our very poor and weak prosecution system. When there is no proper Prosecution system is adopted, the cases are not properly adjudicated so the judiciary has to blame for long process. As a practicing Lawyer, it is my honest opinion that role of courts are not properly executed because of the delaying tactics adopted by the Prosecution department. As prosecution department is not supervised by judiciary, it is run by govt, so there are lot  of problems arises because of nepotism, bribery, and inefficient officials. The result is that, system of judiciary is considered inefficient.Miltary courts will be headed by the Military Officials. We have no second opinion about the speedy trial done by the Military courts, but thing is that determination of the accused is not the job of a military officials. As common person knows only practicing lawyers can become a good judge or a lawyer who joined judiciary as a civil or additional judge as a career. But how is  it  possible without spending time in the judicial process, a person can be come a judge. our Military establishment is the core protector of the Pakistan, but without proper practicing how can be a military official can  be work as a judge. The vision, approach, practice is main thing in the profession of judge. Without having practices, no body can become judge even he has PhD degree in law. Just knowing the law is not the solution, real thing is that, the judge should have grasp over the whole process. But even then if govt feels that due to its weaknesses or less control on administration, may form special courts headed by military officials for a specific short term. Now the law professionals have different opinion, a school of thought has view that  there is no need of any amendment in the constitution to form military courts, But other school of thought has view that there should be amendment in the constitution and there is also a voice being raised by the legal fraternity against the setup of military officials. They considered that military courts are not able to proceed the cases of high treason, which is right and liability of Judiciary .Judiciary is also an active  part of the state. The three argons of the state, Judiciary, Parliament and executive should  kept in his mind, the present situation is not the normal situation, we are in a war, so it is duty of these three argons to take decision about the military courts for the best interest of the country. If this country survives then we can survives. We are nothing without this country. In the emergency conditions , some times , extra ordinary steps are necessary.

………………………………………………
Writer is practicing Lawyer










Saturday, 27 December 2014

.....میلاد پاک پیغمبر ﷺ کا سبق..........میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ.. پیغمبر ﷺ emotions with love of prophet muhammad





..میلاد پاک پیغمبر ﷺ کا سبق.


میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

اللہ پاک نے کائنات کی رشدو ہدایت کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار رسول ؑ ونبی ؑ معبوث فرمائے۔ اِس عظیم سلسلے نے رب کا پیغام سسکتی ہوئی انسانیت کو دیا اور کائنات میں امن و آشتی کی خاطر ہر اللہ کے نبی ؑ نے اپنا اپنا کردار ادا کیا۔جب اِس رشدو ہدایت کے سلسلے کی تکمیل چاہی گئی تو اللہ پاک نے پیغمبر اعظم وآخر محمدﷺ کو دُنیا میں بھیجا۔ نبی پاکﷺ کی ولادت با سعادت پوری کائنات کے لیے ایک عظیم خوشخبری لے کر آئی۔ آپﷺ کی آمد سے عرب کی سرزمین لہلانے لگی اور انسانیت کو قرار ملا۔اللہ پاک نے آپﷺ کو یتیم پیدا کیا۔ آپﷺ کی پرورش سے لے کر عہد جوانی و نبوت کی پہلی وحی نازل ہونے تک کے حالات و واقعات اِس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ نبی پاکﷺ کی حیات طیبہ کی ایک ایک ساعت انسانیت کی فلاح و بہبود اور رُشد وہدایت کے لیے وقف رہی۔اللہ پاک نے آپﷺ کی ذاتِ مبارک کو رحمت عالم بنا دیا اور آپ ﷺ نے پہلی وحی سے لے کر ظاہر ی زندگی کی آخری ساعت تک انسانیت کی عزت و تکریم کے لیے خود کو نمونہ بنائے رکھے۔ عرب کے معاشرئے میں جاری سینکڑوں سالوں پہ محیط جنگوں کو ختم کر وایا۔ آپ ﷺ کی شخصیت کا یہ اعجاز کہ اللہ پاک نے آپ ﷺ کو معراج کی سیر کروائی۔ جو لوگ بھی آپ ﷺ کے واقعہ معراج کو صرف ایک خواب سے تعبیر کرتے ہیں وہ درحقیقت اپنے رب کو رب ماننے سے انکار کرتے ہیں کیونکہ اللہ پاک تو ہر عمل پر قادر ہے اور وہ اپنے پیارئے نبی ﷺ کو معراج کی سیر کروانے پر قادر ہے۔معراج کی سیر کے دوران نبی پاکﷺ نے جنت و دوزخ کا بھی مشاہدہ کیا اور بیت المقدس میں تمام انبیاء کی اما مت فرمائی ۔ اللہ پاک کا ہر علم ذاتی ہے اور نبی پاک کا ہر علم اللہ پاک کی جانب سے عطائی ہے گویا نبی پاکﷺ کے کسی بھی معجزئے کو تسلیم نہ کرنا در حقیقت اللہ پاک کی قدرت سے انکار ہے۔ظاہری سے بات ہے اللہ پاک نے جس شخصیت کو تاجدارِ ختم نبوت کا تاج پہنانا تھا تو اُس کے لیے جس عظیم شخصیت کو چنا جانا تھا اُس شخصیت کو اُن تما م فیوض و برکات سے نوازنا تھا جو کہ ہر نبی میں فرداً فرداً تھیں گویا آپ کی شخصیت میں وہ تمام کمالات موجود ہیں جو دیگر انبیاء کی شخصیت میں انفرادی طور پر موجود تھے ۔اِس لیے نبی پاک ﷺ کی شانِ اقدس کے حوالے سے جو بھی چوں چراں کرتا ہے وہ درحقیقت اللہ پاک کی قدرت کو ماننے سے انکاری ہے نہ کہ نبی پاکﷺ کے کمالات کو۔اِس لیے نبی پاکﷺ کی مکی و مدنی زندگی میں جو بھی واقعات رونماء ہوئے جس طرح وقتاً فوقتاً قران پاک کا نزول ہوتا رہا یہ سب احوال درحقیقت اللہ پاک کی جانب سے اپنے پیارئے نبی پاکﷺ کی عزت وحرمت کا اظہار ہی تو ہیں پھر رب پاک نے یہاں تک کہہ دیا کہ کہ جس نے میرئے رسولﷺ کی اطاعت کی گویاُ س نے میری اطاعت کی۔بیت الرضوان کے موقع پر رب نے فرمادیا کہ وہ ہاتھ جس پر نبی پاکﷺ نے بیت لی وہ میرا ہاتھ تھا۔ اِس لیے جو لوگ ہر وقت اِس ٹوہ میں رہتے ہیں کہ نبی پاکﷺ کی شانِ اقدس اور آپکی حرمت میں کمی لانے کی تاویلیں گھڑی جائیں اُن کو اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ نبی پاکﷺ کی محبت پر ہی مسلمانوں کے ایمان کی عمارت کھڑی ہے اگر نبی پاکﷺ کی محبت کسی دل میں نہیں ہے تو وہ دل کسی کافر کا تو ہو سکتا ہے کسی مومن کا نہیں۔ اِس لیے کہ اقبالؒ نے فرمایا تھا کہ ہر مسلمان کے اندر روح محمدﷺ ہے یعنی نبی پاک ﷺکا عشق ہے اور اگر نبی پاک ﷺکا عشق مسلمان کے دل میں نہیں تو وہ پھر مومن کی صف میں نہیں بلکہ وہ ابوجہل کی صف میں خود کو شامل سمجھے۔ اللہ پاک کا یہ فرمان کہ ائے نبی ﷺ اگر میں تمھیں پیدا نہ کرتا تو زمین و آسمان پیدا نہ کرتا حتیٰ کہ اپنے رب ہونے کا اظہار نہ کرتا۔نبی پاک ﷺسے محبت کی اِس سے زیادہ کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ اللہ پاک نے نبی پاکﷺ کی وجہ سے کائنات کو تخلیق فرمایا ۔نبی پاکﷺ کے مقام کے تحفظ کی زمہ داری ہر مومن مسلمان پر ہے۔اللہ پاک کی وحدانیت پر ایمان دیگر تمام مذاہب میں موجود ہے لیکن خالص توحید سے آشنائی ہمیں نبی پاک ﷺ کے توسط سے رب پاک نے عطافرما ئی اِسی لیے تو عاشق رسولﷺ کہتے ہیں کہ ہمارا رب وہی رب ہے جس سے آشنائی ہمیں نبی پاکﷺ نے دی۔اِس لیے مسلمانوں کے اندر تفرقہ بازی پھوٹ ڈالنے کے لیے کفار نے ہمیشہ سازشوں کا سہارا لیا ہے اور نبی پاکﷺ کی عزت و حرمت اور آپکی شان اقدس پر نقب لگانے کی کوشش کی ہے جس سے بہت سے لوگ اِس مغالطے کا شکار ہو گاتے ہیں کہ جیسے نبی پاکﷺ نعوذباللہ عام انسان جیسی ہے۔اگر عشق اور عقلی تقاضوں پر بھی پرکھا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ پوری کائنات میں اللہ کے بعد سب سے بڑی ہستی عام کیسے ہو سکتی ہے۔ اِس لیے محبت رسول ﷺ جب تک مسلمان کے دل میں نہیں ہے تو وہ دل مردہ ہے۔ مسلمان اور دیگر مذاہب کے لوگوں میں فرق ہی نبی پاکﷺ کی رسالت پر ایمان کا ہے۔ اگر نبی پاکﷺ کی شانِ اقدس کو اُس طرح نہ مانا جائے جس طرح رب نے ہمیں ماننے کا حکم دیا ہے تو پھر ایسے شخص کو کوئی حق نہیں کہ وہ نبی پاکﷺ کے نام کا کلمہ پڑھے اورخود کو مسلمان کہلوائے۔راقم کو یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے دلوں سے نبی پاکﷺ کی عزت و احترام کو کم کرنے کے لیے طرح طرح کے حیلے بہانے کرتے ہیں گزشتہ سالوں میں مسلمانوں کے دلوں کو زخمی کرنے کے لیے ڈنمارک اور سپین میں ناپاک سازشیں کی گئیں اور سماجی رابطے کی ویب سایٹ فیس بک کو اِس مذموم ہتھکنڈئے کے طور پر استعمال کیا گیا اور اِس ساری حرکت کو فریڈم آف ایکسپریشن سے جوڑ دیا گیا۔جب ا،س طرح ک کی مہم کفار کی جانب سے کی جاتی ہے تو پھر جو کم فہم اور عشق محمد ﷺ سے محروم لوگ ہیں وہ کس طرح نبی ﷺکی شان کا تحفظ کرسکتے ہیں۔ اِس لیے مسلمان کے لیے عشق نبی پاکﷺ پر کاربند رہنا ہی اُسکے ایمان کی کسوٹی ہے۔نبی پاکﷺ سے محبت کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی ہر سنت پر جان فدا کرنی ہے اِس لیے آپ ﷺ سے محبت ہر مومن مسلمان سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ دنیا میں امن کے لیے اپنا بھر پور کردار ادا کیا جائے۔پاکستان میں دہشت گردوں کی جانب سے جو ہر طرف لہو بہایا جارہا ہے اِس کی نہ صرف مذمت کریں بلکہ اِس ناحق خون بہانے والوں کو سدباب کرنے کے لیے اپنا بھر پور کردار ادا کریں۔ جب تک عقید ت اطاعت میں نہیں ڈھلتی اور خالی نعرئے لگانے سے محبت رسولﷺ کے تقاصے پورئے نہیں ہو سکتے۔اگر دل سے محمد ﷺ کا جمال چلا گیا تو پھر سمجھ لیجیے کہ ہاتھ سے خدا چلا گیا۔



Friday, 26 December 2014

Great Blessing For Humanity Milad UL NABI Sallallahu Alaihi Wasallam Ashraf Asmi ,Advocate High Court, Human Rights Activist Chairman M J F


Great Blessing For  Humanity  Milad UL NABI Sallallahu Alaihi Wasallam

 Ashraf Asmi ,Advocate High Court

Allah Pak has mentioned in His Holy Book Quran, If any one kills even a single person, it means he killed whole world. This message showes how is sacred blood of human being. Human life has different dimensions, it has to pass so many phases, there was an evolution of thousands years of the life of humanity. In-spite of different revelations of God, the God has sent His Messenger to the whole world in different time in different places, the only lesson of the whole Messengers of God was faith in one God. There is no god but Allah Pak.The holy book were also reveled for the guidance of the human being but when Great Allah Pak wanted to complete the code of life for whole humanity then Allah Pak sent His last Prophet Hazrat Muhammad S.A.W.W.The Great Book Holy Quran was also reveled .The process of revelation of Quran is about twenty fourth years long. So the holy Prophet S.A.W.W. was given statutes of last Prophet by the Allah pak.No one in the world can compare the Holy Book Quran with any other book. Being a last Prophet of God, Nabi Pak S.A.W.W presented his life as a great source of inspiration and guidance for whole humanity. The whole world is always indebted for the blessings of Nabi Pak S.A.W.W.As Allah Pak have clearly mentioned that MUHAMMAD S.A.W.W is great blessing for the whole human being. The life of Nabi Pak S.A.W.W is role of model for every human being. Muslims of all over the world celebrate the Birth of Great Reformer of World, Great Law Giver. The history can not present any person whole has such noble life like Nabi Pak W.A.W.W . No doubt Allah Pak has completed His Message through Nabi Pak S.A.W.W. It is Great blessing of Great God, we are the follower of great Muhammad S.A.W.W. We as a Muslim are the preacher of Peace love & Prosperity. Once great Mulana Shah Ahmad Norani R.A explained the meaning of ISLAM, I Shall Love Always Muhammad S.A.W.W. If we look around us we may conclude that the Muslim Umah is in the grip of conspiracies. The US, Israel and India are trying to destabilize our country, the so called Taliban are the agents of US and its Allies. The are doing to defame the Muslims. The resent Incident of Peshawar has opened the eyes of the whole nation. Now we may say that the Civil & Military Establishment and Political forces have joined hands against the war of terrorism.  If few elements in society have a view in favor of so called Tablan, it should be condemned as this way is against the constitution of Pakistan and Islamic thoughts. The message of the Great Prophet of Allah Pak is Peace. In the present era when Pakistani Muslims are celebrating the birth of Nabi Pak S.A.W.W, we should recall the teachings of Holy Prophet S.A.W.W. If we are the lover of Great Nabi Pak S.A.W.W then We should follow the teachings of Holy Prophet S.A.W.W.The day of Milad of Nabi Pak requires from us that the blood of every human being is sacred , the honor of every one is sacred, we as Muslims are answerable for all deeds before Great Almighty God. The attitude of nations should be humble, if love Muhammad S.A.W.W then we should obey his teachings. without fulfilling the liability we can not be considered a good Muslim.    


Thursday, 25 December 2014

Peshawaer Incident Is Last Warning For Pakistani Rulers WrittenBy: Ashraf Asmi Advocate

         

         Peshawaer Incident Is Last Warning                    For Pakistani Rulers

WrittenBy: Ashraf Asmi Advocate 

Some times grief is too acute that can not be expressed in words. Even tears can be source of expressions. Pakistani  People have to face a very difficult situation, on the one side there is already war against terrorists is in progress, meanwhile such kind of situation occurred which  can not be born by any human. Every section of the society is mourning in this sad event. As wagha Border sad incident was just alive in the minds soon the Peshawar incident has created havoc in the whole country. Army officials already sacrificing their lives for the dear homeland but terrorists now took acute step to kill the innocent children of army officials. Actually so called Jahadies has confused the situation. There is no soft corner for terrorists but here is problems, the so called Jhadies are twisting the situation, they are treating our army as army of enemy, as Mr. mavwer Hassan ex ameer JI said, any army officials who martyred in the war of terrorism is not martyred but terrorist .This is the opinion of a Political Religious Party.Similarary so called Mulvi Abdulaziz also refused to condemn the act of terrorism in the army public school. This kind of people including Mulan Fazal Rehamn leader JUI also has the same stance in this issue. The above discussed stance of the religious leaders is against the integrity of the country. If life is so cheap in Pakistan then we should say it is not Pak land. Pak land is that land that must be safe for every human being. When we  reminds the object of this holy land , we should keep in our mind as we are against US, similarly Iran & KSA is creating  havoc in our dear homeland. Petro Islam has destroyed the shape of our country , No one is in Pakistan who forbade these two countries to restrain from interference in our indigenous matters. KSA has its old enmity with the Iran, So both countries are fighting their own war in our land, Afghanistan is also victim of this war. But our rulers never realized the facts, So called Talban is product of the Arabs, Financial resources are being provided by Arabs to these elements. In the Ziea  Regime, the petro Islam entered speedy in Pakistan, So the Russian & Afghan War was the main outcome of the that War. Us got its own benefits and left the Pakistan alone. The Warrior  Imported from  other countries became pain of head for Pakistan. The stability of the whole region is depend upon the role of State of Pakistan. If Pakistani State never permitted to any foreigner to use its land for the activities of Terrorism. Un-fortunately Musherf era was not favorable for us. Us war of Terrorism was fought by us. There was free entry and exist of Us troops and logistics. Musheraf Govt could not  handle the matter so cleverly, it is the reason Us is still in Afghanistan. Recent Pat Govt  of PPP led by Zardari was not stable Govt, So Zardari only tried to save his  Govt but could not give attention to resolve the problem of Teriorism. The big players of power game of the world also tried to again destabilized the present Nawaz  Govt and for this purpose a long serial of protest was organized , this thing has weakened the govt. The Present attack of Pesheawer has created unity among the politicians but history has its own prediction, our politicians are just doing for rule. In Peshawar the killings of innocent students has shuddered every thing.Our Army General Raheel Sharief is playing vital role to make harmony  among the masses. The role of our Political Govt should also be active. It is the time when Nation is in acute pain of sorrows, Now PM Nawaz Should come forward and  role play as father of Nation. We should now clearly mentioned before obama that now enough is enough. Govt and Army should look at the attitude of Mulana abdul aziz of Jami Hafsa and ex Ameer of JI Manwer Hassan  
………………………………………Writer is Practicing Lawyer


Wednesday, 24 December 2014

بھٹو سیاست کے انمٹ نقوش میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ27 دسمبر کے حوالے سے ایک تحریر, Ashraf Asmi writes about bibi


بھٹو سیاست کے انمٹ نقوش 

میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ27   دسمبر کے حوالے سے ایک تحریر



انسانی جبلت کے تقاضے پاکستانی سیاست میں اُسی طرح نفوذ پزیر ہیں جس طرح دیگر معاملات میں پاکستانی اپنی جبلت اور رسومات میں بندھے ہوئے ہیں۔ پاکستانی سیاست کے انداز کچھ اِس طرح کہ ہیں کہ خاندانی پس منظر کاپاکستان میں بہت ہی زیادہ عمل دخل ہے۔ جب بھی کبھی پیپلز پارٹی کے ایسے کارکنوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا ہے جن کے دل بھٹو کی محبت میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں تو مجھے اُن کے اِس جذبے پر رشک آتا ہے کہ بہار ہو یا خزاں، مارشل لاء کا دور ہو یا جمہوریت کے ایام۔پیپلز پارٹی کے جیالے ہر دور میں بھٹو سے محبت کا دم بھرتے ہیں۔ انسانی آزادیوں کے حوالے سے بھٹو نے جو جذبہِ شوق پاکستان کے طول و عرض میں رہنے والوں کے دل میں پیدا کیا اُس کی مثال حضرت قائد اعظمؒ کے بعد دی جاسکتی ہے۔ ہم بھٹو صاحب کی سیاست سے اختلافات کر سکتے ہیں میری دانست میں ذوالفقار علی بھٹو کی طلسماتی شخصیت نے پاکستانی سیاست کو ہنوز اپنی گرفت میں رکھا ہوا ہے۔ نواز شریف نے مسلم لیگ کو پھر عوامی جماعت بنایا اور پیپلز پارٹی کے مخالف کیمپ کو پنی سیاست کا محور بنایا جس کی وجہ سے گذشتہ تین دہائیوں سے نواز شریف کی سیاست کا طوطی بول رہا ہے لیکن جس طرح سے گزشتہ دو دہائیوں سے عمران خان نے محنت کی اور سیاست میں نواز شریف کے حلقہ اثر کو کو اپنی طرف ترغیب دی ۔بھٹو سیاست کا کرشمہ سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ بھٹو کو اپنی سیاست کے انداز کو جلا بخشنے کا موقع ایوب کے دور میں ملا جب بھٹو نے غریب کے لیے آواز بلند کی۔ عام آدمی کو قوتِ گویائی بخشی بھٹو سیاست نے پاکستان میں دھوم مچادی۔ بھٹو نے ایک لاکھ کے قریب پاکستانی قیدیوں کو ہندوستان سے رہائی دلوائی اور اسلامی سوشلزم کو غریب کی منزل قرار دئے دیا۔بنگلہ دیش کے قیام کے بعد قوم کی روح چھلنی تھی بھٹو نے اسلامی سربراہی کانفرس لاہور میں منعقد کرکے مسلم دُنیا کے اتحاد کی داغ بیل ڈالی۔ نجی اداروں کی بدترین کارکردگی کی بناء پر نیشنلائزیشن کی پالیسی شروع کی جس سے وقتی طور پر تو عوام نے بہت جوش کا مظاہرہ کیا لیکن بعد ازاں حکومتی اداروں کی بدترین کارکردگی نے یہ ہی قومیائے گئے ادارئے عوام کے لیے سوہانِ روح بن گئے۔ بھٹو کی مقبولیت نے جنوبی اشیاء میں دور رس اثرات چھوڑئے کیونکہ قومی اسمبلی اور عوامی اجتماعات میں بھٹو کی تقاریر نے سماجی طور پر آمریت کی پسی ہوئی قوم کو ایک نئی زبان بخشی۔ 1973 ء کا متفقہ آئین بھٹو کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ اِس آئین کو بنانے والی اسمبلی میں ہر طبقہِ فکر کی نمائندگی تھی اور اِس متفقہ آئین نے پاکستانی فیڈریشن کو ایک قومی دھارئے میں رکھنے کا کردار ادا کیا۔ دوسری طرف بھٹو نے ختمِ نبوت کا قانون اسمبلی سے منظور کرواکر پوری دُنیا کے مسلمانوں کے دل جیت لیے ۔بھٹو کی معاشی طور پر مضبوطی کے خواب نے کہ اپنی قوم کو امریکہ کی بجائے سوشلزم بلاک کی طرف رغبت دلائی ۔ اسی لیے امریکہ بہادر کو پاکستان کے خلاف اقدامات کرنے پر مجبور کردیا یوں علاقے کا تھانے دار بننے کے زُعم میں بھٹو کی حکومت کو بر طرف کرکے آمریت مسلط کردی اور اِس ضیاء کی آمریت نے روس کے خلاف امریکہ کی بھرپور معاونت کی اور روس پارہ پارہ ہو گیا۔لیکن جیسے ہی امریکی مقاصد پورئے ہوئے تو امریکہ نے افغانستان کو بھی اکیلا چھوڑ دیا اور پاکستان کو بھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے مفادات کے تحفظ پر مامور جنرل ضیاء کو ایک حادثے میں مروادیا۔ یوں پاکستان کی سر زمین امریکی مفادات کی آمجگاہ بنی رہی بھٹو نے بہت کوشش کی کہ پاکستان کو آزاد معاشی نظام یعنی سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت سے بچانے کی بھر پور کوشش کی اور ایران اور عرب دُنیا سے تعلقات کو بہتر بنانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ضیاء جس نے بھٹو کو پھانسی دلوائی اور بھٹو خاندان کو بعد ازاں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بھٹو خاندان کی موت غیر طبعی ہوئی ماسوائے نصرت بھٹو جس نے بہت عرصہ خود فراموشی میں گزارا اور کومے کی حالت میں ہی اگلے جہان سدھار گئی۔ شاہ نواز کی موت شام میں ہوئی، مرتضی کی موت اپنے بہن کے اقتدار کے دنوں میں ہوئی اور بے نظیر بھی لیاقت باغ میں گولیوں سے چھلنی کردی گئی۔ بے نظیر اپنے باپ کی پھانسی کے بعد جس طرح ایک آہنی خاتون کے طور پر پاکستانی سیاست میں نمودار ہوئیں اور جس طرح ضیاء کی موت کے بعد پاکستانی سیاست میں بھونچال بپا کر گئی اُس نے بھٹو کی سیاست کو پھر سے زندہ کردیا اور بے نظیر وزیراعظم کے طور پر منتخب ہوگئیں۔ بے نظیر نے اپنے باپ کی مانند پاکستان کو ایٹمی پاکستان بنانے کے سفر کو جاری رکھا۔ اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کوئی کمپرومائز نہ کیا۔ نواز شریف کی سیاست کا مرکز و محور آغاز میں بطور ضیاء کے جانشین کے طور پر تھا لیکن بعد ازاں پاکستان میں دائیں بازو کے حلقے کا نمائندہ بن گئے اور بے نظیر لیفٹ ونگ کی سربراہ۔بے نظیر نے دو ادوار بطور وزیر اعظم گزارائے اور بے نظیر کی حکومت کا انداز اینٹی اسٹیبلیشمنٹ رہا یوں سول و ملٹری بیورو کریسی کے ساتھ بے نظیر حکومت کے تعلقات پنپ نہ سکے اور بے نظیر کے اداور میں ملک کو معاشی طور پر بھی سنبھلنے کا موقع نہ ملا۔ نواز شریف اور بے نظیر کے ادوار پاکستان میں بہت زیادہ الزامات کے سیاست کے زیرِ اثر رہے اور اِسی اثناء میں نواز شریف نے موٹر وئے بنوائی اور ایٹمی دھماکے بھی کر ڈالے ۔ یوں نواز شریف جو کہ ہمیشہ سول ملٹری اسٹیبلیشمنٹ کی انکھوں کا تارا رہے اُن کی حکومت کو 12اکتو بر 999 1کو جنرل مشرف نے ختم کر ڈالا ۔ نواز شریف کی حکومت کے خاتمے سے پہلے ہی بے نظیر کو سیاسی طور پر ہراساں کرنے کے لیے مختلف قسم کے مقدمات میں پھنسادیا گیا یوں بے نظیر کو مجبوراً جلا وطنی اختیا ر کرنا پڑی۔ مشرف حکومت گجرات کے چوہدریوں اور راولپنڈی کے شیخ رشیدوں کی مرہونِ منت رہی اور ملک میں نائن الیون کی بناء پر دہشت گردی کا بدترین تحفہ دئے گئی۔ بے نظیر کی پاکستان آمد مشرف کے ساتھ ایک این آر او کے تحت ہوئی اور بے نظیر کے ساتھ نواز شریف کے ہونے والے لندن میں معائدئے میثاقِ جمہوریت کی بدولت نواز شریف کو پاکستان میں لانے کے لیے بے نظیر نے مشرف کو مجبور کردیا۔مشرف کی خواہش تھی کہ بے نظیر اور نواز شریف پاکستان نہ آتے تاکہ مشرف کی حکومت چلتی رہتی لیکن بے نظیر نے قائدانہ صلاحیتوں کا بھر پور اظہار کیا اور مشرف کو مجبور کر دیا کہ وہ نواز شریف کو آنے سے نہ روکے۔یوں مشرف کی حکومت کے خاتمے کی داغ بیل رکھ دی گئی اور بے نظیر باوجود دھمکیوں کے، پاکستان پہنچ گئی لیکن بے نظیر کے دشمنوں نے بے نظیر کو لیاقت باغ میں شہادت کے رُتبے پر سرفراز کردیا۔ یوں وفاق کی علامت بھٹو کی نشانی بے نظیر شھید ہوکر امر ہوگئی لیکن پاکستان کی وحدانیت پر آنچ نہ آنے دی۔نواز شریف نے بے نظیر کی شہادت پر بے نظیر کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا اور محترمہ کو اپنی بہن قرار دیا۔ یوں ساٹھ کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت نے پاکستانی سیاست کو ایک نئے انداز سے ہم آہنگ کیا تھا اور بے نظیر نے خود کو اپنے باپ کی سیاسی وارث ثابت کردیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت بھٹو کے نام کے گرد ہی گھومتی ہے ۔ بر صغیر پاک وہند میں موروثی سیاست کی جڑیں بہت مضبوط ہیں اِس لیے پاکستان میں بھٹو خاندان اور بھارت میں اندراگاندھی کے خاندان بنگلہ دیش کی خالدہ ضیاء اور حسینہ واجد موروثی سیاست کی مثالیں ہیں۔ پاکستان میں جس طرح سے پیپلز پارٹی نے سیاست کی اور جس انداز میں بھٹو کی کرشماتی شخصیت نے حکمرانی کی ہے اِس بات کا اعادہ کرنا ضروری ہے کہ پاکستان میں پی پی پی کی سیاست میں فعالیت کا دارومدار بھٹو نام پر ہے ۔ جو بھی پیپلز پارٹی کی سیاست میں بھٹو نام کے علاوہ پی پی پی کے نام پر سیاست کرنے کی کوشش کرتے رہے وہ زیرو ہوتے چلے گئے۔ اللہ پاک سے دُعا ہے کہ اللہ پاک بے نظیر کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔ 

Saturday, 20 December 2014

No Option For any Blunder Now , Ashraf Asmi Advocate High Court, writes about Peshawar Incident where innocent student of Army School martyred on 16th december 2014




No Option For Any  Blunder
 Now
Ashraf Asmi
Advocate High court

If life is so cheap in Pakistan then we should say it is not Pak land. Pak land is that land that must be safe for every human being. When we  reminds the object of this holy land , we should keep in our mind as we are against US, similarly Iran & KSA is creating  havoc in our dear homeland. Petro Islam has destroyed the shape of our country , No one is in Pakistan who forbade these two countries to restrain from interference in our indigenous matters. KSA has its old enmity with the Iran, So both countries are fighting their own war in our land, Afghanistan is also victim of this war. But our rulers never realized the facts, So called Talban is product of the Arabs, Financial resources are being provided by Arabs to these elements. In the Ziea  Regime, the petro Islam entered speedy in Pakistan, So the Russian & Afghan War was the main outcome of the that War. Us got its own benefits and left the Pakistan alone. The Warrior  Imported from  other countries became pain of head for Pakistan. The stability of the whole region is depend upon the role of State of Pakistan. If Pakistani State never permitted to any foreigner to use its land for the activities of Terrorism. Un-fortunately Musherf era was not favorable for us. Us war of Terrorism was fought by us. There was free entry and exist of Us troops and logistics. Musheraf Govt could not  handle the matter so cleverly, it is the reason Us is still in Afghanistan. Recent Pat Govt  of PPP led by Zardari was not stable Govt, So Zardari only tried to save his  Govt but could not give attention to resolve the problem of Teriorism. The big players of power game of the world also tried to again destabilized the present Nawaz  Govt and for this purpose a long serial of protest was organized , this thing has weakened the govt. The Present attack of Pesheawer has created unity among the politicians but history has its own prediction, our politicians are just doing for rule. In Peshawar the killings of innocent students has shuddered every thing.Our Army General Raheel Sharief is playing vital role to make harmony  among the masses. The role of our Political Govt should also be active. It is the time when Nation is in acute pain of sorrows, Now PM Nawaz Should come forward and  role play as father of Nation. We should now clearly mentioned before obama that now enough is enough. Govt and Army should look at the attitude of Mulana abdul aziz of Jami Hafsa andex Ameer of JI Manwer Hassan  
……………………………………………
Writer is Practicing Lawyer

Saturday, 13 December 2014

RENOWNED WRITER OF HISTORY ANJMIN TALBA ISLAM PUBLISHED BY ZIA- UL-QURAN PUBLISHER , VISITED LAHORE AND MET WITH ASHRAF ASMI ADVOCATE HIGH COURT CHAIRMAN HUMAN RIGHTS FRONT INTERNATIONAL






Great Moin Nori Visited Lahore High Court and met with chairman Human rights Frnt international, Mian Ashraf Asmi Advocate.Moin Nori has deep observation about the problems are being faced by the student in the universities and colleges. he is witnessed of his three decades struggle for the peace in the students union.Mr Moin Nori has spent lot of time and he had to visit  to different parts of the country to compile the History of ATI.  Indeed the work done by Mr Moin Nori is marvelous , it is such a work which done by Mr nori by the grace of allah.


Monday, 8 December 2014

Report For World Human Rights Day on 10th December Findings of the conditions of the Females Prisoners with their innocent Kids.


Mian Muhammad Ashraf Asmi
Advocate High Court
Chairman Human Rights Front International
Chairman Mustafai Justice Forum International
1-Shah Chiragh Chambers Adjacent High court Lahore03224482940 E    Mail: ashrafasmi92@gmail.com

Report For World Human Rights Day on 10th December

Findings of the conditions of the Females Prisoners with their innocent Kids.

1) There is acute level Bad environment for females and kids in the prison.
2) Mostly females are poor, they worked in the cleanings of houses, are here in guilty of the theft.
3) There is no one from their families  ready to come for their help.
4) Generally such females are belonging to remoter areas of Punjab, Lahore is not their native city, and they resided here only for the cleaning of the houses and other household works.
5) The minor children are facing prison without any guilty.
6) Deplorable thing is that many females have  completed their punishment but they have  not resources to pay the fine.
7) Due to non avaialbity of proper legal assistance their case are pending or they have punished without any crime, as our fake justice system can’t give justice.

These are the my findings,  friends , come forward and help Human Rights Front International to reduce the miseries of the females and their innocent kids.
         Regards.Mian Muhammad  Ashraf Asmi

Advocate High court

Sunday, 7 December 2014

10 دسمبر کو منائے جانے والے انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پرانسانی حقوق فرنٹ انٹرنیشنل کے چےئرمین میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ کی خصو صی تحریر


10 دسمبر کو منائے جانے والے انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پرانسانی حقوق فرنٹ انٹرنیشنل کے چےئرمین میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ کی خصو صی تحریر 
3
انسانی آزادیوں کے حوالے سے بات کرنے سے پہلے یہ بات جاننا ضروری ہے کہ سب سے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والا کو نسا ملک ہے اس وقت دنیا میں وہی ملک زیادہ زور آور تصور کیے جاتے ہیں جن کی معاشی حالت مضبوط ہے۔ امریکہ چین جرمنی جاپان برطانیہ فرانس وغیرہ یہ وہ ممالک ہیں جہاں پر معاشی آسودگیوں کا دور دوراں ہے۔ لیکن ایک بات سب سے زیادہ افسوس ناک ہے وہ یہ کہ سب سے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مرتکب کوئی اور نہیں انسانی حقوق کا چیمپین امریکہ خود ہے جس طرح عراق، مصر شام فلسطین میں انسانی قتال جاری ہے اور اب دائش نامی تنطیم کی ڈھال میں مسلمانوں کے اندر فرقہ واریت پھیلانے کے لیے صرف ایک ہی بڑا تھانیدار ہے جسے امریکہ بہاد ر کہا جاتا ہے یوں تو وکلا کا پروفیشن ہی ایسا ہے کہ ان کو معاشی معاشرتی عمرانی ،نفسیاتی قانونی و دیگر زندگی کے شعبہ جات کے متعلق بھرپور آگہی وادارک ہوتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے ۔قانون کے شعبہ سے منسلک افراد کس طرح اپنے وجود سے معاشرے کو فا ئدہ پہنچا سکتے ہیں موجودہ حالات میں مادیت نے ہر رشتے سے تعلق کو گہنا کر رکھ دیا ۔ہر لمحہ ہر ساعت معاشی ضرورتوں کا رونا رونے نے معاشرے سے امن سکون چھین لیا ہے ۔صبح صادق سے لے کر رات گئے تک معاشی مجبوریوں کو اپنے حواس پر سوار کرکے اپنے آپ کو ہر لمحے ما یوس اور دکھ کا شکا ر کررکھا ہے دکھی اور مایوس انسانیت نے اپنے لئے خود سا ختہ اتنے دُکھ پال رکھے ہیں کہ دو وقت کی روٹی کو ترسنے والے کوتو خالق پر بھروسہ ہے لیکن جن کو روٹی میسر ہے وہ دوسروں سے نوالے چھین کر اپنے پیٹ کی دوزخ کی آگ کو بجھانے کی لا حاصل سعی میں مصروف ہیں راقم کے خیا ل میں انسانی حقوق کے تنظیموں کو سب سے پہلے تو یہ امر پیش نظر رکھنا چاہیے کہ انسانی حقوق کے لئے کا م کرنے والے کا رکنا ن خود کو ہو س اور دُنیا وی لالچ سے دور رکھیں ۔جب تک اُن کے اپنے دلوں میں خوف خداہوگااور دُنیا وی آسائشات کی اہمیت نہ ہو گی تب ہی وہ معاشرے کو کچھ دے سکتے ہیں۔ پاکستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے کا م کرنے کے جنا ب انصاربرنی بہت بڑا نام ہے جوکہ پوری دُنیا میں اِس شعبے میں اپنی مثال آپ ہیں دیگر کئی لوگ اور تنظمیں بھی کا م کررہی ہیں لیکن اکثرکا کا م صرف میڈیا تک اپنی نمائش تک محدود ہے یا پھر جن لوگوں سے یا جن ملکوں سے یہ افراد فنڈز لیتے ہے اِن کے مِفادات کا تحفظ کرنا ہے۔دُنیا آج تک ایسی مثال دینے سے قاصر ہے کہ نبی پاک ﷺ سے بڑھ کر انسانی حقوق کا علمبرادر اور کوئی نہیں ۔بنی پاک ﷺ نے حقوق خواتین اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے جو مثالیں قائم کیں وہ پوری انسانیت کا سرفخر سے بلند کیے ہوئے ہیں انسانی حقوق تو بہت بڑی بات ہے ،نبی پاک ﷺ نے تو جانوروں کے تحفظ کے حوالے سے بھی ہما ری رہنمائی کے لئے بہت کچھ کیا ہے۔موجودہ ادوار میں امریکہ یورپ برطانیہ میں انسانی حقوق کی تنظیمیں بہت فعال ہیں ۔لیکن اُن کا دائرہ کا ر صرف اپنے ملکوں تک محدود ہے یہ ممالک تومعاشی سماجی حوالے سے پہلے ہی بہت ترقی یا فتہ ہیں وہا ں تو اِن تنظیموں کا کام بہت آسان اور یہ تنظیمیں مسلسل آگا ہی مہم کے ذریعے انسانی شعور کی بیداری کا فریضہ سرانجام دیتی ہیں ۔ان ترقی یافتہ ممالک میں معاشی آسودگی کی وجہ سے قوانین پر عمل پیرا ہونا اور عزت وحرمت کے لیے کام کرنا نسبتاً آسان ہے۔سویڈن برطانیہ ،ناروئے امریکہ جرمنی یورپ کے دیگر ممالک میں انسانی حقوق کے علمبردار مرد وخواتین بہت زیادہ فعال ہیں۔ پاکستان میں انصار برنی کے علاو ہ عابد منٹو ایڈووکیٹ ،فاروق طارق،عاصمہ جہانگیر،جمی انجینئر، حنا جیلانی، طاہرہ مظہر علی خان، ایس ایم ظفر،آئی ائے رحمان، ناصرخان، معظم خان ایڈووکیٹ، احسان الحق رنداوا ایڈووکیٹ، عابدہ چوہدری ایڈووکیٹ بہت ہی قابل احترام نام ہیں جن لوگوں نے اپنی زندگیوں کو معاشرئے میں رواداری امن برداشت کے فروغ کے لیے بہت کوششیں کی ہیں۔فیض احمد فیض جیسے عظیم دانشور بھی اِسی راہ کے مسافر تھے۔ اگر ہم انسانی حقوق کی پامالی کی بات کرتے ہیں تو یہ بات انتہائی افسوس ناک ہے کہ ترقی پذیر ممالک یا انتہائی پسماندہ ممالک غربت کی ایسی چکی میں پس رہے ہیں کہ ان ممالک میں بس غلام ابنِ غلام ہی پیدا ہورہے ہیں غربت کے منحوس چکر نے ان ممالک کو اِس طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں جو کہ ایک ایٹمی ملک ہے جس کے پاس سمندر ہے پہاڑ ہیں چاروں موسم ہیں ہیں صرف چند ہزار لوگوں نے اُنیس کروڑ انسانوں کو یر غمال بنا رکھا ہے ساٹھ فی صد سے زیادہ لوگ خِط غربت سے انتہائی نچلی سطح پر زندگی بسر کرہے ہیں بے روزگاری، مخفی بے روز گاری نے عوام کا بُرا حال کر رکھا ہے ان حالات میں پھر انسانی حقوق کی حالت کیسے بہتر ہوسکتی ہے جب غریب عوام کو بھیڑوں کے ریوڑ کی طرح ہانکا جارہا ہے بنگلہ دیش بھارت برما میں بھی ایسے ہی حالات ہیں۔ جس طرح کسی دوشیزہ کی خوبصورتی اُسکے لیے وبالِ جان بن جاتی ہے اِسی طرح پاکستان کی سٹرٹیجک جغرافیائی حالت نے اُس کے وجود کو ہلا کر رکھ دیا ہے امریکہ ، بھارت اسرائیل ہماری جان کے دُشمن بنے ہوئے ہیں اوپر سے ستم ظریفی یہ بھی کہ ہمارے ماضی کے حکمرانوں نے بھی ہمیشہ امریکی غلامی کے طوق کو اپنے گلے کا ہار بنائے رکھنے کو اپنے لیے فخر جانا ہے ۔ پاکستانی معاشرے میں علم کے نور کی کمی نے وڈیروں ، زمینداروں ، سرمایہ داروں کو عوام دُشمنی کے حوالے کیے رکھا ہے ۔ پاکستانی قوم کی بنیادی مشکلات میں پولیس کا نظام اور پٹواری کا ظلم شامل ہے۔ راقم کو جب 22A,22B سی آر پی سی کے تحت سیشن کورٹ میں پیش ہونا پڑتا ہے تو سیشن جج صاحبان کے احکامات کی حکم عدولی پولیس افسران کا خاصہ ہے۔ سیشن جج صاحبان بے بسی کی تصویر بنے ہوتے ہیں۔پولیس کے نظام میں بہت بڑی خرابی سیاسی مداخلت کا ہونا ہے۔ پولیس کا نظام ہمارے معاشرے میں انصاف کی بالا دستی کے راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔پو لیس کو دباؤ میں رکھنے کے لیے اتنے گروہ سرگرمِِِِِِِِ عمل ہیں کہ پولیس چاہے بھی تو اِن ذ مہ داریوں کو ادا کرنے سے قاصر ہے ۔جب پولیس نے اپنے فرا ئض کی ادائیگی پریشر میں کرنی ہے اور جب ہر ایم این اے اور ایم پی اے تھانیدار کو اپنی انا کے اشاروں پر نچاتا ہے تو امن و امان کیسے قائم رہ سکتا ہے۔ رب پاک کو حاضر و نا ضر جان کر اگر ہم خود سے یہ سوال کریں کہ کیا کسی شریف النفس انسان کا موجودہ دور میں اسمبلی کا ممبر بننا ممکن ہے تو اِسکا جواب منفی میں ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہوگا کہ شریف آدمی نہ تو الیکشن لڑ سکتا ہے اور نہ ہی جیت سکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں تھانے اور کچہری کی سیاست ہوتی ہے۔ کسی کو گرفتار کروادیا کسی کو مروادیا اور کسی کو علاقے سے ہی غائب کروادیاجنگل کا قانون توپھر بھی کو معانی رکھتا ہے جہاں درندے ، پرندے ہزاروں سالوں سے بس رہے ہیں۔ ہمارری سوسائٹی میں طاقت کا استعمال ،اقرباپروری اپنی مثال آپ ہیں۔ یہاں عوامی نمائندے کیسے ہوں گے ؟ جیسا ماحول بن چکا ہے ادھر تو شرافت، دیانت امانت سب کچھ منافقت میں ڈھل چکا ہے۔98% طبقے کو % 2 نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ اِن حا لات میں پولیس امن و امان کیسے قائم رکھے جب عوامی نمائندے وزیر ،مشیر سرمایہ دار وڈیرے پولیس کو اپنی من مانی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ گزشتہ سندھ اسمبلی کے ایک ضمنی الیکشن میں حکومتی پارٹی کی ایک خاتون امیدوار نے پولیس آفیسر کے سامنے خاتون پریزائیڈنگ آفیسر کو تھپڑ مارے اور ڈی ایس پی باادب ہو کر سارا تماشا دیکھتا رہا۔ یہ ہے وہ پولیس جس نے عوام کو غنڈوں کی چیرہ دستیوں اور ظلم سے بچانا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے معاشرے میں میڈیا کے فعال کردار نے کافی حد تک آگاہی دی ہے۔ لیکن حز بِ اقتدار ہو یا حزب مخالف، اقتدار میں رہنے کے لیے منشیات فروشوں اور قبضہ گروپوں کی سرپرستی کرتے ہیں اور یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ کیونکہ وہ بھاری رقوم خرچ کرکے آئے ہیں اس لیے ہر طریقے سے رقم کماتے ہیں۔ اِن لوگوں نے باقاعدہ غنڈے پال رکھے ہوئے ہیں۔ موجودہ حالات میں وکلاء، سول سوسائٹی اور عدلیہ ہی امید کی کرن ہیں کہ شائد ہمارہ معاشرہ کبھی گدِھوں سے نجات حاصل کرسکے۔ تھانے بکتے ہیں ماہانہ بنیادوں پر رقوم اکھٹی ہوتی ہیں۔کتابوں میں لکھے اخلاقیات اور مذہب کے امن وآشتی کے اسباق کہیں دور اندھیرے میں دُبکے ہوئے ہیں۔۔ تعلیم ،امن ،صحت، روزگار سماجی انصاف معاشرے کو امن وآشتی کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔نبی پاکﷺ کا فرمانِ عالیٰ شان ہے کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ نہیں۔قصور پولیس کا نہیں بلکہ اِس کو کرپٹ کرنے والوں کا ہے جو پولیس کو دباؤمیں رکھ کر اُس سے ہرناجائز کام کرواتے ہیں جس سے یہ احساس شدت سے محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے آزادی جیسی نعمت کی قدر نہیں کی اور دورِ غلامی کی لعنت سے کوئی سبق نہیں سیکھاہمارے رویے ایک قوم ہونے کے ناطے اِس لیے بہتر نہیں ہو پائے کہ ہمارے حکمران کیونکہ عوام کے ساتھ مخلص نہیں ہیں اور وہ خود کو قانون کے دائرے میں رکھنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں۔قانون کی بلادستی کے لیے سب سے زریں اصول یہ ہے کہ قانون سب کے لیے ایک ہو۔ جو قومیں امیروں اور غریبوں کے درمیان انصاف کی فراہمی کے حوالے سے تفریق کرتی ہیں وہ تباہ برباد ہوجاتی ہیں پاکستانی سوسائٹی میں امن ومان اور قانون کی عملداری اُس وقت ممکن ہے جب حکمران اور عوام ایک ہی صف میں کھڑے ہوں۔ہمارئے معاشرئے میں قانون کی حاکمیت نہ ہونے کہ وجہ سے معاشرہ بُری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔عوام ظلم برداشت کر کر کے ادھ مُو ہو چکی ہے سب سے پہلے تو وہ افراد انسانی حقوق کی پامالی کرنا بند کریں جن پر یہ ذمہ داری ہے کہ اُن پرانسانی حقوق کی بالا دستی کے لیے کام کرنے کی ذمہ داری ہے۔ جیلوں کی صورت حال، تھانہ کلچر، گھروں میں کام کرنے والے بچے بورھے خواتین سب لوگ تو انسانی حقوق کی پامالی کا شکار ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون نگار میاں اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ لاہور بار ایسوسی ایشن کی انسانی حقوق کی کمیٹی کے چےئرمین رہے ہیں ہیں اور انسا نی حقوق کی عالمی تنظیم انسانی حقوق فرنٹ انٹرنیشنل کے سربراہ ہیں۔

Saturday, 6 December 2014

16 دسمبر 1971 کو پاکستان کیوں ٹوٹا انسانی حقوق کے علمبردار میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ اہم محرکات سے پردہ اُٹھاتے ہیں.... FALL?AN ARTICLE BY HUMAN RIGHTS ACTIVIST, ASHRAF ASMI ADVOCATE, WHY WAS PAKISTAN


      


دسمبر 1971 کو پاکستان کیوں ٹوٹا
انسانی حقوق کے علمبردار میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ اہم محرکات سے پردہ اُٹھاتے ہیں



میں جب بھی یہ سوچتا ہوں کہ ہندوستان نے نفرت کے بیج بو کر مشرقی پاکستان کو علحیدہ کیا تو میری روح چھلنی ہوجاتی ہے دل انگاروں سے بھر جاتا ہے۔ اور خون کے آنسو روتا ہے کہ کس طرح ایک سازش کے تحت ہمارئے بنگالی مسلمان بھائی ہم سے جُدا ہوئے اور کس طرھ مکتی باہنی نے نفرتوں کی آبیاری کرکے بھائی کو بھائی کا دُشمن بنادیا اور بنگلادیشی وزیر اعظم مجیب کی بیٹی حسینہ واجد پاکستان سے محبت کا دم بھرنے والوں کو پھانسیوں پر لٹکا رہی ہے اور یہ تک کہتی ہے کہ جس نے بھی پاکستان کا دم بھرا اُس کی قبر یہاں نہیں بننے دوں گی۔ نفرتوں کے بیج بونے میں پاکستانی سیاست دان بھی برابر کے شریک ہیں کہ جو اِس بات کا ادراک ہی نہ کر سکے کہ ہندوستان کتنی گہری سازشیں کر رہا ہے پاکستان کی لیڈرشپ جو کہ اُس وقت فوج تھی وہ اِن سازشوں کا توڑ ہی نہ کر سکی اور پھر جس طرح انسانی لاشوں کے انبار لگے اب کہ 1947 کے مقابلے میں زخم کے چرکے بہت شدید تھے کیونکہ وہ جنگ سکھوں اور ہندووں کے ساتھ تھی اور اِس جنگ میں مکار بھارت اپنی بجائے ہمارئے ہی بھائیوں کو ہمارئے خلاف مورچہ بند کروائے ہوئے تھا۔ ایک مشہور چینل کے پروگرام جس میں میں بھی شریک تھا اُس میں ممتاز مذہبی وسیاسی شخصیت جناب حاجی محمس حنیف طیب شریک تھے اُنھوں جو بات کہ تھی وہی حاصلِ کلام ہے کہ وہ مجیب الرحممان سے جاکر اُس کے گھر ملے تھے وہ اپنے حقوق چاہتا تھا۔ائے کاش اگر پاکستان کی تخلیق کے مقاصد پر عمل ہو جاتا تو سانحہ مشرقی پاکستان رونماء نہ ہوتا۔ چیف جسٹس پاکستان حمودالرحمان خود مشرقی پاکستان کے باسی تھے اُنھوں نے جو اِس سانحے کہ حوالے سے رپورٹ مرتب کی اُس میں سانحہ مشرقی پاکستان کے متعلق اُن وجوہات کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا جو کہ اِس سازش کے محرکات بننے اِس رپورٹ میں سابق فوجی جرنیلوں کے حوالے سے بھی کافی کچھ لکھا گیا اور اُن محرکات کے حوالے سے کوئی احسن قدم نہیں اُٹھایا گیا جس کی وجہ سے اب بلوچستان میں بھی سقوط ڈھاکہ والی کہانی دہرائے جانے کی تیاریاں ہیں ہم ہیں کہ اپنے ہی وجود کو نوچ رہے ہیں۔16 دسمبر 1971 پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا تاریک پہلو ہے جو اِس المیے کی یاد دلاتا ہے جب اس وطن کو پارہ پارہ کردیا گیاپاکستان اپنے وجود کو برقرار نہ رکھ سکاپاکستان کے حکمرانوں اور پاکستانی عوام کے دل ایک ساتھ نہیں دھڑکتے ۔انگریز کی غلامی ،اور ہندو کی غلامی سے بچنے والے پاکستانی اب بھی غلام ہیںآقا بدل گئے غلام وہی ہیں۔لاکھوں شہادتوں اور عصمتوں کی قربانی کے طفیل حاصل ہونے والا وطن مایوسیوں میں ڈوبا ہوا ہے۔دہشت گردی، لاقانونیت،بیروزگاری ہر پھیل گئے ہے ۔اشرافیہ کا تمام وسائل پر قبضہ ہے چند ہزار لوگوں نے اٹھارہ کروڑ عوام کو معاشی و سماجی طور پر یرغمال بنا رکھاہے اسی طرح غریب طبقے سے اُبھرنے والی سیاسی قوتیں بھی اقتدار کی غلام گردشوں میں پھنس کر رہ گئیں مذہب کا نام استعمال کرکے عوام استحصال کیا جارہا ہے موجودہ حالات اور ایسی قیادتوں کے ہوتے ہوئے ہم کیسے اِس گرداب سے نکل سکتے ہیں ،ہے اِس کا کوئی قابل عمل حل ۔حضرتِ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ عالماں از علم قران بے نیاز صوفیاں درندہ گرگ ومو درازیعنی آج کے علماء قران کے علم سے لاپرواہ ہیں جب کہ صوفی گویا پھاڑ کھانے والے بھیڑیا بنے ہوئے ہیں اور لمبے
بالوں والے ہیں۔دنیا میں انسان کی تخلیق کا مقصد کیا ہے انسان اور مسلمان میں فرق کیا ہے۔ مسلمان بننا کس طرح کے افعال کا متقاضی ہے۔اگر ہم سب ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں اور اپنے آپ سے جسے ضمیر بھی کہا جاتا ہے اُس کی بھی مدد لیں کہ کیا انسان کی تخلیق کا وہ مقصد ہے جو دنیا میں ہور ہا ہے۔کیا انسان اور مسلمان میں کوئی فرق ہے۔ اگر ہے تو وہ کیا ہے۔کیا مسلمان بن کر ہم معاشرے میں فعال کردار ادا کر رہے ہیں کیا ہمارئے اور غیر مذاہب کے افعال و اعمال میں کوئی فرق ہے یا نہیں۔وقت جس سُرعت کے ساتھ گزر رہا ہے اور وطن پاک کو جس طرح کے حالات کا سامنا ہے کیا سانحہ مشرقی پاکستان سے کوئی بھی سبق سیکھا گیا۔اصل میں پاکستان میں حکمران طبقہ اور ہے اور عوام الناس کا تعلق کسی اور طبقے سے ہے۔ حکمرانوں کے قلوب و اذہان عوام کے جذبات سے کوسوں دور ہیں۔عوام ہے کہ دہشت گردی، لاقانونیت بے روزگاری کی چکی میں پس رہی ہے جبکہ حکمران اپنے محلات میں خوابِ خرگوش کے مزے لُوٹ رہے ہیں۔ عوام بھوک اور افلاس کے گرداب میں پھنس چُکے ہیں لیکن مجال ہے کہ حکمرانوں نے اپنا وطیرہ بدلہ ہو۔ مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بن جانا اور عام لوگوں کا یہ سوال کہ پہلے تو ہندو اور انگریز کی غلامی سے چھُٹکارہ حاصل کرنے کے لیے اور علیحدہ مسلم ریاست بنانے کے لیے بٹوارا کیا گیا لیکن 1971 میں مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بننا کس سے آزادی کے لیے تھا۔مسلمان کو مسلمان سے ہی آزادی کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ ایک ہوں مسلم حرم کے پاسبانی کے لیے کے نظرےئے کو کس طرح موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہندوستان روس اسرائیل گٹھ جوڑ نے پاکستان دو لخت کیا ،اور ان ممالک کی سازشوں نے ایک نوزائیدہ ملک کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا تو اُس وقت اِس ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنیوالے کہاں تھے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے اور اِس بات کا جواب ہمیں جسٹس حمود الرحمان کی رپورٹ سے بھی ملتا ہے کہ اِس سانحے کے پیچھے غیر ممالک کے علاوہ پاکستانی سول و فوجی اسٹیبلیشمنٹ کا بھی غفلت اور کوتاہیوں سے بھر پور کردار ہے۔ہوس ہنوز تماشا گر جہانداری است، وگرچہ فتنہ پس پردہ ہائے زنگاری است (زبور عجم) حضرتِ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ ہوس ابھی تک اسی فکر میں ہے کہ کس طرح دنیاوی ما ل ودولت اکھٹی کی جاسکتی ہے۔ ہرئے رنگ کے پردوں (آسمان) کے پیچھے اور کو نسا فتنہ پوشیدہ ہے؟ دنیا میں جتنے بھی فتنے فساد پیدا ہوئے اُن کا سبب ہوس ہی ہے۔ غیر ملکی سازشوں کے لیے ان سازشی ممالک کومیر جعفر و میر صادق میسر آ تے رے رہے اور میر جعفروں کی ہوس نے وطن کو پارہ پارہ کردیا۔تاریخ میں یہ رقم ہے کہ مشرقی پاکستان میں رہنے والے شیخ مجیب الرحمان کی سیاسی قوت کو مغربی پاکستان کے سیاستدان نے عملاً تسلیم نہ کرکے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے مطالبہ کو پورا ہونے میں اہم کردار ادا کیا اور ادھر تم اور ادھر ہم کا نعرہ لگا دیا گیا۔ بنگالی عوام جہاں سے مسلم لیگ کا خمیر اُٹھا تھا وہاں مکتی باہنی اور ہندوستانی انٹلیجنس اداروں نے مل کر جلتی پر تیل کا کام کیا۔ کیونکہ پاکستان کی عوام کی آواز حکمرانوں سے بہت دور تھی اور حکمرانوں کو عوام کے جذبات کی کوئی قدر نہ تھی ۔اُنھیں قدر تھی تو صرف اپنی حکمرانی کی بھلے ملک ٹوٹتا ہے تو ٹوٹ جائے اور پھر وہی ہوا جس پاکستان کی فوج کو دُنیا کی بہترین فوج مان جاتا ہے وہی فوج ہتھیار ڈال کر پوری دنیا میں خود بھی رُسوا ہوئی اور پاکستان اور اُس کی عوام کو بھی رُسوا کیا گیا۔ترانوئے ہزار فوجیوں کا ہتھیار ڈالنا اور فوجی بھی وہ جن کا نعرہ تکبیر ہو جس نعرے سے قیصروکسریٰ کے ایوانوں میں زلزلہ بپا ہوا تھا ۔ وہی نعرہ تکبیر لگانے والی فوج شرمناک شکست کی حامل قراردے دی گئی۔ آخر ہماری اندر اتنی سمجھداری کیوں نہیں آسکی کہ ہم اُس بدترین شکست سے کوئی سبق سیکھ سکتے۔تاریخ کے پُرانے اوراق اپنے ساتھ بہت ہی دردناک حقیقتیں لیے ہوتے ہیں اور اکثر یہ ہوتا ہے کہ ہم تاریخ کا سامنا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ہماری چشم پوشی کی وجہ سے تاریخ کے دھارئے نہیں بدلا کر تے۔پاکستان کی آزادی دوقوموں سے حاصل کردہ تھی انگریزوں کے علاوہ ہندووں سے بھی۔ اور ہندوستان کے مطابق پاکستان کا بننا بہت بڑا پاپ ہوا ہے کہ بھارت ماتا کو تقسیم کیا گیا۔خود کو ایک رب کی مخلوق سمجھنے والی مسلمان قوم اپنے نئے بننے والی مملکتِ خدادِ پاکستان کو متفقہ آئین دینے کے لیے نو برس گزار گئی اِس دوران پلوں سے بہت سا پانی گزر چکا تھا قائد اعظم ؒ کی وفات اور خان لیاقت علی خان کی شہادت نے قوم کو اِس طرح بے آسرا کردیا کہ قوم میر جعفروں اور میر صادقوں کے ہاتھوں یرغمال بنتی چلی گئی اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی ایوب خان کی شکل میں ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنے والوں نے ملک کے عوام پر حکمرانی کرنے کے لیے لاٹھی گولی کا سہارا لیا۔اِس طرح ملک میں یہ سوچ پروان چڑھتی چلی گئی کہ فوجی حکمران وطن کے ساتھ سیاستدانوں کی نسبت زیادہ وفادار ہیں۔ یوں وطن کو ا سلامی اصولوں پر چلانے کی بجائے فوجی اصولوں پر چلایا گیا سانحہ مشرقی پاکستان کا رونماء ہونا پاکستان کی انتہائی بدقسمتی تھی اور یہ سانحہ فوجی حکومت کے دوران رونماء ہوا۔اور مشرقی پاکستان کے بنگلا دیش بننے کے زخم آج بھی اتنے ہرئے ہیں کہ بنگلہ دیشی وزیراعظم ہر اُس شخص کو پھانسی لگانے کے درپے ہے جس نے سانحہ مشرقی پاکستان کے وقت پاکستان کی حمایت کی ۔ دو قومی نظرئیے کو پامال کرنے کے لیے اسرائیل بھارت اور روس کے گٹھ جوڑ نے پاکستان سے ایک حصہ علیحدہ کردیا اور ہم نے نالائق طالب علموں کی طرح ہر بار امتحان میں فیل ہونے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ روس نے گرم پانیوں تک رسائی کے لیے افغانستان کو میدان جنگ بناڈالا اور امریکہ مسلمانوں کے اندر جذبہ جہاد کو ہوا دینے کے لیے افغانستان میں روس کو شکست دینے کے لیے آنکلا۔ یوں پاکستان پر امریکی ڈالروں کی ایسی بارش ہوئی کہ فوجی حکمرانی جو کہ ضیاء کے زیرِ قیادت تھی گیارہ سال تک حکومت میں رہی ۔پھر نواز شریف اور بے نظیر کے ادوار میں قوم کا مورال بلند ہونا شروع ہوا ہی تھا کہ جنرل مشرف بھی تارئیخ میں اپنا نام لکھوانے کے لیے بے چین ہو گے اور اُنھوں نواز شریف کی حکومت کو چلتا کیا۔ابھی ایک برق بیچارئے پاکستان پر گرنا باقی تھی کہ نائن الیون کا واقعہ کیا ہوا پاکستان کی بدقسمتی کا آغاز ہو گیا اور امریکہ نے پاکستان میں دہشت گردی کی آڑمیں خیبر پختون خواہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔مشرف نے امریکی فوج کو فوجی اڈے دے دئیے اور ہر طرح کی لاجسٹک سپورٹ کا انتظام بھی کردیا۔ پاکستان کو کھربوں ڈالر کا نقصان اِس جنگ میں ہوا ہے اور قیمتی جانوں کا نقصان بے حساب ہے۔اب ملک میں دہشت گردی کے ساتھ نمٹنے کے لیے آپریشن عضب جاری ہے۔ بلوچستان کی حالت یہ ہے کہ وہاں پاکستان کا جھنڈا لہرانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ہندوستان آئے دن پاکستان کی سرحدوں پر فوج کشی کر رہا ہے۔ امریکہ افغانستان کو خدا حافظ کہنے والا ہے ۔پاکستان کی معاشی وسماجی حالت انتہائی بُری ہے۔ سماجی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے۔ ملک میں یکجہتی نام کی کوئی چیز نہیں بے لگام میڈیا نے عوام کو عجیب نفسیاتی کشمکش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ سرکاری سکولوں کا میعار ختم، ہسپتالوں میں ڈاکٹر قصاب کا روپ دھارئے ہوئے ہیں۔ انصاف کا جنازہ نکل چُکا ہے۔گُڈ گورنس نام صرف حکومتی دعووں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔دراصل 1999 کے بعد پاکستانی قوم نوز شریف کے سحر میں مبتلا رہی جس کا نتیجہ نواز شریف کا دوبارہ وزیر اعظم بننا ہے لیکن چوہدریوں اور شیخ رشیدوں کو اپنے ساتھ نہ ملا کر نواز شریف نے ایک ایسا گناہ کردیا ہے کہ ان دونوں نے نواز شریف کا جیناحرام کیا ہوا ہے کبھی قادری اور کبھی عمران خان کے ذریعے نواز شریف کی حکومت کے پاؤں تقریباً اُکھڑئے ہوئے ہیں۔ عوام کے مسائل حل نہ ہونے کے سبب لوگوں کا غصہ عروج پر ہے اور راقم کے خیال میں قوم نواز شریف کے سحر میں کئی دہائیوں تک مبتلا رہی اب وہ سحر دم توڑ رہا ہے۔ یقین نہیں آتا تو کسی بھی چوراہے پر کھڑئے ہو جائیں پتہ چلا جائے گا۔تحریک پاکستان کے مراحل کے دوران اسلامیان ہند نے جو نظریاتی نعرہ بلند کیا تھا وہ تھا پاکستان کا مطلب کیا لاالہٰ ا لاللہ۔ پاکستان عالیشان کا وجود باسعود ، ایک مرد قلندر ، مرد حریت اور مرد ایمان اور مرد امتحان ، حضرت قائداعظم ؒ ، کی محنت شاقہ کی بدولت ہوا ۔ حضرت علامہ اقبال ؒ کی روحانی اور ایمانی الہامی شعری کا وشوں نے اپنا رنگ دکھیا اور انہوں نے برصغیر کی غلامی میں پھنسی ہوئی مسلمان قوم کو احساس تفاخر ا ور خودی کی بیداری کا پیغام دے کر انہیں آزادی کی اوج ثریا تک پہنچانے کیلئے اپنا خون جگر عطا کیا ۔علم و عقل میں اگر تضاد اور تصادم رہے گا تو ظاہر ہے کہ اس بنی نوع انسان میں انتشار اور تخریب کا باعث بنے گا ، اور بالآخر قومی زوال کا پیش خیمہ ۔ خدائے بزرگ و برتر نے اْن افراد کو یہ اعزاز عطا فرمادیا ۔ جنھیں دائرہ اسلام نے اسلام میں داخل ہونے کا شرف نصیب ہوا، وہ افراد دنیائے انسانیت کے خوش قسمت ترین انسان ہیں جنہیں حضور اکرم ﷺ کے ا یک امتی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ دین اسلام نے مسلمانوں کے قلوب و ارواح میں جس فلسفہ توحید کو موجزن اور مرتسم کیا ہے، اْس سے ان میں
فکری وحدت ، تہذیبی ہم آہنگی ، دینی حریت ور نسانی سطح پر احساس تفاخر کی تخلیق ہوئی ۔ جب قلوب و اذہان میں تصور توحید جلوہ گر نہ ہو انسان کی شخصیت میں وحدت پیدا نہیں ہو سکتی، ظاہر ہے کہ مسلمان ایک باری تعالیٰ جو وحدہ لاشریک ہے اس پر پختہ ایمان و ایقان رکھے گا ، تو جب ہی اپنے ندر بھی وحدت پیدا کرے گا ۔ اس تمام فلسفہ حیات کا منبع ، ماخذ، روح، اساس ، سرچشمہ اور بنیاد قرآن الحکیم ہے۔ اس نظرئے کو قرآن کی تعلیمات اور حکام کے پیش نظر مجدد الف ثانی ؒ ، حضرت داتا گنج بخش ؒ اور دوسرے اولیائے کرام اور مجتہدین قابل صد احترام نے اسی نظرئے کو اپنے خون جگر سے سینچا اور روحانی کمالات سے اس عظیم عمارت کی بنیاد وں کو استحکام سے ہمکنار بھی فرمایا۔ انہی بابرکت اور روحانی شخصیات کی تعلیمات مقدسہ نے حضرت علامہ اقبال ؒ اور حضرت قائد اعظم ؒ کے افکار ملیہ اور قومی نظریات ، دینی، اسلامی ، قومی امنگوں کا رنگ بھر دیا تھا۔ حضرت علامہ اقبال ؒ نے اسلامیان ہند کو پیغام خودی دیا ۔ انہیں جگایا او ایک قوم کی شکل میں متشکل کر دیا ۔ حضر ت قا ئد اعظم ؒ نے اسلامیان ہند کو اپنی تقاریر ، خطابات ، اور علمی اور قانونی نظریات وارشادات کی روشنی میں انگریزوں اور ہندؤں کی استعمار پسند انہ اور تشدد آمیز رویوں سے آگاہ کرتے رہے اور انہیں اپنی اسلامی اقدار و رو ایا ت اور تاریخ کی روشنی میں تیار رہنے کی ہدایت کرتے رہے۔ حضرت قائداعظم ؒ نے اسلامیان ہند کے قلوب واذہان میں آزادی کی جو لو لگائی وہ الاؤ بن کر سامنے آئی اور پاکستان دنیائے انسانیت کے نقشے پر بڑی شان وشوکت کے ساتھ ظہور پزیر ہوا۔معاشیات میں ایک تھیوری ہے جس کو غربت کا منحوس چکر کہا جاتا ہے اُس چکر کے مطابق غریب اتنا پھنس جاتا ہے کہ وہ غربت کے گرداب سے نکل نہیں پاتا ہماری قوم بھی اِسی طرح کے منحوس دائرے میں پھنس چکی ہے اور یہ منحوس دائرہ اشرافیہ نے بنا رکھا ہے ۔ اب جب یہ منطق پیش کی جاتی ہے کہ لوگ جھوٹ کیوں لو گ بولتے ہیں چوری کیوں کرتے ہیں یہ سب کچھ حکمران تو نہیں کہتے کہ کرو۔اس کا جواب یہ ہے کہ پاکستانی حکمرانوں نے جب ماحول ہی ایسا تخلیق کر ڈالا ہے تو پھر سچ اور جھوٹ میں فرق روا رکھنے کا علمبردار کون ہوگا۔جب رہنماء راہزن کا روپ دھار چکے ہیں تو خیر کہاں سے آئی گی۔بقول اقبالؒ چوں بنام مصطفیٰ خوانم درود ازخجالت آب میگردد وجود (مسافر مثنوی) یعنی جب میں نبی پاک ﷺ کی ذات والا صفات پر درود بھیجتا ہوں تو میرا وجود شرم سے پانی پانی ہوجاتا ہے مزید فرماتے ہیں کہ، عشق می گوید کی اے محکوم غیر، سینہ تواز بتاں مانند دیر یعنی کہ عشق کہتا ہے کہ او غیر کے محکوم: تیرا سینہ تو بتوں کی وجہ سے بت خانہ بنا ہوا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اعمال کچھ ہیں افعال اور طرح کے ہیں جو اقوال کی تصدیق نہیں کرتے۔قوم کو ایسی لیڈر شپ کی ضرورت ہے جو کہ قوم کو ذہنی پستی سے نکا لے اور خودار قوم بنائے۔ لیکن بقول اقبالؒ پہلے مسلمان تو بن جائیں غیر کے محکوم نہ بنیں،مسلمانی کی ابتدائی تعریف پر پورا اُترنے کی ضرورت ہے باقی کام تو بعد کے ہیں جیسے بقول اقبالؒ کہ تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں۔پہلے توحید کو تو اپنے اندر وارد تو کرلیں جب تک ہم مکمل طور پر رب کو ماننے والے نہیں بنیں گئے تب تک ہم رسوا ہوتے رہیں گئے۔ہے جُرمِ ضیفی کی سزا مرگِ مفاجات ۔ سقوط ڈھاکہ چیخ چیخ کر ہمیں دعوتِ فکر دے رہا ہے کہ پاکستان میں ریجنل ڈسپیرٹی کے معاملے کو ٓٓ آسان نہ لیا جائے بلوچستان میں لگی آگ کو فوجی اور سیاسی طریقے کا ساتھ ساتھ معاشی طریقے کے ساتھ سُلجھانے کی ضرورت ہے۔ایسا نہ ہوجائے کہ ایک اور سانحہ ہو جائے۔اِس ملک کے دانشوروں، سیاسیاستدانوں فوج کو ایک مضبوط حکمتِ عملی اختیا رکرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا دُشمن بھارت امن کی آشا سے ہمیں تو بہلا رہا ہے خود نہیں بہلے گا اور بھیڑئیے کی طرح گھات لگائے ہوئے ہے اور وہ بھارت ماتا کو تقسیم کا پاپ کرنے والوں کو کبھی معاف نہیں کرئے گا ۔ 

HUMAN RIGHTS INTERNATIONAL CHAIRMAN ASHRAF ASMI ADVOCATE HAS CONDEMNED THE BRUTAL MURDER OF A PAKISTANI STUDENT MATAHAR RAUF IN AMERICA. hE CLAIMED THAT THE AMERICAN GOVT SHOULD ARREST THE KILLERS. ASHRAF ASMI HAS EXPRESSED HIS GRIEF OVER THE THE DEATH. ASHRAF ASMI HAS SENT A PROTEST LETTER TO AMERICAN PRESIDENT BARK OBAMA REGARDING THIS SAD INCIDENT.

HUMAN RIGHTS INTERNATIONAL  CHAIRMAN  ASHRAF ASMI ADVOCATE HAS CONDEMNED THE BRUTAL MURDER OF A PAKISTANI STUDENT MATAHAR RAUF IN AMERICA. hE CLAIMED THAT THE AMERICAN GOVT SHOULD ARREST THE KILLERS. ASHRAF ASMI HAS EXPRESSED HIS GRIEF OVER THE THE DEATH. ASHRAF ASMI HAS SENT A PROTEST LETTER TO AMERICAN PRESIDENT BARK OBAMA REGARDING THIS SAD INCIDENT. 

آہوں سے رِستا ہو ا لہو۔ ا یک سچی کہانی میا ں اشرف عاصمی ایڈوکیٹ کے قلم سے,A true story Written By Ashraf Asmi

 آہوں  سے  رِستا ہو ا  لہو۔

ا یک سچی کہانی  میا ں اشرف عاصمی  ایڈوکیٹ کے قلم سے

ماں اپنے لاڈلے جواد اور لاڈلی زیبا   پر  اپنی  پہاڑ جیسی  جوانی قربان کر چکی تھی۔ جسیے تیسے کرکے محنت مزدوری کی  جواد  کو  تعلیم دلوائی اسی  طرح چھوٹی زیبا  کو  بھی  اُس نے پڑھایا۔ماں سارا دن لوگوں کے کپڑے سیتی یوں اُس نے انپے خاوند کی موت کے بعد اپنے گھر  کی روٹی،پانی کا انتظام چلایا۔ جب اُس کا خاوند اُسے اکیلا چھوڑ کر منوں  مٹی میں جا سویا تھا اُس وقت جواد تین سال کا تھا اور   زیبا چھ ماہ کی تھی۔جواد کو اپنے   با پ  سے بڑا پیار تھا اُس نے اپنی توتلی زبان سے ابا کہنا سیکھا ہی تھا کہ  اُسکا  پیارا  لاڈو  ابا  اپنے   ننھے   سے  جواد اور معصوم بیٹی زیبا اور اپنی وفا کا پیکر بیوی کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے  ایسے دیس روانہ ہوگیا تھاجہاں سے واپسی کبھی کسی کی آج تک نہ ہوئی ہے۔جہاں سے کبھی کسی کے خط کا جواب بھی نہیں آیا کرتا۔ یوں رخشیندہ جو ابھی مشکل سے  چوبیس سال کی ہوئی تھی بیوگی کے    پُل   صراط پر  سے گزرنے کے لیے  سوائے  اُس کے رب کے اُسکا کوئی سہارا نہ تھا۔ ماں باپ اُسکے بچپن میں ہی چل بسے تھے۔اور  اُسکو  کسی کی خبر نہ تھی بس اتنا پتہ تھا کہ محلے کے ایک بزرگ نے اُسے بیٹی بنا کر پالا  اور اُسکا بیاہ کردیا  اور بس اُسکے بابا نے بھی شاید اپنی سانسوں کو ننھی رخشیندہ کے لیے  سنبھال رکھا تھا جیسے ہی اُسکا   بیاہ ہوا  وہ   بزرگ بھی داغِ مفارقت  دے کر اپنے خالق ِ حقیقی کو جا ملا۔ رخشیندہ کی زندگی  میں بہار اور خزاں جیسے ا لفاظ میں کوئی  فرق نہ تھا۔اُسے اتنا پتہ تھا کہ رب کا کام روٹی دینا ہے اور بندے کا کام کھانا ہے اُس روزی روٹی کو جب تک اٰس رب نے سانسیں دے رکھیں  ہیں۔کیونکہ اُس کو پتہ تھا کہ جس ڈوری  کے ساتھ بندے کی سانسیں بندھی ہوئی ہیں وہ ڈوری ایک ایسے ہاتھ میں ہے جو کہ پوری انسانیت  اور سارے جگ کا  مالک ہے اور وہ کچا ہاتھ نہیں بلکہ بہت پکا اور مظبوط ہے اس لیے رخشیندہ نے مایوس ہونا تو کبھی سیکھا ہی نہیں تھا۔ اِسی لیے تو جب اُس کے شوہر  کی وفات ہوئی تو وہ اپنے رب کے اس فیصلے پر صابر و شاکر ہوکر  ایک نئی راہ پر  چل  پڑی اس راہ میں اب اُس کے ساتھ اُسکا ننھا جواد اور معصوم  زیبا بھی تھی  یہ سفر بھی تو رب نے اُسکے  لیے  چنا تھا تو رب    خراب   راستے  اپنے بندے کے لیے کیسے  چُن سکتا     ہے   وہ تو اپنی مخلوق سے محبت کا  سلوک کرتا  ہے۔   رخشیندہ اپنے طور پر دن رات    محنت  کرکے اپنے بیٹے اور بیٹی کو پالتی رہی۔ننھا جواد جب جب سکول جاتا تو ماں اُس کو ڈھیروں دُعائیں دیتی۔جواد کو دھن تھی کہ وہ بڑا  انسان بنے گا۔  ما  ں اُسکو سمجھاتی کہ بڑا انسان وہ ہوتا ہے جو کہ دوسرں  کا خیال ر  کھے اُن کے دکھ درد میں شریک ہو۔ماں ہمیشہ جواد  کو  نصعیت کرتی کہ  بیٹا کبھی  محنت سے  جی نہیں ُچرانا،رب پاک سے ناامید کبھی نہیں ہونا۔ننھے  جواد   کے اندر یہ سوچ اُس کی ماں نے جاگزیں کردی تھی کہ  رب ہی  کارساز ہے اور اُس سے ناامید ہونا گناہ ہے اور اسی سوچ  میں جواد پروان چڑھا۔  جواد  کی سوچوں میں  یہ راسخ ہوچکا تھاکہ جو کچھ رب پاک نے کرنا ہے وہی   ہونا ہے انسان کا کام صرف نیک نیتی سے محنت کرنا ہے جواد  میٹرک میں جب سکول میں اول آیا تو اُسکی   ماں کے  خوشی سے آنسو نکل اُئے۔ ماں نے گھر میں رب کے پیارے رسولﷺ  کا میلاد منایااور محلے کی عورتوں  نے میلاد میں  بھرپور  شرکت کی۔  جواد کی کامیابی کے پیچھے درحقیت وہ جذبہ  کارفرما تھا کہ ہمیشہ سچ بولنا ہے اور محنت کرنی ہے۔ رخشیندہ کی تربیت نے جواد کو ایک مثالی طالبعلم بنا دیا تھا۔جواد ایف ایس سی کرکے ڈاکٹر بننا چاہتا تھا۔ ماں کے پاس وسائل بہت کم تھے۔لیکن وہ بھی  دُھن  کی پکی  تھی اور  اُسے اپنے رب  کی  رحمت  پر اتنا یقین تھا جتنا کہ  اُس کو  اس بات  پر  یقین تھا  کہ وہ انسان ہے اور مسلمان ہے۔ رب پاک کی  رحمتوں کے سائے تلے جواد پڑھتا چلا گیا۔ جواد  کی ماں کی محنت تو تھی ہی لیکن جواد بھی کسی طرح سے بھی محنت سے جی چُرانے والا نہیں تھا۔رخشیندہ نے بیشمار تکلیفوں کے باوجود جس طرح سے  اپنے لال کی تربیت کی تھی اُس کا کوئی   ثانی نہ تھا۔اس لیے جواد اپنی ہر   کلا س کے  اُستاد کی آنکھ کا  تارا بن جاتا۔جواد کی پڑھائی سے لگن  اور زندگی کے معاملات میں ایک پختہ سوچ  اور رائے نے  اُس کو اپنے  ساتھی لڑکوں سے ممتاز کر رکھا تھا۔اُسکی   کامیابی کے حصول کے مقصد کے راہ میں   حائل    رکاوٹیں  کبھی  بھی اُس کے  حو صلوں کو پست   نہ  کرسکیں۔ہر  ہر مشکل گھڑی  اُس کو کامیابی کے    نزدیک اور مایوسیوں سے دور کرتی جا رہی تھی۔ ماں کو اپنے لاڈلے کی فکر تو رہتی لیکن  اس کی ممتا نے  جواد کو اُن راستوں کا راہی بنا دیا تھا۔ جہاں دکھ اور سکھ غمی اور خوشی سب پر بندہ اپنے رب  کی رضا  پر شاکر رہتا ہے۔  جواد کی زندگی  ایسے عنوان سے عبارت تھی جہاں بچے بچپن سے   سیدھا  بڑھاپے  میں پہنچ جاتے ہیں۔زندگی اُن کے لیے بوجھ نہیں بلکہ  اُستاد بن جاتی ہے تو بھلا پھر کبھی کو ئی   اُستاد سے گلا   شکوہ بھی کرتا  ہے۔    وہ  عا م 
لڑکوں کی طرح نہ کھیلا کودا نہ کبھی دوستیاں پالیں اور نہ من پسند کی کبھی شاپنگ کی۔ وقت کے سمندر نے جواد کو ایک ایسا گوہرِ نایاب 


بنادیا تھا  جو کہ کسی  بھی لمحے    مایوسیوں کے قریب نہ پھٹکتا تھا۔ اُس  کے سا منے تو ماں اور رب کی رضا  ہی مقدم تھی کیوں  ایسا نہ ہوتا  جواد   تو  تھا  ہی  سراپا عجزِوانکسار۔  ماں خوش تھی باپ کی شفقت سے محروم بچہ اپنے رب کے سہارے زندگی کی منازل  طے کر رہا تھا۔ رشتے دار تو کوئی تھا   ہی  نہیں   محلے دار جو تھے   وہ جواد  اور اُسکی  ماں  کی قسمت پر رشک کرتے تھے۔   جواد کبھی کبھار اگر حالات کی تنگی سے اُکتا جاتا تو وہ   رات  کو اپنی چھت پر چلا جاتا اور اور آسمان کے ستاور ں کو دیکھ کر آنسو  بہا کر اپنا من  ہلکا کر لیتا۔  یوں دن بیتتے چلے گےٗ۔ زندگی کا سفر ہر دم رواں رہتا ہے یہ تو انسان کے احساسات ہیں جو اس کو  کبھی خوشی کبھی غم دیتے ہیں۔ورنہ زندگی تو  روز  اول سے ہی زندگی ہے وہ  تو رکتی نہیں اُسے تو بس چلتے ر ہنا  ہوتا ہے۔ انسان کو  جب  خوشیاں میسر آتی ہیں تو اُسکو وہ اپنا حق سمجھ لیتا ہے لیکن جب ُدکھ ملتے ہیں  تو تب وہ  خیال کرتا ہے کہ اُس کے ساتھ تو بڑا  ظلم ہوگیاہے۔وہ چیختا اور چلاتا ہے۔ لیکن وہ لوگ جو رب کی رضا پر قا نع ہوتے ہیں وہ اللہ کے شیر بن جاتے ہیں۔ اُن کو پھر رُباعی نہیں  آتی وہ اپنی تقدیر کو خود سنوارتے ہیں اور اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں  پر کسی دوسرے کو موردِ الزام نہیں ٹھراتے۔  جواد کو تو بس اگے بڑھنا تھا۔  وہ  ایف ایس سی  کے امتحان میں اچھے نمبروں  سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد  میڈیکل کالج چلا گیا۔ میڈیکل کالج میں اُس  کو سکالرشپ  ملا جسکی وجہ سے   اُسکی ماں سے کافی بوجھ  کم ہو گیا۔ یوں ایک دن جواد  ایم بی بی ایس کی ڈگری  لے کر  ڈاکٹر بن گیا۔  وہ دن ماں کے لیے شادیِ مرگ کی کیفیت کا دن تھا۔اُسے زندگی کا حاصل مل گیا تھا۔ زیبا بھی اپنے لاڈلے  بھائی کے نقش  قدم پر چلتے  ہوئے  ڈاکٹر بن چکی تھی۔ زیبا زندگی کو اپنی ماں کی آنکھ سے دیکھتی اور ماں کی سوچوں سے  سوچتی۔ زیبا کو  ہر وقت فکر اپنی ماں اور بھائی کی رہتی۔وہ اس جذبے کی  قائل تھی کہ بیٹیان،بہنیں تو اپنی مان اور بھائیوں پر قربان ہونے کے لیے ہوتی ہیں۔ رخشیندہ کی تربیت نے زیبا کو پابند صوم وصلاۃ بنا دیا تھا۔ اُسکا بھائی بھی اُس پر ہر وقت  واری ہوتا تھا۔ زیبا سوچتی کہ ماں نے کتنے دکھ اور تکلیفیں سہی ہیں کاش ایسا نہ ہوتا اُسکے ابا زندہ ہوتے اور  وہ اُسکے ناز  اُٹھاتے   لیکن  قدرت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے۔ اُسے یہ  ادراک ہو چکا تھا کہ فطرت کی ہر شے مجبور ہے۔ستم کے سلسلوں نے دراز ہی رہنا ہے لیکن  رب کی رحمت   سے مایوسی  بھی  تو  کفر ہے ان خیالات کو جھٹک کر وہ  خیالوں میں  پریوں  کے  دیس پہنچ جاتی۔کسی کا تو پتہ نہیں اُسے اتنا  اندازہ ضرور تھا کہ اُس نے ہر گھڑی اپنے خالق کی اطاعت میں گزارنی ہے۔ پریوں کے دیس کی سیر اُس کے خیالوں کو  اتنا پاکیزہ بنا د یتی کہ وہ خود  کو بھی  ایک پری ہی  سمجھنے لگتی۔  ماں زیبا  کا دل بہلاتی اور زمانے  کے ساتھ  کیسے سلاق  کرنا ہے اور دُنیا کی کونسی بات  کو  پسِ پشت ڈال دینا ہے اور کس  بات پر عمل کے لیے ہر وقت تیار رہنا ہے۔ اس لیے زیبا اپنی  سوچ  مین اتنا  گم  ہوجاتی۔ کہ وہ خود کو بھی فراموش کر دیتی پھر ماں اُسکو تسلی دیتی کہ دکھ  اور  سکھ  تو  زمانے کا حصہ ہے۔ ؔ’ماں کو تو یقین ہو چلا تھا کہ رب پاک  نے اُسکی قسمت  کتنی  اچھی بنائی تھی۔ جواد  کو ایک مقامی ہسپتال میں جاب مل گئی تھی۔ زیبا بھی بھائی کے ساتھ  ہی اُسی ہسپتال میں  ملازمت کرنے لگ گئی۔ اسی دوران جواد  سپیشلائزیشن کرنے امریکہ چلا گیا۔ ماں نے اُسکے جانے سے پہلے جواد کی منگنی کردی اور زیبا کی شادی  بھی ایک ڈاکٹر سے ہوگی۔  وہ اپنے گھر ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگ گئی۔  جواد  منزلیں طے کرتا ہوا  امریکہ میں کامیابی حاصل  کرکے جب لوٹا  تو  ماں کی زندگی میں بہارِجاوداں آگئی۔  جواد شہر کے سب سے بڑے ہسپتال میں کام کرنے لگا۔ دنوں   میں اُسکی شہرت کو چار چاند لگ  گئے۔  رخشیندہ اب بیمار رہنے لگی تھی اُس نے جواد کو شادی کا کہا ۔منگنی پہلے ہی طے تھی۔ یوں شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ زیبا بھی ماں کا ہاتھ بٹانے کے لیے ماں کے  گھر آگئی وہ ایک ننھی سے کلی  کائنات کی ماں تھی۔ شادی کی شاپنگ اور دیگر تیاریوں میں  وقت تیزی سے گزرتا گیا اور پھر وہ دن آپہنچا جب  جواد  گلے  میں  پھولوں  کی  مالا  سجائے  اپنی  ماں کی  خوشیوں  میں  رنگ بھرنے کے لیے  بارات کے ساتھ دلہن کے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ بارات گاڑیوں کے قا  فلے  میں اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی کہ اچانک دھماکے  کی  آ واز  سنائی  دی  ا ور  اگلے  دن  کے  اخبارات  میں  یہ  خبر  نمایاں  تھی کہ  کل   شہر میں ہونے والے خود کش دھماکے  کی زد میں  ایک بارات بھی آگئی اور یوں دلہا اپنی ماں بہن اور دیگر عزیزواقارب کے ساتھ اُس  بم دھماکے  میں ہلاک ہو گیا۔ صوبے کے وزیر اعلیٰ کا بیان بھی ساتھ چھپا تھا کہ  مجر  موں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔  روشن راہوں کی مسافر رخشیندہ اپنی  بیٹی،داماد، زیبا کی بیٹی اور جواد کے ساتھ  ناکردہ  جرم کی سزا  میں ہلاک ہوکر اپنے پیارئے رب کے حضور   پیش ہو گئی۔ رخشیندہ کی روح  ازل سے ابد تک کی  طرح  مطمن  ٹھری لیکن جواد، زیبا  وغیرہ  کی روحیں بے چینی  رہتی اور حیران تھیں کہ کس جرم کی سزا میں وہ  اپنی طبعی موت سے پہلے ہی  موت کے آنگن میں اُتر  آ ئیں۔  قدرت کے اپنے اصول اور ضابطے ہوا کرتے ہیں۔لاکھ کوشش کے باوجودجس کی  جتنی  زندگی تھی اُس نے  اتنی ساعتیں  گزار لیں لیکن اُن کی روحوں کی بے قراری  ایسی  تھی  کہ  اُن  کی  سمجھ سے بالا تر  تھا کہ  دل دماغ سوچیں گواہی دینے سے قاصر تھیں کہ  ان  معصوموں کا  کیا قصور تھا؟    

Friday, 5 December 2014

Vultures are around the IK aN ARTICLE By: Ashraf ASmi Advocate



Vultures are around the IK

By: Ashraf ASmi Advocate


Remember Pakistani nation, to change the socio political conditions of the country is very difficult, as capitalist have already dominated the whole structure, similarly if Pakistani nations is considering the Imran Khan as the reformer of this nation , unfortunately , Imran Khan himself hijacked by the land-Mafia , so called gadinasheen, Capitalists, Landlords etc. How is it deplorable thing that whenever the Pakistani nation is on the way of revolution, such people come forwarded and high jacked the whole theme. Now it is clear that Imran Khan will change his stance day by day due to his so called advisors. Pakistani Youth is facing acute hardships because of unemployment, there is no jobs in the market .The energy crises had destroyed the growth rate of the GDP, people are out of the job,Per unit cost is too high because of energy rates so this thing leads to high inflation rate. Pakistani nation is facing high mortality rate because of in-   -sufficient facilities of health ,doctors has become robbers. Pakistani social structure has been badly damaged as there is no leadership,  every body chasing money, nation has lost his all religious and social values. Every one understands that as the rulers of this country are not sincere with this country so there is no truth exists. So corruption has polluted every segment of society. Liberal media has changed the whole environment of the society.Nabi Pak Peace Be Upon Him said” to avoid sins, there should not be thought about sins. What is our character as nation, the whole liability is on the rulers those are not doing their job according to the wishes of the poor nation of this country.

Writer is Practicing Lawyer at Lahore High Court