Friday, 17 October 2014

حکمرانوں کا ادراک اور بیرونی و اندرونی خلفشار ۔ تحریر میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹashrf asmi advocate article about current affairs


حکمرانوں کا ادراک اور بیرونی و اندرونی خلفشار  

 میاں محمد اشرف عاصمی

 ایڈووکیٹ ہائی کورٹ



پاکستانی معیشت اور سماج اِس وقت سخت دباؤ میں ہیں۔ اِسی طرح پاکستانی کی حکومت بھی اپنی سمت متعین کرنے کے حوالے سے نابلد دیکھائی دیتی ہے۔ حالیہ بجلی کے بلوں کے بحران نے پوری قوم کو شدید تکلیف میں مبتلا کردیا ہے۔نواز لیگ جس انداز میں سیاست میں اپنا مقام بنا ء پائی تھی اور اُس نے پیپلز پارٹی کو دوسرئی قطار میں لا کھڑا کیا تھابالکل وہی حال اب پی ٹی آئی نون لیگ کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہے۔عوام کی غالب اکثریت نے یہ امیدیں لگائی تھیں کہ زرداری صاحب کی حکومت تو معاشی مضبوطی کے لیے تو کچھ نہ کرسکی لیکن نواز شریف پر قوم کو بہت امیدیں تھیں لیکن پچھلے 18ماہ کی حکو متی کارکردگی کے معاشی ا عشارئیے نوحہ کناں ہیں۔کیا ہی اچھا ہوتا اگر جناب وزیراعظم نواز شریف سٹیٹس کو کے خاتمے کے لیے آخری حد تک چلے جاتے تو جو لوگ عمران قادری کی طرف دیکھ رہے ہیں وہ ن لیگ کے شُکر گزار ہوتے۔ راقم کے خیال میں شاید ن لیگ کی لیڈر شپ کو ادراک نہیں کہ آزاد میڈیا اور سوشل میڈیا کی نفوس پذیری نے اب پہلے والی حالت نہیں رہنے دی اب تو دور دراز علاقوں میں مقیم لوگ بھی سیاسی سوجھ بوجھ کے حامل ہوچُکے ہیں۔ پاکستانی قوم حکومت سے اور کچھ نہیں بس زندہ رہنے کے لیے جتنی سانسیں درکار ہوتی ہیں اُس کیااجازت مانگتی ہیں۔نواز شریف اور شھباز شریف ذاتی طور پر عوام کی بھلائی کے لیے بے چین ہیں لیکن صرف دو بندئے تو پوری پاکستانی قوم کے لیے کافی نہیں بلکہ پوری حکومتی مشینری کو بطور ٹیم کام کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ شھباز شریف صاحب کا ادراک اور کام کی لگن اور جنون ساری قوم پر واضع ہے لیکن ایسا صرف ہوا کے بگولے کی مانند ہی دیکھائی دیتا ہے۔ غریب آدمی جس طرح نجی ہسپتالوں کے جلاداور گردہ فروش ڈاکٹروں کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہے اُس کی وجہ صرف یہ ہی ہے کہ شھباز شریف کو سب اچھا کہ رپورٹ دی جاتی ہے۔ اِسی طرح لوگ پولیس کے ہاتھوں اذیت ناک صورتحال سے دوچار ہیں۔ کیو نکہ پولیس کو سیاستدان یعنی ایم پی ائے اور ایم این اے اپنے گھر کی باندھی بنائے ہوئے ہیں اُن کی سیاست کا مرکز ومحور ہی تھانہ اور کچہری ہے۔شھباز شریف پچھلے سات سالوں سے مسلسل پنجاب کے بلا شرکت غیرئے حکمران ہیں لیکن پولیس کا قبلہ درست نہیں ہو پایا۔ یہ تو ہے عمومی صورتحال جس سے پاکستانی قوم نبرد آزما ہے۔دوسری طرف مودی کی حلومت نے آتے ہی پاکستانی سرھدوں پر دباؤ برھا دیا ہیحکومت تو ابھی تک دھرنوں اور جلسوں کی وجہ سے سخت دباؤ میں ہے۔ان حالات میں ایک طرف پاکستانی قوم اندرونی محاذ پر مشکلات کا شکار ہے پا کستانی فوج تاریخ کی مشکل ترین جنگ دہشت گردی کے خلاف اپنے ہی ملک میں لڑ رہی ہے۔ افغانستان میں دہشت گرد، امریکہ کی گود میں بیٹھ کر پاکستانی فوج کے ساتھ جنگ کر رہے ہیں ، بھارت مسلسل سرحدوں پر گولہ باری کر رہا ہے۔اُدھر سے ایران بھی پاکستان کو دھمکیاں دئے رہا ہےپاک فوج۔چپے چپے کی حفاظت پر مامور پاک فوج کے افسر وجواندد رحقیقت ان حلات میں صرف ایک ہی ادارہ ہے جو پاکستان کی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے وہ ہیاُس جھنڈئے کو تھامے کھڑئے ہیں جو جھنڈا دین اسلام کا ہے جس جھنڈئے کی حفاظت کے لیے غزوہ بدر سے لے کر ابتک مسلمانوں کے پائے استقلا ل میں کوئی لغزش نہیں ہے ۔اِس عظیم مشن کی آبیاری میں آقا کریمﷺ کی جدوجہد اپنی مثال آپ ہے۔ صحابہ اکرامؓ نے ہمیشہ دین مصطفے کریمﷺ کے لیے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کیا۔پاک فوج آج اُسی مشن کی حفاظت کے لیے خارجیت کے خلاف برسرپیکار ہے۔جہاد کے حوالے سے نبی پاک ﷺ کے غلاموں نے ہمیشہ اپنا فریضہ ادا کیا ہے۔ ۔بین الاقوامی سازشوں نے جس طرح لیبیا میں جو کچھ ہوا اور جس طرح وہاں خون خرابہ کیا گیا معمر قذافی کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔اِسی طرح عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی عراقی صدر صدام حسین کو عبرت کا نشان بنانے کے لیے وہ دن چُنا گیا جب مسلمانوں کی عید کا دن تھا اور دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ اور الیکٹرانک میڈیا صدام حسین کی پھانسی کا منظر براہ راست دکھا رہے تھے اور لاکھوں لوگوں عراق میں خون میں نہلا دیا گیاعراق کو تباہ برباد کرکے رکھ دیا گیا۔ وہاں کچھ بھی سلامت نہیں رہا۔بات یہاں تک ہی نہیں رہی مصر میں حالات جہاں تک پہنچے ہیں اور وہاں جس طرح عوام کا قتل عام ہورہا ہے اُس حوالے سے کوئی دو آرا نہیں پائی جاتی ہیں۔مصری عوام اِس وقت یرغمال بنے ہوئے ہیں۔عراق اور مصر میں خانہ جنگی کا ماحول ہے۔یہ داستانیں صدیوں پرانی نہیں ہیں جب خبریں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ نہیں پاتی تھیں یہ انٹرنیٹ، تھری جی فورجی فور کا دور ہے۔ آن واحد میں دنیا کے ایک کونے کی خبر لاءئیو دوسرئے کونے میں دکھا دی جاتی ہے۔شام میں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ تباہ برباد کرکے رکھ دیا گیا ہے شام کو ۔بھوک افلاس نے ڈیرئے ڈال رکھے ہیں۔کشمیر قیام پاکستان سے لے کر اب تک خون سے رنگین ہے اور قبرستانوں میں جگہیں کم پڑتی جارہی ہیں افغانستان کی قسمت بھی کچھ ایسی ہی ہے سویت حملے سے لے کر اب تک افغانستان میں قتل و غارت عروج پر ہے امریکی سامراج جن کو پہلے دوست رکھتا تھا اب اُن کے خلاف ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لڑ رہا ہے۔ لاکھوں افغان قتل کردئیے گئے ہیں۔ تباہ حال افغانستان بھوک افلاس کا عبرتناک نشان بن چکا ہے۔اِسی طرح یمن میں بھی شورش جاری ہے بحرین میں بھی لااوا پک چکا ہے اور اِس کا حال گزشتہ مہینوں میں دیکھا بھی جا چکا ہے۔مسلم دنیا کے حوالے سے ایران اور سعودی عرب کا کردار قابل ستائش نہیں ہے۔ اپنی صدیوں سے جاری سرد جنگ کی وجہ سے یہ دونوں ممالک مسلمان ممالک میں ہونے والی تخریبی سرگرمیوں کو آشیرباد دیتے ہیں۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ فرقہ ورانہ جنگ کے بیج بو دئیے گئے ہیں اور سعودی عرب اور
ایران اس حوالے سے اپنا کردا ر ادا کرہے ہیں۔خونِ مسلمان کی ارزانی کا اندازہ اِس سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی سامراج مسلمانوں کو تہہ وبالا کرنے پہ تُلا ہوا ہے لیکن مسلمان ممالک کبوتر کی طرح آنکھیں موندھے ہوئے ہیں۔مُتذکرہ بالا ممالک میں خواتیں بوڑھے اور بچے جس جہنم میں زندگی گزار رہے ہیں اُسکا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ گاجر مولیوں کی طرح بچوں بوڑھوں عورتوں کو شھید کیا جارہا ہے۔ترکی، پاکستان، ایران اور سعودی عرب اگر یہ ممالک آپس میں مل بیٹھ جائیں تو شائد امریکی سامراج کو مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے سے منت سماجت کرکے روک سکیں۔ پاکستان میں جاری دہشت گردوں کے خلاف جنگ دراصل بھارت، امریکہ کے خلاف ہے اور پاکستان میں بلوچستان اور کے پی کے میں جتنا نقصان پاک فوج اُٹھا چکی ہے اُس کے مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ عام جوان سے لے کر جرنیل تک اِس دہشت گردی کی جنگ میں شھید ہوئے ہیں۔ اِسی طرح عوام بھی ہزاروں کی تعداد میں دہشت گردی کی نذر ہوچکے ہیں۔ مالی نقصان بھی کھربوں میں ہے۔ہمارئے ملک کے سیاستدان نہ جانے کہاں بستے ہیں وہ ایک دوسرئے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں اُنھیں اِس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ خدا نخواستہ ملک کے وجود کو شدید خطرات لاحو ہیں اور اِن خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے آپس میں اتحاد و اتفاق ہونا ضروری ہے۔پاک فوج آپریشن عضب میں دُشمن سے برسرپیکار ہے۔ہمیں بطور قوم یہ بات طے کرلینی چاہیے کہ ہم نے پرائی جنگوں میں نہیں گھسنا اگر ہم اپنے ملک کے داخلی معاملات کو کنڑول میں کرلیں تو باہر کا کوئی بھی دُشمن ہمارا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ میر جعفروں اور میرصادقوں کو بے نقاب کرنا ہوگا۔دین کے نام پر خارجی عناصر کو اپنے وطن میں کام سے روکنا ہوگا۔ ہر ملک ، سوچ، زبان مذہب کے پیروکاروں کو حق زندگی دینا ہوگا۔جن عوامل نے دہشت گردی کو ہوا دی اُن میں پیٹرو اسلام کی حامل نام نہاد دینی جماعتیں بھی شامل ہیں جو اپنے نظریات کو باقی سب پر ٹھونسنا چاہتی ہیں اِس حوالے سے ہمارئے برادر ممالک ایران اور سعودی عرب کی حکومتوں کو بھی یہ گزارش کرنا ہوگی کہ آپ اپنی سرد جنگ میں دوسرے ممالک کے انسانوں کو ایندھن کیوں بنا رہے ہیں۔اس صورحال میں پاکستانی حکومت کو اعتدال کا رستہ اپنا کر ملک میں جاری سیاسی، معاشی بد حالی کو کنٹرول کرنا ہوگا۔ ہندوستانی فوج اِس وقت پاکستانی کے اندرونی حالات سے فائدہ اُٹھانا چاہتی ہے۔ موجودہ حلات میں پاکستانی حکمران طبقے کو وقت کی آہٹ پر کان دھرنے ہوں گے امریکہ بھارت، ایران کی دھمکیاں ، دہشت گردی کے خلاف پاکستانی فوج کی جنگاور پاکستان کے اندر سیاسی و معاشی خلفشار اب حکمرانوں سے عقلمندانہ فیصلوں کا متقاضی ہے۔ اِس لے حکمرانوں کو اپنا اندازِ حکمرانی اب بدلنا ہوگا۔

No comments:

Post a Comment