Thursday, 30 October 2014

عوام کی پاکستانیت منحوس چکر کی گرداب میں ......... میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ


عوام کی پاکستانیت منحوس چکر کی گرداب میں

                                                                                                                      

میاں محمد اشرف عاصمیایڈووکیٹ ہائی کورٹ     


جس طرح کے گھٹن کے ماحول میں ہمارا معاشرئے اِس وقت جن حالات سے نبرد آزما ہے اس حوالے سے کوئی دو آراء نہیں ہیں۔میں آج کچھ سوالات اپنے آپ سے کرنا چاہتا ہوں پہلی بات تو یہ ہے کہ کیا پاکستان بنانے کے مقاصد پر ایک دن بھی عمل پیرا ہو سکا۔اگر ہندووں کی غلامی سے نجات کے بعد وڈیروں سرمایہ داروں کی غلامی میںآنا مقصود تھا تو پھر آگ اور خون کی ہو لی کھیلنے کا المناک کھیل کیوں کھیلا گیا۔ پاکستان کو اللہ کے نام پر بنانے والے کیا صرف ایک محمد علی جناحؒ کی وفات کے بعد اپنے نظریاتی مقاصد سے کیو ں ہٹ گئے؟۔اگر زمین کا ٹکرا لینا ہی حاصلِ منزل تھا تو پھر اِس زمین کو لینے کے بعدآباد کیوں نہ ہونے دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ بھارت روس اسرائیل شروع سے ہی ہمارئے ملک کے درپے ہیں تو پھر لاکھوں عصمتوں کو لٹانے والوں، لاکھوں جانیں قربان کرنے والوں کے وارثوں نے اپنی ذمہ داریاں حصول پاکستان کے بعد فراموش کیوں کر دیں۔ جب 1857سے لے کر 1947 تک کہ نوئے سالہ دور میں مسلمانوں نے اتنی سخت جدوجہد اور سخت ترین حالات میں پاکستان کے حصول کی جنگ لڑی تو پھر اُس جنگ کو جیتنے کے بعد ہی شام غر یباں کیوں بپا کر دی گئی اور سانحہ مشرقی پاکستان کا وقوع پذیر ہونا اِس بات کی دلالت ہے کہ پاکستان کے بیٹوں نے دھرتی ماں کی حفاظت کا قرض ادا نہیں کیا۔پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی کے لیے عام آدمی کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔پاکستان کے مسائل کی بڑی وجہ عام آدمی کا معاشرتی ترقی میں اپنا کردار ادا نہ کرنا ہے، جس کی وجہ سے قبضہ گروپوں، رسہ گیروں کو مملکت خدادادِ پاکستان کا ان داتا بننے کا موقعہ مل گیا۔ہمارئے ملک کی تاریخ کے تانے بانے بھی عجیب نشیب وفراز میں ہچکولے کھاتے نظر آرہے ہیں۔ 1956کا آئین،1962 کا آئین بعد ازاں بھٹو صاحب کا دیا ہوا 1973 کا آئین۔موجودہ آئین بھی ہر فوجی حکمران کے سامنے تر نوالہ ثابت ہوتا رہا ہے اور وہ اِس میں من پسند تبدیلیاں کرتے اور نظریہ ضرورت کو اگلی نسلوں تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیتے رہے۔حیرت ہوتی ہے کہ اتنے دانشوروں اور رہنماؤں کے ہوتے ہوئے کس ناقدری والا سلوک پاکستان سے کیا جاتا رہا ہے اور اب بھی ایسی صورتحال ہے۔اِس سرزمین کی حُرمت کی پامالی میں ہمارئے قومی رہنماؤں کی مجرمانہ غفلت کا بڑا بھیانک کردار ہے۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں یہ ہی نام نہاد قومی قد آور شخصیات اپنی حرکات و سکنات اور اعمال کی وجہ سے بونے بنتے چلے گئے۔قوم کو اتنا مایوس کیا گیا کہ قوم پاکستان کی تخلیق پر ہی سوال اُٹھانے لگی۔قوم کا مورال انتہائی پست حالت میں لانے کی ذمہ دار قیادتیں اپنے پیٹ کی آگ کو پاکستانی عوام کی دولت کو لوٹ کر بھرتے رہے اور بھر رہے ہیں۔ کہاں رہی ہیں اب تک انسانی آزادیوں کی لیے جنگ لڑنے والی قوتیں، کہاں و ہ مذہبی رہنماء ہیں جن کی ایک کال پر پورا ملک جام ہو سکتا ہے لیکن پستی ہوئی سرمایہ دارنہ نظام کے ہاتھوں عوام کی فلاح کے لیے اُن کے جارحانہ انداز سوئے ہوئے ہیں۔پاکستانی معاشرئے میں جہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ کردار کی تربیت کا بھی فقدان ہے یہ سرزمین، کرپٹ حکمرانوں، طالع آزماء آمروں، سرمایہ داروں، وڈیروں جعلی ڈبہ پیروں، اور مذہب کے نام پر لوگوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے والوں پر کھلی ہے وہ جو مرضی کرتے رہیں۔ لیکن عوام کو ان طبقہ جات نے ایسی افیون کھلا دی ہے کہ عوام کے اندر اُٹھنے کی سکت ہی نہیں۔ عوام کے شعور کو قید کر لیا گیا ہے جب بھی عوام کے جذبات میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے اِن طبقہ جات میں سے کوئی نہ کوئی آگے بڑھتا ہے اور عوام کومختلف حیلے بہانوں ڈراتا ہے تاکہ کہیں واقعی یہ عوام بیدار نہ ہوجائیں۔ اس طرح لوٹ کھسوٹ کرنے والوں نے عوام کو ایک ایسے منحوس چکر میں پھانس رکھا ہے کہ جہاں سے عوام کو آزادی نہیں مل رہی ہے۔ عمر ساری تو اندھیرئے میں کٹ نہیں سکتی اُجالوں کے حصول کے لیے عوام کو اپنے آپ کو پہچاننا ہوگا۔اِس مقصد کے لیے نوجوان نسل ہی قیادت کر سکتی ہے۔ نوجوان کسی کے آلہ کار بنے بغیر معاشرئے میں ناانصافیوں کے خلاف اپنا موثر کردا ر ادا کر سکتے ہیں۔حکومت تو اپنے نام نہاد خوشامدیوں کے نرغے میں ہے اور حکومت کوا سب اچھا دیکھانے والے ٹولے نے تو ہر دور میں اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ شریف حکومت کو جو موجودہ طوفان کا سامنا کرنا پڑا جس کے لیے پوری دنیا عمران اور طاہر القادری نے اپنا پورا زور لگایا اگر شریف برادران اب بھی اپنی سیاست کا رُخ عوام کی فلاح کی طرف نہ موڑ سکے تو موجود میڈیا کی آزادی اور عمران اور قادری کی کو ششوں کے سبب آنے والے انتخابات میں دونوں بھائی اپنے سیاست کو دفن اپنے ہاتھوں سے کر دیں گے۔یہ بات میں پورئے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ شریف برادران قوم کی ترقی چاہتے ہیں لیکن وہ پھر بھی ایم این ایم پی ائے کے لیے امیدوار اُس کو ہی نامزد کرتے ہیں جن کا وطیرہ کرپشن، قبضہ ،لوٹ مار ہے اور جو تھانے کچہری کی سیا ست کرتے ہیں اِس میں کوئی شک نہیں کہ چند اچھے لوگ بھی اِس اِس حکومت کا حصہ ہیں۔ اللہ پاک کا پنے بندے سے یہ وعدہ ہے کہ اگر وہ راہِ مستقیم کا راہی بن جائے گا تو پھر اللہ پاک اُسکے ہاتھ بن جاتا ہے جس سے وہ کوئی کام کرتا ہے ، اللہ پاک اُس کی آنکھ بن جاتا ہے جس سے یہ دیکھتا ہے۔ اِس دنیا اور آخرت میں فلاح کے لیے ضروری ہے کہ بندہِ مومن اپنے آپ کو اپنے رب کے تابع کرلے تو سب کچھ مسخر کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہم دنیا داری اور خواہشات کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کے مسافر بن جاتے ہیں تو پھر اپنے رب کی بجائے اپنی خواہشات کے غلام بن جاتے ہیں رب کی چاہت بندئے کو ہر شے سے ماورا کر دیتی ہے۔آئیے قران جو ہمارئے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے وہ کیا کہتا ہے اور ہمیں اپنے رب پاک سے کس طرح کی امیدیں باندھنے کی تلقین 

کرتا ہے اور ہمیں بتاتا ہے کہ تمھارا رب کیسا ہےکہ جب رسول الہ صلی اللہ و علیہ و سلم توحید کی دعوت لے کر اٹھے تھے، اُس وقت دنیا کے مذہبی تصورات کیا تھے۔ بت پرست مشرکین ایسے خداؤں کو پوج رہے تھے جو لکڑی، پتھر، سونے، چاندی وغیرہ مختلف چیزوں کے بنے ہوئے تھے۔ شکل صورت اور جسم رکھتے تھے۔ دیویوں اور دیوتاؤں کی با قاعدہ نسل چلتی تھی۔ کوئی دیوی بے شوہر نہ تھی اور کوئی دیوتا بے زوجہ نہ تھا۔ ان کو کھانے پینے کی ضرورت بھی لاحق ہوتی تھی اور ان کے پرستار ان کے لئے اس کا انتظام کرتے تھے۔ مشرکین کی ایک بڑی تعداد اس بات کی قائل تھی کہ خدا انسانی شکل میں ظہور کرتا ہے اور کچھ لوگ اس کے اوتار ہوتے ہیں۔ عیسائی اگرچہ ایک خدا کو ماننے کے مدعی تھے مگر ان کا خدا بھی کم از کم ایک بیٹا تو رکھتا ہی تھا اور باپ بیٹے کے ساتھ خدائی میں روح القدس کو بھی حصے دار ہونے کا شرف حاصل تھا۔ حتیٰ کہ خدا کی ماں بھی ہوتی تھی اور اس کی ساس بھی۔ یہودی بھی ایک خدا کو ماننے کا دعویٰ کرتے تھے مگر ان کا خدا بھی مادیت اور جسمانیت اور دوسری انسانی صفات سے خالی نہ تھا۔ وہ ٹہلتا تھا، انسانی شکل میں نمودار ہوتا تھا۔ اپنے کسی بندے سے کشتی بھی لڑ لیتا تھا اور ایک عدد بیٹے (عزیر) کا باپ بھی تھا۔ ان مذہبی گروہوں کے علاوہ مجوسی آتش پرست تھے اور صابئی ستارہ پرست۔ اس حالت میں جب اللہ وحدہٗ لا شریک کو ماننے کی دعوت لوگوں کو دی گئی تو ان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہونا ایک لازمی امر تھا کہ وہ رب ہے کس قسم کا؟ جسے تمام ارباب اور معبودوں کو چھوڑ کر تنہا ایک ہی رب اور معبود تسلیم کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے۔ قرآن مجید کا یہ اعجاز ہے کہ اس نے ان سوالات کا جواب چند الفاظ میں دے کر اللہ کی ہستی کا ایسا واضح تصور پیش کر دیا جو تمام مشرکانہ تصورات کا قلع قمع کر دیتا ہے اور اس کی ذات کے ساتھ مخلوقات کی صفات میں سے کسی صفت کی آلودگی کے لئے کوئئ گنجائش باقی نہیں رہنے دیتااگر ہمارا رب ہمارئے تمام دکھوں کا مداوا ہے تو پھر ہم کیوں خواب غفلت میں ہیں۔۔



No comments:

Post a Comment