Thursday, 26 November 2015
Sunday, 22 November 2015
الحمرا ادبی بیٹھک۔ڈاکٹر تقی عابدی کی زبانی فیض احمد فیضؒ کی یادیں اشرف عاصمی . column by ashraf asmi about great poet JOURNALIST FAIZ AHMAD FAIZ
الحمرا ادبی بیٹھک۔ڈاکٹر تقی عابدی کی زبانی فیض احمد فیضؒ کی یادیں
اشرف عاصمی
لاہور میں نومبر کے مہنے میں موسم کی خوبصورتی کو کمال عروج تک پہنچانے میں لاہور کی ثقافتی سرگرمیاں اپنی مثال آپ ہوتی ہیں۔ داتا علی ہجویریؒ کی نگری میں عجیب سکون اور مٹھاس کی چاشنی پائی جاتی ہے۔ ایسے میں شاعر حریت جناب فیض احمد کی یاد میں بہت ہی اعلیٰ پروگراموں کا انعقاد سرزمین لاہور کے لیے اعزاز ہے اور بجا طور پر سر زمین لاہور اِس لائق ہے کہ اِس سرزمین پہ اتنے بڑئے لوگوں کی محبتوں ہمتوں کے ذکر سے نئی نسل کو روشناس کروایا جائے۔ ادبی محافل میں زیادہ تو جانے کا اتفاق نہیں ہوتا بس کبھی کبھار موقعہ مل جاتا ہے ۔ فیض احمد فیضؒ سے میرا لگاؤ زمانہ طالبعلمی سے ہی ہے یوں آج میں اپنے بیٹے حذیفہ کے ساتھ فیض ؒ کی یاد میں ہونے والے پروگرام میں شریک تھا۔اور یقینی طور پر اِس طرح کے پروگرام ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوتے ہیں۔نامور صحافی، شاعرجناب فیض احمد فیضؒ کے حوالے سے ایک خصوصی لیکچر کاہتمام ادبی بیٹھک الحمرا مال روڈ لاہور میں کیا گیا ۔ ڈکٹر تقی عابدی امریکہ سے خاص طور پر لیکچر کے لیے تشریف لائے اور اصغر ندیم سید نے بطور میزبان اِس پروگرام میں شرکت کی ۔ مجھے بھی اِس لیکچر کو سُننے کا موقع ملا اور فیض شناسی کے حوالے سے جناب ڈاکٹر تقی عابدی نے نہایت پُر اثر گفتگو کی۔ڈاکٹر تقی عابدی پیشے کے لحاظ سے ہارٹ کے ڈاکٹر ہیں لیکن فیض شناسی کے حوالے سے اُن کا ریسرچ سے بھر پور لیکچر سُن کر اُن پہ رشک آیا۔ڈاکٹر تقی عابدی خود تو چالیس سال سے زائد عرصہ سے امریکہ میں مقیم ہیں لیکن جس انداز میں اُنھوں نے جناب فیض احمد فیضؒ کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کیا اُس سے اُن کی اردو دوستی پہ ناز کیا جاسکتا ہے۔ اُن سے گفتگو کے دوران جب سوال و جواب کی نشست میں یہ سوال پوچھا گیا کہ آپ میڈیکل ڈاکٹر ہوتے ہوئے شعر وسخن میں اتنی دلچسپی کی کوئی خاص وجہ رکھتے ہیں تو اُنھوں نے کہا کہ فیض صاحب ؒ اتنے بڑئے آدمی ہونے کے باوجود جتنی وہ عاجزی رکھتے تھے اِس بات نے اُن کو فیضؒ صاحب کا گرویدہ کیا۔ اِس موقع پر امجد اسلام امجد اور فیض صاحبؒ کے نواسے اور اصغر ندیم سید اور ڈاکٹر تقی عابدی سے بات کرنے کا موقع ملا۔ اللہ پاک اِن انسان دوست ہستیوں کو سدا ہنسا مسکراتا رکھے جو موجودہ دورمیں امن کا پرچار کر رہے ہیں۔اِسی لیکچر میں جب یہ گفتگو ہوئی کہ جناب فیض احمد نے اپنی وفات سے چار ہفتے قبل اپنی بیٹی کو خط لکھا کہ وہ اپنے گھر جارہے ہیں بڑی معنی خیز بات تھی اور چارہفتے بعد اپنے ملک میں آکر اللہ کو پیار ئے ہو گئے۔لیکچر کے دوران یہ بھی تذکرہ کیا گیا کہ فیض احمد فیض نے جیل میں قید کے دوران اپنے گھر والوں کو جو خط لکھا اُس میں درداں دی ماری دا دل علیل ائے صوفیانہ پنجابی کلام لکھ بھیجا۔ فیضؒ کو صوفیانہ شاعری سے خاص لگاؤ تھا بابا بلھے شاہؒ غلام فریدؒ اور شاہ حسینؒ کے وہ بہت پرستار تھے۔فیض ؒ صاحب کی حریت پسندی کا عالم دیکھیں کہ یاسر عرفات ؒ مرحوم نے جو رسالہ شائع کیا تو فیضؒ اُس کے تین سال سے زائد عرصہ تک مدیر رہے۔اِس بات کا بھی تزکرہ ہوا کہ فیضؒ کی پہلی برسی پر یاسر عرفاتؒ نے جو پیغام دیا وہ یہ تھا کہ فیض ؒ نے اپنی زندگی میں جوکردار ادا کیا ہے وہ شھید تھے۔ فیضؒ کی شاعری کی حریت اور باغیانہ پن نے ایک نسل کو متاثر کیا۔9 مارچ 1951ء میں آپ کو راولپنڈی سازش کیس میں معا ونت کے الزام میں حکومت وقت نے گرفتارکر لیا۔ آپ نے چار سال سرگودھا، ساہیوال، حیدر آباد اور کراچی کی جیل میں گزارے۔ آپ کو 2 اپریل 1955 کو رہا کردیا گیا۔ زنداں نامہ کی بیشتر نظمیں اسی عرصہ میں لکھی گئیں۔ فیض ؒ کی کتب نقش فریادی ۔دست صبا۔زنداں نامہ۔دست تہ سنگ۔سر وادی سینا۔شام شہر یاراں۔مرے دل مرے مسافر۔نسخہ ہائے وفا (کلیات) ہیں۔فیض احمد فیضؒ نے جس انداز میں اپنی زندگی کا سفر جاری رکھا اُس حوالے سے ایک بات ببانگ دہل کی جاسکتی ہے کہ نام نہاد اشرافیہ جو سٹیٹس کو کی علمبردار ہے اُس کے خلاف جہاد کیا اور مظلوم کی زبان بنے۔ اقبالؒ اور فیض احمد فیضؒ ایک ہی شہر کے سپوت تھے دونوں عظیم انسانوں کی شاعری نے ہر دور کے ہر یزید کے خلاف علم بغاوت سربلند کیا ہوا ہے۔پاکستانی معاشرئے میں مارشل لاء جس تواتر کے ساتھ رہے اُس نے معاشرئے میں گھٹن کی انتہا کیے رکھے۔ اِن حالات میں فیض صاحبؒ کی جدو جہد حسینیت کا درس دیتی ہے۔جس طرح پیر کی اولاد اُس سے فیض یاب نہیں ہوپاتی شاید ہم بھی اقبالؒ اور فیضؒ سے استفادہ نہیں کرپارہے۔
Sunday, 20 September 2015
سرزمینِ اٹک تو شاد رہے۔ کرنل شجاع شھید اور اب کیپٹن اسفند شھید صاحبزادہ اشرف عاصمی ایڈووکیٹ , ایسوسی ایٹ ممبر TxDLA آف امریکہ AN ARTICLE SALUTE TO PAK ARMY , CAPT ASFAND SHEED
سرزمینِ اٹک تو شاد رہے۔ کرنل شجاع شھید اور اب کیپٹن اسفند شھید
صاحبزادہ اشرف عاصمی ایڈووکیٹ , ایسوسی ایٹ ممبر TxDLA آف امریکہ
نوجوان اسفند شھید کی تڑپ وطن کے لیے لازوال تاریخ رقم کر گئی۔ اٹک جو کہ صوبہ پنجاب کا آخری ضلع ہے اور یہ خیبر پختون خواہ کے ساتھ ہے۔ اِس سر زمین نے یکے بعددیگرئے اپنے سپوتوں کو وطن کی آن کے لیے قربان کردیا۔ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے اور جو لوگ اللہ پاک کی راہ میں شھید ہوتے ہیں وہ امر ہوجاتے ہیں وہ مرتے نہیں ہیں وہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔انسانی عقل اِس زندگی کا شعور نہیں رکھتی۔رب پاک تو یہاں تک ارشاد فرماتا ہے کہ وہ رزق پہ کھاتے ہیں۔ اٹک نے چند ہفتے پہلے کرنل شجاع خانزادہ اور اب کیپٹن اسفند کی شہادت کی صورت میں پوری قوم پر احسان کیا ہے ۔ کرنل شجاع ستر سال کی عمر میں بھی بہادری کی وہ مثال کہ سبحان اللہ اور کیپٹن اسفند چھوٹی عمر سے ہی ولولہ انگیز شخصیت کے مالک۔ احباب نے یہ خبر بھی دی ہے کہ کیپٹن اسفند کا تعلق انجمن طلبہ اسلام سے بھی رہا اور وہ اِس کے کارکن تھے۔ گویا جناب اسفند یار نے غلامی رسولﷺ میں موت بھی قبول ہے کا انجمن طلبہ اسلام کا بیج سینے پہ سجایا ہوگا اور نعرہ مستانہ غلامی رسولﷺ میں موت بھی قبول ہے لگایا ہوگا۔شائد اُنہی ساعتوں میں عزیزم اسفندشھید کی دعا قبولیت کے سارئے مرحلے طے کر گی ہوگی اور اللہ پاک نے اُس کو جام شہادت کے عظیم مرتبے پر سرفراز فرمادیا۔ جس مرتبے پر فائز ہونے کے لیے نبی پاکﷺ کے صحابہ اکرامؓ شدید خواہش رکھتے تھے ۔ اور انہی صحابہ اکرامؓ کی سنت پر پیرا کیپٹن اسفند پوری قوم کے نوجوانوں بچوں کے لیے ایک مثال قائم کر گیا۔ کہ اگر ہم حق پر ہیں تو ہمیں اِس سے نہیں ڈرنا چاہیے کہ موت ہم پر آپڑئے یا ہم موت پر جا پڑیں۔جناب کرنل شجاع خانزادہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے چند ہفتے قبل برادرم ضیاالحق نقشبندی نے ایک کانفرنس کا انعقاد فرمایا تھا اور راقم کو بھی شرکت کا موقع ملا تھا۔اِس کانفرنس میں کرنل شجاع خانزاداہ کو زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا گیا تھا۔ اٹک کی سر زمین نے اپنے ایک اور سپوت کی قربانی دی ہے۔افغانستان میں بھارتی ایجنسی راہ نے پاکستان کے لیے نام نہاد دہشت گردوں کوتیار کرنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ اور بے گناہ اور نہتے شہریوں کو قتل کرکے پاکستان میں بے چینی پیدا کران ہی بھارت کا مطمع نظر ہے۔اِ ن حالات میں پاک فوج کی شجات کو سلام۔ گزشتہ ایک سال سے جاری جنگ عضب نے پاکستان میں دہشت گردی کی کمر توڑ دی ہے اورپاکستان پر دہشت گردی کے سائے چھٹنے لگے ہیں اِسی لیے تو مودی سرکار کے پیٹ میں درد ہورہی ہے اور مودی پاکستان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہا ہے اور اپنی ملک میں گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو بچانے کے لیے پاکستان سے جنگ کرکے اپنی جنتا کی توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔ یہ غازی یہ تیرئے پر اسرار بندئے جنہیں تونے بخشا ہے ذوقِ خدائی۔پاکستان کو جنگ میں جھونکنے والے بہت سے عناصر جن میں ہمارا دُشمن نمبر ایک بھارت سب سے آگے ہے اور دوسری طرف پیٹرو اسلام کی حامل جماعتیں جو کہ ڈالرز اور پونڈز کے طفیل پاکستانیوں کی زندگیوں کے چراغ گُل کر رہی ہیں۔پاک فوج نے جس طرح قربانیاں دی ہیں اور جنگ عضب کو واقعی بہت ہی کھٹن جنگ قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ جنگ اپنے ہی علاقے میں لڑی جارہی ہے۔بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ جوان سے لے کر جرنیل تک نے اِس جنگ میں جام شہادت نوش کیا ہے۔مسلم دنیا کے حوالے سے ایران اور سعودی عرب کا کردار قابل ستائش نہیں ہے۔ اپنی صدیوں سے جاری سرد جنگ کی وجہ سے یہ دونوں ممالک مسلمان ممالک میں ہونے والی تخریبی سرگرمیوں کو آشیرباد دیتے ہیں۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ فرقہ ورانہ جنگ کے بیج بو دئیے گئے ہیں اور سعودی عرب اور ایران اس حوالے سے اپنا کردا ادا کرہے ہیں۔خونِ مسلمان کی ارزانی کا اندازہ اِس سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی سامراج مسلمانوں کو تہہ وبالا کرنے پہ تُلا ہوا ہے لیکن مسلمان ممالک کبوتر کی طرح آنکھیں موندھے ہوئے ہیں۔جنگ والے ممالک میں خواتیں بوڑھے اور بچے جس جہنم میں زندگی گزار رہے ہیں اُسکا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ گاجر مولیوں کی طرح بچوں بوڑھوں عورتوں کو شھید کیا جارہا ہے۔ترکی، پاکستان، ایران اور سعودی عرب اگر یہ ممالک آپس میں مل بیٹھ جائیں تو شائد امریکی سامراج کو مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے سے منت سماجت کرکے روک سکیں۔ پاکستان میں جاری دہشت گردوں کے خلاف جنگ دراصل بھارت، امریکہ کے خلاف ہے اور پاکستان میں بلوچستان اور کے پی کے میں جتنا نقصان پاک فوج اُٹھا چکی ہے اُس کے مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ عام جوان سے لے کر جرنیل تک اِس دہشت گردی کی جنگ میں شھید ہوئے ہیں۔ اِسی طرح عوام بھی ہزاروں کی تعداد میں دہشت گردی کی نذر ہوچکے ہیں۔ مالی نقصان بھی کھربوں میں ہے۔ہمارئے ملک کے سیاستدان نہ جانے کہاں بستے ہیں وہ ایک دوسرئے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں اُنھیں اِس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ خدا نخواستہ ملک کے وجود کو شدید خطرات لاحق ہیں اور اِن خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے آپس میں اتحا و اتفاق ہونا ضروری ہے۔پاک فوج آپریشن عضب میں دُشمن سے برسرپیکار ہے۔ہمیں بطور قوم یہ بات طے کرلینی چاہیے کہ ہم نے پرائی جنگوں میں نہیں گھسنا اگر ہم اپنے ملک کے داخلی معاملات کو کنڑول میں کرلیں تو باہر کا کوئی بھی دشمن ہمارا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ میر جعفروں اور میرصادقوں کو بے نقاب کرنا ہوگا۔دین کے نام پرخارجی عناصر کو اپنے وطن میں کام سے روکنا ہوگا۔ ہر سوچ، زبان مذہب کے پیروکاروں کو حق زندگی دینا ہوگا۔جن عوامل نے دہشت گردی کو ہوا دی اُن میں پیٹرو اسلام کی حامل نام نہاد دینی جماعتیں بھی شامل ہیں جو اپنے نظریات کو باقی سب پر ٹھونسنا چاہتی ہیں اِس حوالے سے ہمارئے برادر ممالک ایران اور سعودی عرب کی حکومتوں کو بھی یہ گزارش ہے کہ آپ اپنی سرد جنگ میں دوسرے ممالک کے انسانوں کو ایندھن کیوں بنا رہے ہیں۔جماعت اسلامی کے سابق امیر جناب سید منور حسن نے تو مینار پاکستان پہ کھڑئے ہو کر کہہ دیا تھا کہ قتال کیا جائے۔ اور یہ بھی پاک فوج کے شہادت پانے والے فوجی شھید نہیں ہے۔ اِس طرح کی ذہنی حالت نام نہادنام نہاد رہنماؤں کی ہے۔ ان لوگوں نے پاکستان سے رواداری برداشت بھائی چارہ چھین لیا ہے۔ درحقیقت یہ وہ لوگ ہیں جن کا کام صرف رقم کمانا ہے اُس کے لیے دین دنیا سب کچھ فروخت کر دیتے ہیں ۔حتیٰ کہ اپنے ملک کی خاطر شھید ہونے والے فوجیوں کو شہادت کا رُتبہ دینے کے لے تیار نہیں اور دہشت گرد جو مسجدوں مدرسوں بازاروں میں خود کش حملے کر رہے ہیں اُن کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں ۔ ایسے عناصر کو ایسے مائنڈ سیٹ کو ختم کرنا ہو گا۔یہ جنگ جو ایک سال سے زائد عرصہ سے جاری ہے۔ اِس میں موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور وزیراعظم دونوں کی ورکنگ ریلشنشپ بہت بہتر ثابت ہوئی ہے۔ جس طرح مودی سرکار لائن آف کنٹرول پر پاکستانیوں کو شھید کرتی رہی ہے اور حالیہ دنوں میں پاکستان توڑنے اور بنگلہ دیش بنانے کا اعتراف بھی کیا گیا ہے ۔پاک چین معاشی تعلقات کی نئی جہت نے تو بھارت کا جینا حرام کر رکھا ہے اور مودی نے تویہاں تک کہ دیا کہ ہم پاکستانیوں کا حال برما کے مسلمانوں جیسا کریں گے۔وہ لوگ جو نظریہ پاکستان کو ابھی تک نہیں مانتے جو قائداعظمؒ کو ہندوستان کو تقسیم کرنے کا گناہ گار قرار دیتے ہیں ۔وہ جاگتی آنکھوں سے دیکھ لیں اور سن بھی لیں کہ بھارت کا وزیراعظم دوسرئے ملک میں کھڑئے ہو کر واشگاف اعلان کر رہا ہے کہ ہم نے پاکستان کو توڑا۔ اِس جنگ میں جتنا خون بہا اُس کا ذمہ دار مکمل طور پر ہندوستان ہے۔قوم پاک فوج کو سلام عقیدت پیش کر تی ہے سب دیکھ لیں کہ کا نگریسی ملاؤں اور پیٹرو اسلام کے حامل نام نہاد مذہبی رہنماؤں اور امریکی آشیرباد کے حامل نام نہاد لبرل فاشسٹ بھی دیکھ لیں کہ دو قومی نظریہ کسے کہتے ہیں۔ مودی نے اب پوری دنیا کو بتا بھی دیا ہے اور سمجھا بھی دیا۔پاک فوج کی لازوال قربانیوں نے پاکستان کو نیا جنم دیا ہے اور رب پاک کے نام پر بننے والے اِس ملک میں انشااللہ امن قائم ہوگا۔ پاک فوج زندہ آباد پاکستان پائندہ آباد ۔اِس قوم کے پس کرنل شجاع خانزادہ اور کیپٹن اسفند شھیدوں کا ایک ایسا غول ہے کہ وہ نریندر مودی کی آنکھوں کو پھوڑ دئے گا اگر اُس نے میلی آنکھ سے پاکستان کو دیکھنا بند نہ کیا۔ پاکستانی قوم گواہ رہنا کہ ہماری پاک فوج نے جرنیل راحیل راحیل شریف کی قیادت میں مادر وطن کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔Sunday, 26 July 2015
................وزیر اعلیٰ پنجاب ۔ پرائیوٹ کالجز ۔سال اول میں داخلے کے مسائل......... محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ , an article by ashraf asmi adv
وزیر اعلیٰ پنجاب ۔ پرائیوٹ کالجز ۔سال اول میں داخلے کے مسائل
میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
حکمران عوام کے لیے ماں باپ کی طرح ہوتے ہیں جناب وزیراعظم نوز شریف نے بھی یہ بات تیسری مرتبہ اقتدار سنبھالتے ہوئے کہی تھی۔ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور گذشتہ کئی سالوں سے دہشت گردی کے آسیب نے وطن پاک میں غیر یقینی صورتحال نے جنم لیا یوں حکومت کی
ز یادہ توجہ دہشت گردی کے معالے سے نبٹنے میں مرکوز رہی۔اِن حالات میں ریاستی ادارئے جن کو حکومت نے چلانا ہوتاہے وہ کمزور ہوئے۔ عوام کے اندر بے چینی نے جنم لیا اور اِس بے چینی کے اندر مزید اضافہ معلومات کی آگاہی نے کیا اور عوام سوشل میڈیا ،موبائل کے استعمال کی بدولت ترقی یافتہ ممالک کے رہن سہن کو اپنا حق سمجھنے میں مکمل طور پر حق بجانب دیکھائی دیتی ہے لیکن ہمارئے حکمران تو عوام کو رعایا سے بھی کم درجہ دیتے ہیں جس کا اندازہ آپ سرکاری اداروں کی کارکردگی سے لگا سکتے ہیں۔کوئی کام بھی رشوت کے بغیر نہیں ہوتا۔سرکاری ادارئے اتنا ذلیل و خوار عوام کو کرتے ہیں کہ خدا کا قہر بھی اُن کے اوپر ابھی تک نہیں پڑا اُن کے ظلم کی رسی دراز ہے۔شھباز شریف ایک ایسے وزیر اعلیٰ ہیں جو کہ بہت فعال ہیں لیکن اُن کے علاوہ اُن کی ٹیم ایسی نہیں بن سکی جو کہ شھباز شریف کی سوچ ہر عمل کرواتی۔اب حالت یہ ہے کہ ہر شعبہ میں لوٹ مار۔حالیہ دور میں دہشت گردی میں کنٹرول دیکھنے میں آیا جس کے لیے حکومت کے ہی ادارئے پاک فوج نے قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کیں۔پنجاب بہت بڑا صوبہ ہے اور سال اول کے داخلوں کے لیے سیٹیں بہت کم ہیں ۔ کالجز کی تعداد بھی بہت کم ہونے کی وجہ سے دو شفٹوں کا نظام جاری ہے اِس حوالے سے جناب وزیراعلیٰ اگر فوری طور پر تیسری شفٹ کا اجراء کروادیں تو غریب پسی ہوئی عوام سرکاری کالجوں میں اپنے بچوں کو سال اول میں داخل کرو اسکے گے اور پرائیوٹ کالجوں کی لوٹ مار سے بچ سکے گئی۔ دوسری سب سے اہم بات یہ ہے کہ پرائیوٹ کالجوں کی کیٹگری بنا کر زیادہ سے زیادہ فیس کی حد مقرر کی جائے اور کیٹگری بناتے وقت ادارئے کی جانب سے بہم پہنچائی جانے والی سہولیات کو معیار بنایا جائے۔جس بُری طرح تعلیم کو بھی سرمایہ داروں نے کاروبار کی شکل دئے کر غریب عوام کے لیے حسرت اور یاسیت پیدا کر دی ہے اور تعلیم کو بھی فری مارکیٹ اکانومی میں بطور پراڈکٹ لیا جارہا ہے یہ ہے وہ سرمایہ دارنہ نظام کا شاخسانہ جہاں انسان کی نہیں مادیت کی قدر ہے جہاں روحانیت کا کوئی لین دین نہیں ہے۔پاکستان جیسے مشکلات میں گھرئے ہو ئے ملک میں تعلیم کا جو حشر ہورہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔پنجاب بھر کے سرکاری کالجوں میں انٹرمیڈیٹ فرسٹ ائیر کے داخلوں کے لیے تین شفٹوں کا اجراء کیا جائے۔ کیونکہ پرائیوٹ کالجز کی بہت زیادہ فیسیں عوام کی پہنچ سے باہر ہیں۔ کہ پرائیوٹ کالجز کی فیسوں کے حوالے سے کیٹگری بنائی جائے۔ تاکہ تعلیم کے نام پر لوٹ مار سے عوام کو بچایا جا سکے۔ پرائیوٹ کالجز کی جانب سے تعلیم کو انتہائی مہنگا کرنا اور حکومت کی جانب سے تعلیمی سہولیات بہم نہ پہنچانا آئینِ پاکستان کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اِس انتہائی اہم معاملے پر سو موٹو لے کر حکومت کو پابند کریں کہ نئی فرسٹ ائیر کلاسسز میں عام لوگوں کے بچے بھی داخلہ لے سکیں۔تعلیم کو بھی سرمایہ داروں کے حوالے کرکے کاروبار بنانا اِس غریب قوم کے ساتھ ظلم ہے۔پرائیوٹ کالجوں کے نظام کو طلب و رسد کے نظام کی بجائے ریگولیٹ کیے جائے اور جس طرح فوڈ اتھارتی کی سربراہ خاتون عائشہ بی بی بلاامتیاز ہوٹلوں بیکریوں میں صفائی کے لیے جرمانے عائد کررہی ہیں ایسی ہی کوئی خاتون بیور کریٹ اس مقصد کے
لیے وزیر اعلیٰ صاحب نامزد کریں۔ قوم پر بہت بڑا احسان ہوگا۔
Wednesday, 22 July 2015
chairman Muttahida Qaumi Movement (MQM) Altaf Hussain has announced to dissolve the party ,,,, reported ashraf asmi advocate through foreign meida
chairman Muttahida Qaumi Movement (MQM) Altaf Hussain has announced to dissolve the party
Unsettled and upset over consecutive shocks, leader of Muttahida Qaumi Movement (MQM) Altaf Hussain has announced to dissolve the party at once. So far reports are that the party stands dissolved at his command.
While conducting an address to the Coordination Committee of the party, Altaf Hussain expressed his deep regret and sorrow over the prevalent situation. He also deplored the extrajudicial killings of the workers of MQM.
Right after announcing his decision to abolish the party, Altaf Hussain stopped mid speech and hanged up the phone call leaving workers shocked.
Monday, 20 July 2015
Wednesday, 15 July 2015
Thursday, 9 July 2015
Wednesday, 8 July 2015
HUMAN RIGHTS FRONT INTERNATIONAL: (خصوصی رپورٹ) صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووک...
HUMAN RIGHTS FRONT INTERNATIONAL: (خصوصی رپورٹ) صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووک...: ایک دن صوبے کی سب سے بڑی عدالت میں (خصوصی رپورٹ) صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ چےئرمین ہیومن رائٹس فرنٹ انٹر...
(خصوصی رپورٹ) صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ چےئرمین ہیومن رائٹس فرنٹ انٹرنیشنل میری اِس تحریر کا مقصد صرف اور صرف عوام کی آگاہی ہے۔اِس ساری تحریر کا مقصد عدالتِ حضور کی کسی طور بھی بھی کوئی عزت میں کمی نہیں ہے۔ میری تحریر کا مقصد صرف نظام کی خرابیوں کو نمایا ں کرنا ہےA SPECIAL REPORT WHICH IS PREPARED BY ASHRAF ASMI ADVOCATE , HUMAN RIGHTS ACTIVIST, WHY THE CRIME RATEHIGH IN PAKISTAN,
ایک دن صوبے کی سب سے بڑی عدالت میں
(خصوصی رپورٹ)
صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
چےئرمین ہیومن رائٹس فرنٹ انٹرنیشنل
میری اِس تحریر کا مقصد صرف اور صرف عوام کی آگاہی ہے۔اِس ساری تحریر کا مقصد عدالتِ حضور کی کسی طور بھی بھی کوئی عزت میں کمی نہیں ہے۔ میری تحریر کا مقصد صرف نظام کی خرابیوں کو نمایا ں کرنا ہے۔ آئیے عدالت کا وقت ہو چکا ہے۔عدالت کی کاروائی کا آغاز قران مجید کی تلاوت سے کیا گیا ہے ایک عدالتی اہلکار نے قران مجید کی تلاوت کی۔ سب سے سے پہلے رٹ لگی ہوئی ہیں عدالتی اہلکار نے آواز لگائی تو رٹ میں پیش ہونے والا سائل شکل و صورت سے انتہائی غریب دیکھائی دیتا ہے اِس کے پاؤں میں جوتی ٹوٹی ہوئی ہے۔انتہائی میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس یہ شخص برسوں کا بیمار دیکھائی دیتا ہے۔ سائل کے وکیل نے عرض کی کہ جناب اِس کی بیوی کو فلاں شخص نے اغوا کر لیا ہے اور پولیس بھی اُس نے اپنے ساتھ ملائی ہوئی ہے۔ جناب والا اِس شخص کی بیوی کو برآمد کروایا جائے۔جج صاحب نے آرڈر کیا کہ متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو کہ وہ اِس کی بیوی کو برآمد کرواکر عدالت میں پیش کرئے اور ایک ہفتے کی تاریخ مقرر فرما دی۔سائل ایک ہفتے کے انتظار میں سولی پر لٹکنے کے لیے تیار تھا۔اِسی طرح ایک اور کیس کے لیے آواز دی تو سائلہ نے رٹ دائر کی تھی کہ جناب میرئے شوہر نے بچے چھین لیے ہیں مجھے وہ بچے بازیاب کرواکر دئیے جائیں اِس رٹ میں بھی جج صاحب نے متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو آرڈر کیا کہ بچے بازیاب کرکے عدالت میں پیش کیے جائیں۔سائلہ جس نے یہ رٹ دائر کی تھی وہ کسی کے گھر کام کرتی تھی اور غربت اُس کے چہرئے پر منحوس سائے کی طرح موجود تھی عدالت نے دو ہفتے کی تاریخ مقرر فرمادی۔بعد ازاں ایک اور کیس میں جو سائل پیش ہوا وہ کوئی مزدور تھا جس نے کہا کہ اُس کے مالک نے اُس کو اغوا کروادیا تھا اور چھ ماہ کی تنخواہ بھی نہیں دی۔ عدالتِ حضور نے متعلقہ ایس ایچ او کو حکم دیا کہ وہ تفتیش کرئے اور مقدمہ درج کرکے تفتیش سے آگاہ کرئے اِس کیس کی بھی تین ہفتے کی تاریخ پڑ گئی اِس کیس میں سائل دیکھنے میں عام سا دیہاتی دیکھائی دیتا تھا اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اُس نے کئی روز سے کچھ کھایا پیا بھی نہیں اور کپڑئے اُس کے ایسے تھے جیسے کسی مزار کی چادر سے بنائے گئے ہوں۔اِسی طرح قتل کے کیس میں ضمانت کے لیے درخواست لگی تو ایک انتہائی بزرگ سفید داڑھی کے ساتھ غربت و عُسر ت کی تصویر بنے عدالت میں موجود تھا۔ اِس کا بیٹا جو کہ مزدوری کرتا تھا وہ کسی قتل کے کیس میں جیل میں تھا۔ عدالت نے متعلقہ ایس ایچ او کو ریکارڈ سمیت طلب کرلیا اور تیں ہفتے بعد کی تاریخ مقرر فرمادی۔متذکرہ بالا عدالتی کاروائی کا حال اِس بات کی غمازی کرتا ہے کہ (1) مقدمہ بازی میں سب سے زیادہ لوگ جو پڑئے ہوئے ہیں وہ انتہائی غریب ہیں (2) دوسری بہت بڑی وجہ جو دیکھنے میں آتی ہے وہ ہے تعلیمی پسماندگی ) (3 دین پر ایمان صرف زبانی کلامی ، عمل نام کی کوئی شے نہیں (4) نتیجاتاً معاشرئے کا سماجی معاشی عمرانی نفسیاتی رویہ انتہائی ہوس زدہ۔مجھے کریمنل کورٹ میں امیر تو دور کی بات وسط درجے کے سائل بھی نظر نہیں آئے۔ معاشرئے میں تعلیم کی کمی بہت بڑا ظلم ہے اِس لیے ملک کے دانشور طبقے کو چاہیے کہ وپ حکمرانوں کو باور کروائیں کہ تعلیم عام کرنے سے معاشرہ بہت بہتر ہوسکتا ہے ورنہ آبادی کے پھیلاؤ سے غربت میں بہت تیزی سے مزید اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور امن امان کی صورتحال کا بہتر نہ ہونا۔ چوری ڈاکے لوٹ مار، اِن سب کے پیچھے ایک محرک بہت اہم جو ہے وہ توتعلیم کا نہ ہونا ہے۔اور محرکات بھی ہوسکتے ہیں اور ہیں لیکن تعلیم بہت ضروری ہے۔
Monday, 6 July 2015
غلامیِ رسول میں موت بھی قبول ہے جو ہو نہ عشقِ مصطفےﷺ تو زندگی فضول ہے اشرف عاصمی ایڈووکیٹ کی لاہور ہائی کورٹ کے جی پی او چوک پر خطاب کی وڈیو نبی پاکﷺ کی شان کے تحفظ کی خاطر ہر وقت جان دینے کے لیے تیار اور انٹرنیشنل ایجینسیوں کو انتباہ لنک پر کلک کریhttps://www.facebook.com/video.php?v=971652959551977&pnref=storyں
htthttps://www.facebook.com/video.php?v=971652959551977&pnref=storyhttps://www.facebook.com/video.php?v=971652959551977&pnref=story
htt
Sunday, 5 July 2015
Friday, 3 July 2015
HUMAN RIGHTS FRONT INTERNATIONAL: مودی کا اعتراف گناہ اور نظریہ پاکستان وزیراعظم ہند...
HUMAN RIGHTS FRONT INTERNATIONAL: مودی کا اعتراف گناہ اور نظریہ پاکستان وزیراعظم ہند...: مودی کا اعتراف گناہ اور نظریہ پاکستان AN ARTICLE BY ASHRAF ASMI ADVOCATE وزیراعظم ہندوستان کا شیطانی ذہن مسلم دنیا کے حوالے سے ...
مودی کا اعتراف گناہ اور نظریہ پاکستان وزیراعظم ہندوستان کا شیطانی ذہن مسلم دنیا کے حوالے سے بالعموم اور پاکستان کے حوالے بالخصوص جس طرح کی دُشمنی رکھتا ہے اُس کا اندازہ حسینہ واجد کے ساتھ بیٹھ کر پاکستان توڑنے کا اقرار ہے. AN ARTICLE BY ASHRAF ASMI ADVOCATE
مودی کا اعتراف گناہ اور نظریہ پاکستان
AN ARTICLE BY ASHRAF ASMI ADVOCATE
وزیراعظم ہندوستان کا شیطانی ذہن مسلم دنیا کے حوالے سے بالعموم اور
پاکستان کے حوالے بالخصوص جس طرح کی دُشمنی رکھتا ہے اُس کا اندازہ حسینہ
واجد کے ساتھ بیٹھ کر پاکستان توڑنے کا اقرار ہے۔ جو لوگ پاکستان میں رہ کر
بھانت بھانت کی بولیاں بولتے ہیں اور پاکستان کے وجود پر انگلیاں اُٹھاتے
ہیں۔اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ قصور پر پاکستان کی تخلیق کا نہیں قصور اِن
حکمرانوں کا ہے جو اِس ملک کو گدھ کی طرح کھار ہے ہیں۔نظریہ پاکستان کی
مخالفت کرنے والوں کے منہ پر مودی کا پاکستان توڑنے کا اعتراف ایک زناٹے
دار تھپڑ ہے۔ میری ذیل کی تحریر نظریہ پاکستان کی حقانیت کے حوالے سے ہے
اسلا میہ جمہوریہ پاکستان ، ایک مخصوص نظرئے کی بنیاد پر معرض وجوڈ
میں آیا تھا اور وہ نظرۂ تھا ، نظرۂ پاکستان ۔۔ برِ صغیر میں دو قومی
نظرئے کی کوکھ سے اْبھرنے والا نظریہ دراصل اپنے تمام معانی، مصادر
منابع کے نقطہ نظر سے نظرۂ قرآن اور نظرۂ اسلام ہے۔ کیونکہ
تحریک پاکستان کے مراحل کے دوران اسلامیان ہند نے جو نظریاتی نعرہ بلند
کیا تھا وہ تھا پاکستان کا مطلب کیا لاالہٰ ا لاللہ۔پاکستان عالیشان
کا وجود باسعود ، ایک مرد قلندر ، مرد حریت اور مرد ایمان اور مرد
امتحان ، حضرت قائداعظم ؒ ، کی محنت شاقہ کی بدولت ہوا ۔ حضرت علامہ
اقبال ؒ کی روحانی اور ایمانی الہامی شعری کا وشوں نے اپنا رنگ دکھیا
اور انہوں نے برصغیر کی غلامی میں پھنسی ہوئی مسلمان قوم کو احساس
تفاخر ور خودی کی بیداری کا پیگام دے کر انہیں آزقدی کے اوج ثریا تک
پہنچانے کیلئے اپنا خون جگر عطا کیا ۔علم و عقل میں اگر تضاد اور تصادم
رہے گا تو ظاہر ہے کہ اس بنی ہوع انسان میں انتشار اور تخریب کا باعث
بنے گا ، اور بالآخر قومی زوال کا پیش خیمہ ۔ خدائے بزرگ و برتر نے اْن
افراد کو یہ اعزاز عطا فرمادیا ۔ جنھیں دائرہ اسلام نے اسلام میں
داخل ہونے کا شرف نصیب ہوا، وہ افراد دنیائے انسانیت کے خوش قسمت ترین
انسان ہیں جنہیں حضور اکرم ﷺ کے یک امتی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ دین
اسلام نے مسلمانوں کے قلوب و ارواح میں جس فلسفہ توحید کو موجزن اور
مرتسم کیا ہے، اْس سے ان میں فکری وحدت ، تہذیبی ہم آہنگی ، دینی حریت
ور نسانی سطح پر احساس تفاخر کی تخلیق ہوئی ۔ جب قلوب و اذہان میں تصور
توحید جلوہ گر نہ ہو انسان کی شخصیت میں وحدت پیدا نہیں ہو سکتی، ظاہر
ہے کہ مسلمان ایک باری تعالیٰ جو وحدہ لاشریک ہے اس پر پختہ ایمان و
ایقان رکھے گا ، تو جب ہی اپنے ندر بھی وحدت پیدا کرے گا ۔ اس تمام فلسفہ
حیات کا منبع ، ماخذ، روح، اساس ، سرچشمہ اور بنیاد قرآن الحکیم ہے۔ اس
نظرئے کو قرآن کی تعلیمات اور حکام کے پیش نظر مجدد الف ثانی ؒ ،
حضرت داتا گنج بخش ؒ اور دوسرے اولیائے کرام اور مجتہدین قابل صد
احترام نے اسی نظرئے کو اپنے خون جگر سے سینچا اور روحانی کمالات سے اس
عظیم عمارت کی بنیاد وں کو استحکام سے ہمکنار بھی فرمایا۔ انہی بابرکت
اور روحانی شخصیات کی تعلیمات مقدسہ نے حضرت علامہ اقبال ؒ اور حضرت
قائد اعظم ؒ کے افکار ملہ اور قومی نظریات ، دینی، اسلامی ، قومی
امنگوں کا رنگ بھر دیا تھا۔ حضرت علامہ اقبال ؒ نے اسلامیان ہند کو
پیغام خودی دیا ۔ انہیں انتشار ونکبت سے جگایا او ایک قوم کی شکل میں
متشکل کر دیا ۔ حضر ت قا ئد اعظم ؒ نے اسلامیان ہند کو اپنی تقاریر
، خطابات ، اور علمی اور قانونی نظریات وارشادات کی روشنی میں
انگریزوں اور ہندؤں کی استعمار پسند انہ اور تشدد آمیز رویوں سے آگاہ
کرتے رہے اور انہیں اپنی اسلامی اقدار و رو ایا ت اور تاریخ کی
روشنی میں تیار رہنے کی ہدایت کرتے رہے۔ حضرت قائداعظم ؒ نے
اسلامیان ہند کے قلوب واذہان میں آزادی کی جو لو لگائی وہ الاؤ بن
کر سامنے آئی اور پاکستان دنیائے انسانیت کے نقشے پر بڑی شان وشوکت کے
ساتھ ظہور پزیر ہوا۔ قرآن حکیم نے استفسار فرمایا: خدا تعالیٰ نے تم
سب کو تخلیق فرمایا ‘ پھر تم میں سے ایک گروہ نے بلند و بالا اور
عالمگیر انسانیت سے انکا کردیا ‘ اور دوسرے گروہ نے اسے تسلیم کر لیا۔
((64/2 یہی وہ انسانیت کی تفریق اور امتیاز کا میعار ہے جو قرآن حکیم
انسانوں کے لیے پیش کرتا ہے۔ اسی کے مطابق دواقوام واضح ہوتی ہیں
ایک دوسری غیر مسلم ۔ ایک مومن اور دوسری کافر یہی وہ فلسفہ فکر نظر تھا
کہ حضرت نوح ؑ اپنے سے الگ ہو گئے اور حضرت ابراہیم ؑ اپنے باپ سے
علیحدہ ہو گئے۔ کیونکہ دونوں کی حقیقی کیفیت میں نظرۂ حیات مبنی
بروحی سے ہم رمگ اور ہم آہنگ نہ تھا قرآن کے حوالے سے حضرت ابر اہیم ؑ
کو کہنا پڑا۔ (یعنی تم میں اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کے لیے کھلی
عداو ت اور نفرت رہے گی۔)چنانچہ تاریخ اسلام گواہ ہے کہ اسلامی ریاست
وحکومت میں شامل نہ گیا۔ حضور پاک ﷺ کی مجلس شوریٰ میں کبھی کوئی
غیر مسلم نہ تھا۔ خلفائے راشدین رضی اللہ علیم اجمعین کی مجلس شوریٰ
اور پارلیمان میں کوئی غیر مسلم کا داخل نہ تھا ۔ بلکہ کافر یا غیر
مسلم ، ملت اسلامیہ کا ف رد ہی نہیں تھا لہٰذا اسلام اور قرآن کے نزول
کے ساتھ ہی بنی انسان دو مختلف نظریات اور حتمی طبقات میں تقسیم ہو گئے۔
ایک نظریہ ایمان نہ لانے والوں کا ۔ چنانچہ اولاد آدم دو کیمپوں میں
تقسیم ہو گئی شرار بو لہبی ایک جانب اور چراغ مصطفیٰ ﷺ دوسری جانب ،
اس نظریے نے خون اور حسب و نسب کی نفی نھی کردی ۔ برادری ، قبیلے اور
ذات پات کو ملیا میٹ کر کے رکھ دیا ۔ اس کی بہترین مثال جنگ بدر
اور جنگ اْحد ہے جس میں نبی الزماں حضور اکرم ﷺ دوسرے صحابہ کرام کے
قریبی رشتہ دار دشمن کے صف میں براجماں تھے، چنانچہ قرآن نے کافروں
اور منافقین کے ضمن میں ملت اسلامیہ کو بڑی سختی سے متبنہ کیا ہے۔
اسلامی نقطہ نظر سے نظرۂ پاکستان کا آغاز ، تشکیل ، اور تراویح برصغیر
میں اس وقت ہوئی جب مسلمانوں کو انتشار و افتراق اور زوال و انھطاط کا
سامنا کرنا پڑا اور ہندوں کی اصل فطرت کے شاہکار وں کا سامنا کرنا
پڑا ۔ ان کے مظالم کا گھناونی سازشوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ بالخصوص
1857ء کی جنگ آزادی کے بعد کی بڑی دلدوزداستان ہے، جسے غربی اور
شرقی مفکرین و مصنفین نے خوب بیان کیا ہے یہ اپنے طور پر ایک طویل داستان
ہے۔ مولانا ابولکلام آزاد کی کتاب india wins freedom ولیم ہنٹر
کی کتاب 5 indian mussalmans عبدالوحید خان کی کتاب تقسیم ’’ہند‘‘
اور ان کی دوسری کتاب ’’ مسلمانوں کا ایثار اور آزادی کی جنگ‘‘ کالنز
اور لاپیئر کی کتاب 'freedom at midnight' اور پروفیسر منور مرزا
کی کتاب Dimension of Movement اور دیوار’’ برہمن‘‘ کا مطالعہ کرلیں۔
ان شنکرو ں ، دیالوں ، بگوپالوں ، مہاجروں، ساہنیوں ، دھوتی پرشادوں ،
چٹیا گھنٹانوں ، ایڈانیوں ، ملکانیوں، مشراوں، بال ٹھاکروں، من موہنوں
اور بڑے بڑے مہاپرشوں نے اسلام ، پاکستان ، نظریہ پاکستان دو قومی نظریہ
اور مسلمان دشمنی میں کسر اٹھا رکھی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری وساری ہے۔
ہمارے سابق مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے غدار سیاستدانوں نے
ہماری تاریخ اسلام کو منسخ کر کے دیا۔ جو ایمانی اور ایقانی روح
سے محروم تھے۔ جو قرآنی جرات و استقامت سے سرمایہ دارا نہ تھے۔
ہمارے جسم کا اسیک بازو کٹ گیا چنانچہ اندر گاندھی نے زور خطابت کے نشے
میں یہ کہا ’’ آج ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے، ہم
نے ایک ہزار سال کا بدلہ لے لیا ہے۔ لیکن ہم نے اندرا گاندھی اور ان
کے مخلص چیلوں چانٹوں اور حواریوں اور ان کے حاشیہ برداروں کو اسی وقت
باور کرارہے ہیں اور کراتے رہیں گے کہ جب تک ایک مسلمان بچہ بھی برصغیر
پاک و ہند میں زندہ ہے اسلام اور کفر کی جنگ جاری رہے گی، اسلام کا
جھنڈا موجود رہے گا ، اس جذبہ محرکہ کو جس تصور ، خیال ، اصول ، جابطے
یا نقطہ نظر نے تخلیق کیا اسے نظرۂ پاکستان کا نام دیا گیا ۔ جسے
انگریزی میں Iddeology of pakistan کہتے ہیں ۔ چنانچہ حضرت قائداعظم
1944ء میں مسلم یونیورسٹی (علی گڑھ) میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا
’’ آپ نے غور فرمایا کہ پاکستان مطالبہ کا جذبہ محرکہ کیا تھا؟
مسلمانوں کے لیے ایک جداگانہ مملکت کی وجہ جواز کیا تھی۔ تقسیم ہند کی
ضرورت کیوں پیش آئی ۔ اس کی وجہ نہ ہندوں کی تنگ نظری ہے۔ نہ انگریزوں
کی چال ، یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ ہے۔ اور یہی دراصل مطالبہ نظرۂ
پاکستان کی ترجمانی کرتا ہے۔ مسللہ یہ ہے کہ تکلیف صرف اسلام سے ہے
کیونکہ کسی غیر مسلم کے اسلام قبول کر لینے کے بعد جس طرح اس کے زمین و
آسمان بدل جاتیہیں وہ عجیب کیفیت ہے، اس کے خیالات و تصور ات اس کے
جذبات و احساسات اور انسانیت کے جملہ تمام اطوار یکدم وحدہ لاشریک کی
ذات اقدس سے جڑ جاتے ہیں اور پھر۴ اس کا رخ ممبئ کلکتہ اجودھیا دہلی
اور بجنور سے مکہ اور مدینہ کی طرف ہو جاتا ہے اس روحانی اور دینی
تبدیلی کی مسٹر گاندھی کو بھی سمجھ نہیں آئی تھی۔ ان سے پہلے ہو گزرے
مہاپرشوں کو بھی سمجھ نہیں آئی تھی، ان مہا گرووں کو بھی سمجھ نہیں
آئی تھی ، اور نہ ہی آسکتی تھی اور اب یہ کیفیت کا فرما ہے مسٹر گاندھی
عجیب مکاریت و فریب کاری کے انداز گفتگو میں کہا کرتے تھے کہ مجھے
سمجھ نہیں آتی کہ ایک سیدھا سادھا سا ہندو جب مسلمان ہو جاتا ہے تو
دنگی، فسادی اور لڑاکا ہو جاتا ہے۔ دنگئی تو وہ ہو جائے گا جب اسے اپنے
نظریے کی پاسبانی کرنا پڑے گی ۔ دنگئی تو وہ ہو جائے گا ، جب ناموس رسالت
ﷺ پر خدانخواستہ حرف آئے گا ۔ دنگئی تو لازمی ہو گا کہ جب وہ وحدہ
لاشریک کی شان میں کوئی غیر قوم کا فرد گستاخی کا مرتکب ہوگا۔ قرآن پاک
پر رکیک حملوں کا جواب تو پھر وہ پنی جان پر کھیل کر دے گا اور شہادت
کے مقام اولیٰ کو مسکراتے ہوئے حاصل کرنا قاپنا دینی اور اسلامی
فریضہ سمجھے گا۔ یہی وہ جذبہ اسلام ہے ، یہی وہ قرآنی برکت ہے یہی وہ
دو قومی نظریے کی بنیا د ہے۔ یہی دوقومی نظریہ اپنی روقحانی معنویت اور
اسلامی قومی نظریات و تصور کی شکل میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے
نظرۂ پاکستان کی شکل میں نمودار ہوا۔ پاکستان کی تخلیق میں لاکھوں
اسلامیان ہند نے شہادتوں کا خون عطا کیا لاکھوں مسلمان عورتوں اور بچون
نے قربانیاں دیں ، پاکستان کو انگریزوں اور ہندوں نے آسانی سے قبول
نہیں کیا تھا۔ پاکستان انگریز نے طشتری میں رکھ کر پیش نہیں کیا تھا ۔
تقسیم ہند نہ انگریزی بادشاہت کو پسند نہ تھی ، نہ برطانوی پارلیمنٹ ، نہ
برطانوی حکومت ہند، نہ وائسرائے صاحبان ، نہ انڈین نیشنل کانگریس ، نہ
مسٹر گاندھی ، نہرو پٹیل اور راجگو پال اچاریہ وغیرہ، لارڈ مونٹ بیٹن
جو آخری وائسرائے ہند تھا۔ اسے تقسیم ہند سے ویسے ہی چڑ تھی۔ جمیعت
العلمائے ہند کی اکثریت مخالف چند اور اسلام پسند گروہ بھی
قائداعظم ؒ پر رکیک حملوں سے باز نہ آرہے تھے۔ اکثر مسلمان اکابرین
جو کانگریس کے متاثرین میں سے تھے یہ تقسیم پسند نہیں فرما رہے تھے جن
میں مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی خاص طور پر شامل
تھے۔ یہ حضرت قائد اعظم ؒ کی سیاسی صداقت اور ولولہ انگیز قیادت اور
مومنانہ شان و شوکت کا اعجاز تھا کہ بڑے بڑے برج گرتے چلے گئے بڑے بڑے
طوفان اپنی اپنی راہ لیتے رہے بڑے بڑے پہاڑ چکنا چور ہو جاتے رہے۔
اور وہ سرحدیں قیام پزیر ہوئیں جنھوں نے معرکہ بدرو حنین کی یاد دتازہ
کردی ۔ یہ سرحدیں کچے دھاگے کی سرحدیں نہیں یہ اینٹوں گارے ، سیمنٹ
اور ماربل کی بنائی ہوئی دیوار نہیں ’’ لاالہٰ الاللہ محمد الرسول
اللہ‘‘ کے اسلامی اور قرآنی نظریے اور ایمان پر قائم کردہ دیواریں ہیں
۔ جو قیامت تک قائم رہیں گی، حضرت قائداعظم ؒ نے اسی لیے قیام
پاکستان کے بعد 30 اکتوبر 1947ء کو فرمایا تھا ہم نے پاکستان حاصل
کر لیا کسی خونی جنگ کے بغیر امن کے ساتھ اخلاقی اور ذہنی قوت کے بل
بوتے ، پر یوں ہم نے ثابت کر دکھایا کہ ہم سچے اور ہمارہ مقصد بھی
سچا تھا ، پاکستان اب ایک قطعی اور اٹل حقیقت ہے اسے کبھی ختم نہیں کیا
جا سکتا ۔ یہاں سبق مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذکر بے جانہ ہوگا، جب
اندرا گاندھی (وزیر اعظم بھارت) نے یہ بیان بڑے فخر وتکبر اور فتح
کے نشے میں دیا کہ آج ہم نے قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا اور ٓج ہم
نے ہزار سال کا بدلہ لے لیا۔ اب توجہ توجہ طلب مسئلہ یہ ہے کہ کدس نے
کس سے یہ بدلہ لیا اور خلیج میں ڈبو دیا ، سگر ہم یہ کہیں کہ اندرا
گاندھ نے کتنی غیر منظقانہ معصومیت مین بیان داغا تھا اس قابل رحم
خاتون کو معلوم ہی نہیں کہ دو قومی نظریہ اور نظرۂ پاکستان کے اصل
مفاہیم و مطالب اور ابدی توجیہات و تفاسیر کیا ہیں اسلام اور قرآن کی
روشنی میں اگر ایک مسلمان بچہ بھی برصغیر میں زندہ ہے تو دو قومی
نظریہ اپنی کامل جولانیوں کے ساتھ موجود ہے ، نظرۂ پاکستان مکمل طور
پر قائم ہے۔ اسلام کا جھنڈا موجود ہے۔ اگر نظرۂ پاکستان اپنی اصلی
اور ازلی حقائق کے نقطہ نظر سے مقصود ہو گیا ہوتا تو بنگلہ دیش جسے
آج ہم سابق مشرقی پاکستان کہتے ہیں ہندوستان کا کوئی با جگر حصہ
بن چکا ہوتا ، لیکن ایسا ایسا نہیں ہوا وہ پاکستانی حضرات جنہیں
پاکستان نے اعلیٰ ترین مقام سیاست و قیاست پر متمکن کر رکھا اب جلوہ
افوذ ہیں ، ثولیدہ ، نظریاتی علم سے عاری ، تحرک پاکستان کے دلدوز
لمحات و واقعات سے ناواقف ، حضرت قائداعظم ؒ اور حضرت علامہ اقبال
ؒ سے بغض ، کینہ اور نفرت رکھنے والے ایسے قابل تعظیم افراد
پاکستان کی کیا خدمت کر رہے ہو نگے اور جنہیں باقلخصوص قیامت کے روز
حضرت قائد اعظم ؒ کے حضور کیا جوابدہی دینا ہو گی۔ جو نظریہ پاکستان
اور تخلیق پاکستان کے بارے میں مشکوک الایمان اور متزلزل عقائد کے
علمبردار ہیں ، میں سمجھتا ہوں کہ اس سے بڑی اور کوئی بد قسمتی نہیں
ہے۔ لیکن ہمارا ایمان ہے کہ پاکستان مشیت ازادی ہے، اور حضرت قائد اعظمؒ
اور علامہ اقبال ؒ سات سات ولیوں کی قوت ایمانی والی شخصیات
تھیں ۔ اگر پاکستانی دانشور ان کرام، اساتذہ کرام طلبہ و طالبات
کبھی ٹھندے دل سے غور فرمائیں کہ مشرقی ہپاکستان کی علیحدگی میں اہم
کردار ادا کرنے والوں کا کیا حشر ہوا وہ پاک و ہند کی سیاسی اور قومی
تاریخ کسے ابواب میں قیامت تک کھڑے عبرت نشان عبرت بن کر رہ گئے۔
اندرا گاندھی کا یہ حشر ہوا کہ اسے سپنے باڈی گارڈ نے گولیوں سے اڑا
دیا۔ شیخ مجیب الرحمٰن کو اپنی ہم قوم فوج کے افسران نے گولیوں سے اْڑا
دیا۔
Sunday, 26 April 2015
قانونی مشورئے میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ.FREE LEGAL CONSULTION BY HUMAN RIGHTS ACTIVIST ASHRAF ASMI ADVOCATE HIGH COURT
ْ قانونی مشورئے
میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
بخت آور گکھر منڈی
سوال: وکیل صاحب: میرئے بیٹے نے نوکری حاصل کرنے کے لیے ایک شخص کو دو لاکھ روپے دئیے تھے لیکن اُس نے نوکری بھی نہیں لگوئی اور نہ ہی رقم واپس کی ہے۔ میں نے یہ رقم بڑی مشکلو ں سے ادھار اکھٹا کرکے دی تھی۔ اِس کا حل بتائیں۔
جواب: آپ اِس شخص کی بابت ایک درخواست اپنے علاقے کے ایس ایچ او صاحب کودیں اور اُس درخواست میں تمام حقائق درج کریں۔ اُس شخص کے خلاف فراڈ دھوکہ دہی کا پرچہ درج ہوگا۔آپ کو رقم ملنے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے۔
رضی خان دیپالپور
سوال:جناب وکیل صاحب: مین نے تین لاکھ روپے اومان جانے کے لیے ایک ایجنٹ کودئیے تھے لیکن اُس نے میرا کام نہیں کیا اور نہ ہی رقم واپس کر رہا ہے۔مجھے اب کیا کرنا چاہیے۔
جواب۔رضی خان صاحب۔ لالچ ہوس نے ہماری قوم کو بہت سے مسائل سے دوچار کردیا ہے۔ آپ ایف آئی اے میں درخواست دیں اِس حوالے سے ایف آئی ائے کا پورا یک شعبہ کام ر ہا ہے۔ آپ تما م کوائف کے ساتھاُنیں ملیں انشااللہ آپ کو آپ کی رقم مل جائے گی۔
حبیب نواز سرگودہا
سوال۔ وکیل صاحب میں نے اپنی ایک دکان کرائے پر دی تھی وہ شخص نہ تو دکان خالی کر رہا ہے اور نہ ہی کرایہ ادا کر رہا ہے۔
جواب۔ ہمارئے ملک میں انصاف کی فراہمی میں دیر ہونے کی وجہ سے لوگوں نے لوگون کو تنگ کرنا شروع کیا ہوا ہے۔ آپ اپنے ضلع کی رینٹ کنٹرولر صاحب کی عدالت میں پٹیشن دائر کریں وہاں سے آپ کو دکان خالی کروانے کا حق ملے جائے گا۔
ضمیر احمد کراچی
سوال۔ وکیل صاحب۔ میرا با جان نے ترکہ میں ایک دکان اور ایک مکان چھوڑا ہے ۔ ہم دو بھائی ہیں اور ہماری ایک بہن ہے ۔ ہمارئے بہنوئی نے دکان پر قبضہ کیا ہوا ہے اور وہ کہتا ہے کہ مکان کے تم لوگ حصے کرلو اور دکان اپنی بہن کے نام کردو۔ دکان کی مالیت کافی زیادہ ہے۔ ہمیں اب کیا کرنا چاہیے۔ اسلامی قانون کیا کہتا ہے۔
جواب۔مکان دکان میں سے ااپ دونوں بھائیوں کو ایک ایک حصہ اور آپ کی بہن کو آدھا حصہ ملے گا۔آپ اِس سلسلے میں استقرار حق کی ڈگری کے لیے سول کورٹ سے رجوع کریں۔ انشااللہ تما حق داران کو اُن کا پنا پنا حق مل جائے گا۔
ہرمن مسیح جیکب آباد سندھ
سوال: جناب وکیل صاحب میری زمین پر کچھ باثر لوگ قبضہ کر چکے ہیں۔پولیس کے پاس گیا ہوں کوئی کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔مجھے کیا کرنا چاہیے ۔ بہت پریشان ہوں جنہوں نے قبضہ کیا ہے وہ مجھے جان سے مارنے کی بھی دھمکیاں دئے رہے ہیں۔
جواب: آپ اپنے ضلع کے سیشن جج صاحب کو اِس سارئے معاملے کے حل کے لیے درخواست دیں یہ درخواستCRPC22A,22B
کے قانون کے تحت دی جاتی ہے ۔سیشن جج صاحب متعلقہ تھانے دار کو بلا کر اُس کی باز پُرس کریں گے اور آپ کا معاملہ حل کروائیں گے۔
ثمرہ حیات گوجرانوالا
سوال:جناب وکیل صاحب میرئے خاوند نے مجھے طلاق دے دی ہے اور نہ تو میرا جہیز واپس کیا ہے اور نہ ہی حق مہر کی رقم دئے رہا ہے۔ طلاق اِس وجہ دی ہے کہ میرئے ہاں اولاد نہیں ہو سکی۔ میری مشکل کا کیا حل ہے۔
جواب: آپ اپنی ضلع کی فیملی کورٹ میں سامان جہیز اور حق مہر کی رقم کی واپسی کے لیے دعو یٰ دائر کردیں۔ فیملی جج صاحب اِس حوالے سے سمن کرکے آپ کے سابق خاوند کو بلائیں گے اور پھر شہادتوں کی روشنی میں آپ کو سامان مل جائے گا۔
طارق ججہ حافط آباد
سوال: ایڈووکیٹ اشرف عاصمی صاحب اسلام علیکم ۔میری آپ سے التماس ہے کہ مجھے میرئے بچوں نے گھر سے نکال دیا ہے ۔ گھر میرئے نام ہے لیکن وہ مجھے اُس میں رہنے نہیں دئے رہے ہیں۔ میں ستر سال کا ایک ریٹائرڈ ٹیچر ہوں میں کہاں جاؤں۔
جواب: ججہ صاحب آپ کی بات سن کر بہت دکھ ہوا ہے آپ اپنے علاقے کے تھانے میں درخواست دیں جس میں تمام حالات و واقعات تحریر کریں۔ انشااللہ یہ معاملہ حل ہوجائیگا۔
بشارت علی واہ کینٹ
سوال:وکیل صاحب میں ایک فیکٹری میں کام کرتا تھا انھوں نے مجھے نوکری سے نکال دیا ہے اور چھ ماہ کی تنخواہ بھی نہیں دی۔ میں غریب آدمی کیا کروں۔
جواب۔ بشارت صاحب آپ فوری طور پر ایک نوٹس اپنے فیکٹری مالکان کو دین اگر وہ پھر بھی آپ کے بقایا جات آپ کو نہیں دیتے اور نوکری پر بحال نہیں کرتے تو آپ اپنے علاقے کی لیبر کورٹ میں جار درخواست گزار ہوں۔انشااللہ بہتر ہو گا۔
ڈاکٹر امیر اکبر لاہور
سوال: وکیل صاحب:ایک وکیل صاحب نے مجھ سے فیس بھی لے لی ہے اور وہ میرئے کیس میں پیش بھی نہیں ہوئے میں نے بار بار اُنھیں کہا لیکن وہ میرئے کیس میں نہیں آئے۔
جواب: محترم اِس حوالے سے آپ ایک درخواست پنجاب بار کونسل کو دیں جسمیں آپ اپنا معاملہ اُن کے سامنے رکھیں
Saturday, 14 March 2015
true story.but name and places has been changed.regards. ashraf asmi advocate,حواکی بیٹی۔ ایک مقدمہ ایک کہانی اشر ف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ کی پیشہ ورانہ زندگی کا سچا واقعہ
حواکی بیٹی۔ ایک مقدمہ ایک کہانی
اشر ف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ کی پیشہ ورانہ زندگی کا سچا واقعہ
جب میں جیل کی سلاخوں کے کے پیچھے کھڑی حوا کی بیٹی سے اُس پر گزرنے والے
واقعات سن رہا تھا تو مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ معاشرئے کی بے رحمی کا
سلسلہ یہاں تک پہنچ چکا ہے۔اُس نے بتایا کہ اُس کا خاوند نشہ کرتا تھا اور
وہ شادی کے پہلے دن سے ہی ایک پیسہ بھی کما کر نہیں لایا۔ اِس لیے جب بھی
وہ گھر کے اخراجات کے لیے اُس سے رقم کا تقاضا کرتی تو وہ اُسے مارنا
پیٹنا شروع کر دیتا۔ وقت گزرتا گیا دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں
گزرتے گئے۔زرتاشہ نے خود محنت مزدور ی شروع کردی تھی وہ ایک فیکٹری میں
نوکری کرنے لگی تھی یوں صبح ناشتے کے بعد جاتی اور شام گئے فیکٹری کی بس
اُسے مین سڑک پر اُتارتی اور وہ وہاں سے پیدل پندرہ منٹ کا راستہ چلتی گھر
پہنچتی۔ اِسی اثناء میں وہ تین بیٹیوں کی ماں بن چکی تھی لیکن اکبر تھا کہ
ہر وقت نشے کے لیے بے چین رہتا۔ بری بیٹی جب ساتویں جماعت میں پہنچی تو
زرتاشہ کے بالوں میں چاندنی نے جگہ لے لی تھی۔نوکری اور گھر کے تفکرات نے
اُسے ایسے بنا ڈالا تھا کہ جیسے وہ برسوں سے بیمار ہو۔ بات بھی کچھ ایسی ہی
تھی جب پیدا ہوئی تو ماں باپ دنیا سے جلد اُٹھ گئے۔ دو بھائی تھے اُنھوں
نے تھوڑا بہت پڑھایا اور 19 سال کی عمر میں ہی اُسے بیا دیا اور پھر مڑ کر
خبر نہ لی۔زرتاشہ کی قسمت ہی کچھ ایسی ٹھنڈی تھی کہ شائد کاتب تقدیر نے
ادھوری لکھی تھی بڑی بیٹی کو جوان ہوتے دیکھ کر زرتاشہ کی راتوں کی نیند
اُڑ چکی تھی۔جب زرتاشہ مجھے اپنی کہانی سنا رہی تھی تو مجھے ایسے لگ رہا
تھا کہ میں کہیں دور جنگل و بیاباں کا باسی ہوں جہاں انسانیت کی قدر
جانوروں سے بھی کم ہے۔ مجھے یہ جان کر شدید جھٹکا لگا جب زرتاشہ نے کہا
کہ وکیل صاحب ایک رات اُس کا خاوند ایک اوباش کو گھر لے آیا دونوں نے شراب
پی رکھی تھی اُس اوباش نے نشے کی حالت میں میری کلائی پکڑ لی میری تینوں
بیٹیاں ڈر کے مارئے رونے لگ گئی لیکن اکبر ایسا بے غیرت تھا کہ وہ ٹس سے مس
نہ ہوا۔ میں نے شور مچایا لیکن کوئی محلے دار میری مدد کو نہ آیا کیونکہ
سب لوگ عادی ہوچکے تھے کہ اکبر کا کام ہی یہ ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں اور
بیوی کو مارتا پیٹتا رہتا ہے۔بس وکیل صاحب اُس دن اپنی بیٹیوں اور نامراد
خاوند کے سامنے مجھے اُس اوباش نے اپنی ہوس کا نشانہ بنا ڈالا شائد قدرت
کوبھی یہ ظلم دیکھ کر ترس آگیا کہ میں نے صبح سویرئے جس کمرئے میں اکبر
اور وہ اوباش سو رہے تھے کہ وہاں تیل چھڑک کر آگ لگا دی ۔ دونوں شراب کے
نشے کی حالت میں تھے اِس لیے سیدھا جہنم رسید ہو گئے۔ آگ کے کے شعلے جب
بلند ہوئے تو علاقے کے لوگ اُمڈ آئے پویس اور فائر برگیڈ والے پہنچے۔
پولیس نے زرتاشہ کو گرفتار کرلیا۔مقدمہ چلا چونکہ پیروی کرنے والا کوئی نہ
تھا زرتاشہ کو ٹرائل کورٹ نے عمر قید سنا دی۔زرتاشہ کے بھائیوں نے پھر بھی
اُس کی خبر نہ لی۔اُس کی بیٹیوں کو یتم خانے پہنچا دیا گیا۔ جب زرتاشتہ
اپنی ساری درد بھری داستان سنا چکی تو میں نے بوجھل دل کے ساتھ اُس سے
وکالت نامے پر دستخط کروائے اور جیل کے اہل کار سے اُس پر مہر لگائی اور
واپس اپنے چیمبر آگیا۔لاہور ہائی کورٹ میں اُس کو دی جانے والی سزا کے
خلاف اپیل دائر کردی ۔عدالت نے چند تاریخوں کے بعد ہی زرتاشہ کی اپیل منظور
کرلی اور اُسے رہائی کا پروانہ مل گیا۔یوں مردوں کے معاشرئے میں مردوں کے
ہاتھوں برباد ہونے والی زرتاشہ تین سال جیل میں گزارنے کے بعد رہا ہوگئی اب
معاملہ اِس بدنصیب خاندان کی بحالی کا تھا۔ میری اپیل پر چند احباب نے
اُن کی اپنے گھر واپسی کو ممکن بنایا اور وہ اپنی بیٹوں کے ساتھ واپس گھر
لوٹ گئی اور گھر میں اپنی بڑی بیٹی کے ساتھ کپرئے سینے کا کام کرنے لگی یوں
حوا کی بیٹی کے اوپر ہونے والے اُس کے اپنے ہی مرد کے سامنے ظلم نے اِس
خاندان کو ایک ایسے کرب میں مبتلا کردیا تھا کہ جب تک زرتاشہ اور اُسکی
بیٹیاں زندہ ہیں یہ دکھ اُن کو ڈستا رہے گا۔
Wednesday, 18 February 2015
CHARGE SHEET BY GENERAL RAHEEL SHARIF TO THE POLITICIANS.............A Critical Analysics By Human Rights .Ashraf Asmi Advocate, Human Rights Activist
CHARGE SHEET BY
GENERAL RAHEEL
SHARIF TO THE POLITICIANS
A Critical Analysics
By
Ashraf Asmi Advocate,Human Rights Activist
Charge Sheet By General Raheel Sharief
The Chief of the Army Staff
(COAS), General Raheel Sharif, said the Sindh Police must be depoliticised with
the view to making it an effective apolitical force for the maintenance of law
and order in Karachi . Speaking
during the Sindh Apex Committee meeting , General Sharif said postings and
transfers in the provincial police department should be made independent of
political interference after the approval of the apex committee.He said the
ongoing targeted operation in Karachi against all criminals irrespective of
their ethnic, political, religious and sectarian affinity should continue.The
army chief said he would go to any extent in support of the Karachi operation
to ensure peace. He said Karachi
played a key role in the country’s economy adding that peace in the city
guaranteed prosperity for the entire country. “Gen. Raheel said meaningful
efforts were needed to ensure peace in the city,” Director General
Inter-Services Public Relations (ISPR) Maj. Gen. Asim Saleem Bajwa tweeted on
the social media.Gen. Raheel said the Rangers operation in Karachi had created an environment for
sustained peace and stability.He said political consensus and follow-up were a
must to capitalise on the space created for enduring peace. “Crime should
be dealt as a political,” he said, adding, “Broad-based consensus and harmony
are a must to capitalise on gains in the operation.”He said better coordination
between the law enforcement agencies (LEAs) and intelligence agencies was a
must. During his visit to the Rangers Headquarters, Gen Raheel appreciated
the gains of the operation by the Rangers, police and intelligence
agencies.Director General Rangers briefed him on the Karachi security situation and the ongoing
across-the-board operations along with other law enforcement agencies
(LEAs). Sindh govt adding to problems: Corps Commander Lieutenant
General Naveed Mukhtar complained to Prime Minister Nawaz Sharif that
poor administration by the Sindh government was adding to the problems, and it
was getting difficult to run administrative matters. Briefing Prime
Minister Nawaz and Chief of the Army Staff General Raheel Sharif on the ongoing
targeted operation in Karachi and the activities being carried out in Sindh
under the umbrella of Operation Zarb-e-Azb, Lt Gen Mukhtar said the Sindh
government had changed the interior secretary three times in a month, which was
causing problems. It is pertinent to mention here that Mumtaz Shah, Niaz Abbasi
and Abdur Rahim Soomro have been removed from the office of the interior
secretary in a month.How
is it true that the General Raheel Sharief has expressed his reservation about
the transfer posting and appointments of the police, he stated while he was
addressing to the Apex committee of Sind , that meeting was also
attended by the, Prime Minister, Chief Minister, Governor, ISI Chief, Sind
Cabinet. It is worthy to mention here that the current law and order condition
is Karachi is has become worst. Army Chief has
stated what is being though by general public, How is it deplorable thing, any
army man has vision to hear what is in the hearts and souls of the people but
our political leadership has no vision except to become corrupted.Karchi is a big
country of the world, it has port sea, it has access to the other world for
trade, it may be termed as the economic hub of the Pakistan, so the
international agencies, forces are creating law and order situation in this
city. The main Stake holder of this city is MQM, but the PTI, PPP, JI, ANP and
Sunni Therak has also its stake in this city. MQM always tight the grip in the
affairs of the Karachi, But here is also a point is considerable, Layri war
gang is also behind the crimes.Resently Aziz Baluch has been caught in Dubai,
who is the main pillar of the layeari war gang.Although In media reports it is
learnt that Rangers is striving for peace in the Karachi but because of
politicized police, the results are not fruitful. The statement of Army chief
has broken the ice and it is now voice of the town that army is considering the
political leadership as a hindrance in the way of peace. The present era is
alarming for Pakistan as the Egypet, Syria , Libya , Afghanistan is shuddered
by the US , now
it is the game all about Pakistani integrity and solidarity.
Wednesday, 4 February 2015
وادیِ کشمیر لہو رنگ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ A Special Article on 5th day of feberuary KASHMIR DAY BY HUMAN RIGHTS ACTIVIST CHAIRMAN HUMAN RIGHTS FRONT INTERNATIONAL, MIAN ASHRAF ASMI ADVOCATE
دُنیا کے امن کی راہ میں حائل بہت سے عوامل کے ساتھ ساتھ کشمیر ی عوام کی غلامی بھی ہے۔ کشمیریوں کو بھارتی درندوں نے زبردستی ظلم اور غلامی کا طوق پہنا رکھا ہے۔ یوں کشمیر میں انسانی حقوق کی جس طرح سے پامالی ہو رہی ہے اور کشمیری عوام جس طرح گاجر اور مولیوں کی طرح کٹ رہے ہیں یہ سب کچھ موجودہ انسانی حقوق کے علمبردار ممالک کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔انسان کا بنیادی حق آزادی ہے ۔ سوچ اور فکر کی آزادی تو بہت بڑی نعمت ہے لیکن سب سے گھمبیر معاملہ یہ ہے کہ کشمیر ی مسلمان جسمانی طور پر بھی غلام ہیں کو ئی دن نہیں جاتاجب کشمیر میں خون کی ہولی نہ کھیلی جاتی ہو انسانی آزادیوں کی پامالی کے حوالے سے کشمیر لہو لہو ہے۔ڈوگرہ راج سے لے کر موجودہ بھارتی تسلط کی آزادی کے حوالے تک بین الاقوامی میڈیا و بین الاقوامی عدالتِ انصاف کا ٹریک ریکارڈ ماتم کدہ بن چُکا ہے۔ انسانی عقل و شعور کسی صورت بھی یہ تصور نہیں کر سکتا کہ موجودہ حالات کے تناظر میں اِس حد تک شرمناک سلوک انسانوں کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ پاکستانی معاشرئے پہ کشمیر میں ہونے والی کشمیریوں کی نسل کُشی کا بہت ہی گہرا اثر ہے۔پاکستانی عوام کے دل کشمیریوں کے ساتھ ظلم وستم پہ نوحہ کناں ہے۔عالمی ضمیر کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ کشمیر کا معاملہ اقوام متحدہ میں بے حس و حرکت پڑا ہے اور ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ بیسویں صدی کے آخری عشروں میں روس سپر پاور تھا لیکن اُس کی تمام تر ہمدردیاں بھارت کے ساتھ تھیں۔اِسی طرح موجودہ ادوار میں انکل سام امریکہ بہادر سُپر پاور ہے لیکن امریکہ کا بھی جُھکاؤ بھارت کی جانب ہے۔کشمیری عوام کی نفسیات پر جو گہرئے اثرات بھارتی ظلم و ستم کی بناء پر مرتب ہورہے ہیں۔ اِس بناء پر کشمیریوں کی معاشی سماجی عمرانی حالات غیر موافق ہیں۔ جنوبی ایشاء کا امن اِس وقت داؤ پہ لگا ہوا ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں۔ یوں ایٹمی طاقتیں ہونے کی بناء پر پورئے جنوبی اشیاء کا امن داؤ پر لگا ہوا ہے۔نریندر مودی نے جب سے حکومت سنبھالی ہے ۔پاکستانی سرحدوں پر آگ اور خون کا کھیل کھیلا جارہا ہے اور نریندر مودی نے جس طرح حالیہ دنوں میں پاکستانی علاقوں میں اتنا گولہ بارود پھینکا ہے کہ ہماری فوج کے جوان شہری آبادی حتی ٰ کے جانور بھی ہلاک کیے گئے انسانی چشم نے یہ تماشا بھی دیکھا کہ فلیگ میٹنگ کے لیے بلائے گئے پاک فوج کے جوانوں کو سینے پہ گولی مار دی گئی۔ یوں سفارتی دُنیا کے معاملات کے حوالے سے بھارت نے اپنے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا خود لگا دیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی وادیِ لہو رنگ نے عزم و ایثار کی وہ داستانیں رقم کی ہیں کہ انسانی تارئیخ اِس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ کشمیری عوام جس طرح کے مسلسل کرب میں سے گزرئے ہیں اور ہنوز اِس کا سلسلہ جاری ہے۔تصور میں یہ بات لائی جائے کہ جس معاشرئے میں امن نام کی کوئی چیز نہ ہو۔ ایسا معاشرہ جہاں پر جابر حکومت ہو ایسی سر زمین جو اپنے ہی باسیوں کے خون سے رنگین ہو۔ جہاں کے شہریوں کو ریاستی جبر و ظلم کا سامنا کرنا پرئے۔ گویا ریاست کے ساتھ عوام کی جنگ ہو رہی ہے اور ریاست نے سات لاکھ فوجی کشمیریوں پر ظلم و ستم ڈھانے کے لیے وادی میں اُتار رکھے۔ اِن حالات میں وادی کی صنعت وحرفت تباہ برباد ہو چُکی ہے۔معیشت کا گہرا تعلق امن و امان سے ہے۔ وادیِ کشمیر میں امن نام کی کوئی شے نہیں ہے۔غور کرنے کا مقام ہے اُس قوم کے بچوں کی نفسیات رہن سہن کیا ہوگا جہاں اُن کے سامنے اُن کی ماؤں کی عصمت دری کی جارہی ہو جہاں اُن کے باپ اُن کے سامنے قتل کیے جارہے ہوں۔ جہاں آئے روز نوجوان کشمیریوں کو نامعلوم مقامات پر اغوا کرکے رکھا جارہا ہو۔ ایسے حالات میں کشمیر ی باشندوں کی نفسیاتی عمرانی حالت خطرناک حد تک خراب ہے۔ نہرو کی جانب سے جب اقوام متحدہ میں جاکر یہ یقین دہانی کر ائی گئی کہ کشمیریوں کو حقِ استصواب رائے دیا جائیگاجب یہ قرارداد پیش کی گئی ۔اُس وقت یقین دہانی یہ ہی کروائی گئی تھی کہ کشمیری اگر چاہیے تو پاکستان کے ساتھ الحاق کرلیں اور اگر چاہیں تو بھارت کے ساتھ ہی رہیں ۔لیکن بھارت اپنی ہی پیش کی گئی قرارداد سے پھر چکا ہے ۔کشمیری مجاہدین جن میں جناب شبیر شاہ ، سید گیلانی،میرو اعظ عمر فاروق، یاسین و دیگر قائدین بھارتی ظلم وستم کے خلاف عَلم بلند کیے ہوئے ہیں۔کشمیر نے دُنیا کے تمام ممالک میں اپنے لیے توجہ تو حاصل کی ہے لیکن عملی طور پر امریکہ بہادر نے کچھ نہیں کیا بلکہ حالیہ بھارتی دورہ کرنے سے پہلے امریکی صدر اوباما نے کہا ہے کہ بھارت حقیقی معنوں میں ہمارا گلوبل پارٹنر ہے۔امریکہ جو کہ طاقت کے نشے میں دُھت ہے وہ صرف اپنے مفادات دیکھتا ہے اُس کے لیے کشمیریوں کی زندگی اور موت کی کوئی اہمیت نہیں۔ جس طرح کی انسانی آزادیوں کی بات امریکہ کرتا ہے وہ صرف زبانی کلامی ہیں عملی طور پر تو وہ کسی بھی مسلمان ملک کو سکون میں نہیں دیکھنا نہیں چاہتا۔امریکہ بہادر تو خطے میں چین کی معاشی ترقی کو روکنے کے لیے بھارت کا ہمنوا بن چکا ہے۔پاکستان کے اندر ہونے والی دہشتگردی کی کاروائیوں میں بھارت امریکہ اسرائیل تینوں ملوث ہیں۔ منصف بننے کا دعوئیدار امریکہ خود لُٹیرا ہے ۔ پاکستانی حکومت کو کشمیر کی آزادی کے لیے آواز اُتھانی چاہیے لیکن اِس آواز کو کون سنتا ہے۔چین نے یہ پالیسی بنا رکھی کہ اُس نے اپنی معیشت کو استحکام بخشنا ہے اور کسی کے ساتھ جنگ نہیں کرنی۔روس کے ساتھ سرد جنگ کے دنوں سے ہماری مخالفت ہے اور جس طرح امریکہ نے روس کو توڑنے کے لیے پاکستان اور اسلام کو استمعال کیا وہ سب کچھ روس کے سینے پہ ابھی تک مونگ دَل رہا ہے۔پاکستان کو عجیب و غریب حالات سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔پاکستان کا اندرونی استحکام تو بین الاقوامی طاقتوں کے ہاتھ میں ہے۔ چین کے عالمی سپر پاور بننے کے عمل کی وجہ سے امریکہ بھارت یک جان دو قالب بنے بیٹھے ہیں۔ اِ ن حالات میں کشمیریوں کا پرسان حال کیا ہوگا۔ ہمیشہ سے سُنا کرتے تھے کہ جس کی لاٹھی اُسکی بھینس۔ لیکن جب قوموں کے متعلق تعلیم یافتہ اور مہذب ہونے کی سوچ پروان چڑھی تو شائد معصوم ذہنوں میں یہ بات کہیں اٹک کر ر ہ گی و ہ یہ کہ ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ ہونا مہذب ہونے کی نشانی ہے۔ نبی پاک ﷺ نے عرب کے وحشیوں کو جب مہذب بنایا اُن کی تربیت فرمائی تو یہ اُسی تربیت کا اثر تھا کہ پوری دنیا کی مسلمانوں نے امامت فرمائی اور دنیا کو اچھی حکمرانی کے طور طریقے سکھائے۔ موجودہ دور میں حالات و واقعات نے یہ بات ثابت کردی ہے اور ایک بات شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے کہ امریکہ انٹرنیشنل قوانین کی پامالی کررہا ہے۔ امریکہ جو کہ ہر معاملے میں خود کو گھسیٹتا ہے اور خود کو کو کوئی اوتار سمجھے ہوئے ہے۔ اُسے دُنیا میں موجود مسلم عوام ایک آنکھ نہیں بھاتی ۔ اقوام متحدہ اور امریکہ کا موجودہ کردار کسی طور بھی انڑنیشنل قوانین کے تحت نہیں ہے۔ اقوام متحدہ صرف دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا فیریضہ انجام دئے رہا ہے اور اِسکا اولین کام امریکہ کی تابعدارای اور فرما برداری ہے۔ تقریباً دنیا کے تمام ملکوں میں امریکہ کا اثر روسوخ ہے یہ اثرورسوخ پہلے معاشی اور بعد میں پھر سیاسی بن جاتا ہے۔ اگر نرم سے نرم الفاظ میں بات کی جائے تو بھی امریکہ اِس وقت پوری دُنیا کا دُشمن بنا بیٹھا ہے اور اِس کی سامراجیت کو لگام دینا والا اِسکا کوئی بھی ہم پلہ ملک نہیں ہے۔روس کی شکست وریخت کے بعد تو امریکہ کو کھلی چُھٹی ملی ہوئی ہے۔ عراق میں لاکھوں انسانون کا قتل عام اور ا فغانی عوام کے خون سے ہولی امریکی دہشت گردی کا مُنہ بولتا ثبوت ہیں۔شام ،مصر ، ترکی کے اندر مداخلت پاکستان میں ڈرون حملے، کیا یہ سب کچھ کسی قانون قاعدے یا اخلاقی پہلو کو پیشِ نظر رکھ کر کیا جارہاہے۔امریکہ اس وقت سب سے بڑا دہشت گرد ہے اور وہ بین الا قوامی قوانین کی دھیجیاں اُڑا رہا ہے۔ قم کے خیال میں امریکہ اِس وقت دنیا میں دہشت کا نشان بن چکا ہے۔ بھارتی حکومت نے جس طرح ممبئی حملے خود کروائے اور اُس کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال کر پورے دُنیا میں پاکستان کو خوب بدنام کیایہ سب کچھ امریکہ کی آشیر باد سے کیا گیا وہ تو امریکی انٹیلی جنس آفیسر نے بھارتی عدالت میں حلف نامے کے ساتھ یہ بیان جمع کروایا کہ یہ سب کچھ بھارت نے خود کیا تھا۔یہ ہے بھارت اور امریکہ کا گٹھ جوڑ ۔کشمیرکی وادی میں مسلمانوں کا قتل عام امریکہ اقوام متحدہ کی بے حسی کا شاخسانہ ہے۔اگر ہم اِس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ امریکی قانون شکنی کا سارا زور کس پر ہے تو صرف اور صرف وہ مسلم دُنیا ہے۔اِس حوالے سے مسلم حکمرانوں کو اپنے اپنے ملکوں میں جمہوری اندازِ حکمرانی اپنانا ہوگا تاکہ اُن کی عوام جو سوچتی ہے اور جو چاہتی ہے اُس کی آواز مسلم حکمرانوں کے کانوں تک پہنچے اور وہ اپنے عوام کی ترجمانی کا فریضہ انجام دے سکیں۔کیونکہ جس طرح سے امریکہ نے عراق کے سابق صدر صدام حسین کو اپنی دوستی کے چنگُل میں پھانسا اور پھر عراق کی جانب سے ایران کے اوپر چڑھائی کروائی اور ایران کو کمزور کیا بعد میں اِسی صدام کو پھانسی پہ لٹکایا اور دنیا بھر کے میڈیا پہ لائیو دیکھایا۔پھر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور بارہ لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کا قتلِ عام کیا۔ امریکہ بہادر کے سامنے کلمہ حق کہنا تو ایک طرف مسلم حکمران تو اِس کے سامنے کھڑے نہیں ہوسکتے۔ مسلم دنیا کو اپنے عوام کو خوشحال کرنا ہو گا اور پھر جب مسلم دنیا خود اپنی عوام کی آشیر باد سے اس قابل ہوں کہ وہ اقوام متحدہ اور امریکہ کو یہ احساس دلائیں کہ انٹرنیشنل قوانین پر عمل درآمد کس طرح ہوتا ہے اگر چہ مسلم دنیا کے حکمرانوں کا راہ راست پر آنا مستقبل قریب میں دیکھائی نہیں دیتا لیکن اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ امریکی عوام مہذب ہیں لیکن اگر وہ اتنی مہذب،ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ ہیں تو پھر ان کی عقل و دانش ان کو اس امر کی طرف راغب کیوں نہیں کرتی کہ امریکہ بھی عالمی قوانین کااحترام کرئے امریکی عوام کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ پوری دنیا میں امریکہ صرف اِس لیے نفرت کا نشان ہے کہ امریکہ نے خود کو ہر طرح کے قانون سے بالا تر سمجھ رکھا ہے۔ ایران کے خلاف معاشی پابندیاں اور اسرائیل کو کھلی چُھٹی بین الاقوامی قوانین کے ساتھ کھلا مذاق ہے۔ امریکہ کی اتنی ٹانگیں نہیں ہیں کہ وہ ہر معاملے میں اپنے ٹانگ اڑا رہا ہے اِس کا انجام روس کی طرح ہی ہوگا کہ یہ آخر کار اپنی ٹانگیں تڑوا بیٹھے گا۔ امریکہ کی جگہ لینے کے لیے چین تیار بیٹھا ہے روس کو ختم کرنے کے لیے جس طرح پوری دُنیا کے مسلمانوں کو امریکہ نے جہاد کے نام پر اکھٹا کیا اور افغانستان کی جنگ میں جھونکا اور روس کو شکست دی اور خود واحد سپر بن گیا۔ القائدہ ،طالبان امریکہ کے لگا ئے ہوے پودے ہیں جو کانٹے بن چکے ہیں۔اقوام متحدہ ، بین الاقوامی عدالت ، انسانی حقوق کی تنظیموں کے ہونے کے باوجود امریکہ جانب سے پوری دنیا میں دہشت گردی اور پاکستان میں ڈرون کی شکل میں تباہی یہ وہ سوالیہ نشان ہیں کہ جو پوری دنیا کے سامنے امریکہ کا چہرہ بے نقاب کیے ہوئے ہیں کہ امریکہ اِس وقت سب سے بڑا قانون شکن ہے۔ا مریکہ کے ہوتے ہوئے کشمیر کی آزادی کیسے ممکن ہے۔ پوری مسلمان دنیا میں کوئی بھی ایسا ملک نہیں جو کہ کشمیریوں کے لیے آواز اُٹھائے۔ موجودہ حالات میں جب کہ پاکستان دہشت گردوں کی خلاف جنگ لر رہا ہے جان کیری نے اپنے حالیہ دور جنوری 2015 کے دوران بھاری انتظامیہ کو کہا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کی حمایت سے باز آجائے۔ امریکی عہدئے داروں کو مکمل ادراک ہے کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں کروا رہا ہے اور پینٹاگان اِس کے ساتھ ہے۔کشمیری کی وادی لہو رنگ وادی اِس وادی میں مسلمانوں کے خون سے سیراب ہونے کے لیے نہ جانے اتنا حوصلہ کیسے آچکا ہے
ashrafasmi92@gmail.com
Monday, 2 February 2015
امریکہ بھارت گٹھ جوڑ اور خطے کی صورتحال میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ An Article By ashraf Asmi Advocate About Regional Conditions and New Indi US Love Story
امریکہ بھارت گٹھ جوڑ اور خطے کی صورتحال
میاں محمد اشرف عاصمی
ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
نبی پاک ﷺ کا فرمان عالی شان ہے وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے ۔اللہ پاک اپنے کتابِ حکیم میں فرماتا ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ موجودہ حالات میں امن کے فروغ کے لیے عملی اقدامات اُٹھانے کی اتنی زیادہ ضرورت ہے کہ اِس کی ذمہ داری ایک ایک پاکستانی پر عائد ہوتی ہے۔پاکستان کے قیام اور تعمیر میں مسلمانوں کے ساتھ عیسائی، پارسی اقلیت نے بھی اپنا بھر پور کردار ادا کیا۔26 جنوری 2015کو سینٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ جنرل راحیل شریف نے امریکی انتظامیہ کو پاکستان میں بھارت کی مداخلت کے ناقابلِ تردیدثبوت پیش کیے ہیں اور پاکستان میں نام نہاد طالبان کو مکمل طور پر بھارت کی حمایت حاصل ہے اور انہی حالات میں امریکی صدر بارک اوباما کا دورہ بھارت 25 جنوری2015 کو ہوا ۔ اِس دورئے میں جس انداز میں نریندر موددی یہ تاثر دئے رہا ہے کہ اُس کے امریکہ کے ساتھ بہت گہرے تعلقات ہے اور اِس تاثر کی وجہ سے پاکستانی عوام بے چین دیکھائی دیتی ہے۔بارک اوبامہ نے اپنے اعزاز میں دئیے گے استقبالیہ سے خطاب میں یہ اعلان کیا کہ امریکہ بھارت کو اپنا قابلِ اعتماد گلوبل پارٹنر سمجھتا ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ اوبامہ نے یہ بھی اعلان کردیا کہ امریکہ سلامتی کونسل میں مستقل نشت کے لیے بھارت کی حمایت کرتا ہے۔بات یہاں تک ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ امریکہ نے نیوکلیر ٹیکنالوجی بھارت کو دینے کا بھی اعلان کیا۔ امریکہ بھارت پہ واری ہورہا ہے اور امریکہ صدر نے 26 جنوری 2015 کو یہ بھی نوید بھارتی جنتا کو سُنائی کہ بھار ت کے اندر امریکہ 400 ارب روپے کی سرمایہ کاری کرئے گا۔ پہلی دفعہ کسی امریکی صدر نے بھارت کے یومِ جمہوریہ کے موقع پر تقریب میں شرکت کی۔امریکہ بھارت یہ آغازِ عشق کوئی نیا نہیں ہے بلکہ منموہن سنگھ کے ساتھ بھی سول نیوکلیر ٹیکنالوجی کی فراہمی کی بات کی گئی تھی۔لیکن اب صورتحال مختلف ہے۔امریکہ نے اپنے افغانستان میں مقاصد حاصل کر لیے ہیں وہ مقاصد افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانا اور پاکستان کے اندر دہشت گردی کو ہوا دینا۔ پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ سے تقریباً پچاس ہزار سول آبادی اور پانچ ہزار سے زیادہ فوجی شھید ہو چُکے ہیں۔پاکستانی فوج کا اتنا نقصان ہوا ہے کہ بیان سے باہر ہے ایک سپاہی سے لے کر جنرل تک اِس جنگ میں شھید ہوئے ہیں۔ اور اِس پہ ہی یہ سلسلہ موقوف نہیں بلکہ جی ایچ کیو، واہگہ بارڈر، کراچی میں نیوی یارڈ، پشاور میں آرمی سکول وچرچ لاہور میں ایف ائی اے اور آئی ایس آئی کے مراکز پر حملے۔یہ سب مظالم ڈھانے میں امریکہ اور بھارت نے مل کر سازشیں کی ہیں۔ چین کی جانب سے تجارتی سرگرمیاں عروج پر پہنچ جانے سے امریکی تھانیداری خطرے میں ہے اور امریکہ چین کو روکنے کے لیے بھارت کے ساتھ مل کر ایک ہُوا کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان نے گوادر پورٹ بھی چین کے حوالے کردی ہے یوں گرم پانیوں تک چین کی رسائی نے امریکی انتظامیہ کی نیندیں حرام کر دی ہیں جس وقت نریندر مودی اوباما کو اپنے ہاتھ سے چائے بنا کر پیش کر رہا تھا عین اُسی وقت پاکستانی آرمی چیف چین کے سربراہ سے مل رہا تھا۔چین کا دورہ اِس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستانی قوم نفسیاتی طور پر کبھی بھی بھارت کی برتری کسی بھی حال میں قبول نہیں کرئے گی۔بھارت بہت بڑا ملک ہے اِس کو وسیع القلب ہونے کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا لیکن صد افسوس پاکستان کے اندر ہونے والی تمام تر دہشت گردی کے تانے بانے بھارت کے ساتھ ہی جڑئے ہیں۔ بھارت کے اندر یہ بات راسخ ہے کہ بھارت کی تقسیم بہت بڑا پاپ ہے اِس لیے بھارت پاکستان کو تسلیم نہیں کرتا۔پاکستانی فوج کے اوپر بے شمار ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اِسی لیے جب سول انتظامیہ ملکی معاملات کو کنٹرول نہیں کر پاتی تو پھر چاروناچار فوج کو دخل اندازی کرنا پڑتی ہے۔یوں پھر فوج کا پاکستان کے ہر معاملے میں دخل اندازی دینا یقیناً اچھی بات نہیں لیکن پاکستان کی سٹریٹیجک صورتحال ہی ایسی ہے کہ فوج کو نہ چاہتے ہوئے بھی ملکی معاملات کا بنظرِ غور جائزہ لینا پڑتا ہے۔ یوں پاکستان کے اندر کی صورتحال کافی خراب ہے۔انسانی حقوق کی تنظیمیں اکژ اپنے تحفظات کا اظہار کرتی ہیں لیکن دراصل یہ نقار خانے میں طوطی کی آواز کے مترادف ہے۔ ہمارئے پاکستان میں جب بھی ملک کے خلاف کوئی بڑی محاذ آرائی ہوئی یا ملک کو شدید نقصان پہنچا ہو تو ایسا جب بھی ہوا پاکستان پہ حکومت فوج کی تھی۔ اِس وقت ضرورت اِس امر کی ہے کہ پاکستان میں بسنے والے تمام طبقہ جات مل کر ملک کے خلاف ہونے والی سازشوں کو ناکام بنائیں۔ملک میں قومی یک جہتی کے فروغ کے لیے معاشرے میں نفوذ پزیری کے حامل افراد کو اپنا بھر پور کردار ادا کرنا ہوگا۔اساتذہ، وکلاء، ڈاکٹرز، انسانی حقوق کی تنظیمیں سماجی ورکرز اور سول سوسائٹی کے افراد قوم کو ایک لڑی میں پرونے کے لیے خود کو ایک ہی صف میں کھڑئے کرکے پاکستان کے دُشمنوں کے عزائم خاک میں ملا سکتے ہیں۔نبی پاک ﷺ کا فرمان عالی شان ہے وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے ۔اللہ پاک اپنے کتابِ حکیم میں فرماتا ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہو اور تفرقے میں نہ پڑو۔
ashrafasmi92@gmail.com
Friday, 30 January 2015
OBAMA RECENT VIST OF INDIA , WHY IS UNREST IN INDIA , ARTICLE BY ...ASHRAF ASMI ADVOCATE HIGH COURT
OBAMA
RECENT VIST OF INDIA , WHY IS UNREST IN INDIA
ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
In our childhood,
often stories are listen by grandmother, in those stories the thing which was common,
the king who was not fair with humanity met his end, then population of the
country felt happiness on his death. Now it is the modern era, there are very modern
facilities to rule the country. The whole world has become a global village. So
the needs of each country can be fulfilled by other countries. Now the question
arises, in the present scenario , there is huge information technology,
computer, internet, mobile phone have mad the life easier. It is also valid
point here that the standard of livening of human being should be uplift, but
the fact is absolutely wrong, the humanity is only in the books. The present world
is victim of Uncle Sam US .
Us has destroyed the Egypt, Syeria,Liba,Iraq,Afghanistan.The US also created
lot of problems for Pakistan as Pakistan is now victim of teriorism.This war of
terrorism has been brought in our cities, villages by the US. The real enemy of
the world peace is US. Now as US interest from Afghanistan
vanished, US have run to the India ,
our enemy. The resent visit of US
president Mr. Bark Obama of India
on 25th Januarary 2015 was against the peace and prosperity of
people of South Asia.India is striving to become permanent member of Security Council
for a long time. But now the US
president in his first press conference announced that US would help to India to become
Permanent Member of Security Council. The US
president also announced that the US
would provide the Civil Nuclear Technology to the India . The story behind all this
love affairs, to restrain the China
to become super power. Pakistan is like tiny creature as compare to US, India,
China, but its strategic situation has made it very important. Now the role of Pakistan
can not be ignored by these three countries. India
has fatal emotions for Pakistan
since its birth. Pakistan should not worry about the announcement by the obama,
it is mere the diplomatic talk and in fact, the situation of the US relationship with India is in the same level.
Pakistani Foreign Analysts have view, actually bark Obama announcement is for China . China prosperity and strength lies
upon the economy. No doubt people of Pakistan have some reservations about
the Bark obama visit. Muhammad Sarwer , resigned from the Governorship, it is
acute level moral defeat of Goverenement.Governor has also stated in media a
day before his resignation, Obama visit of India and not Pakistan, is failure of Government Foreign Policy. As a
nation we should take the visit of India by
obama, Obama is just playing for make up of his politics, because he has
proved himself not a competent personality.
HAZRAT HAKEEM MIAN MUHAMMAD INYAT KHAN QADRI NOSHAI SB R.A, A GREAT SUFIمیرئے پیارئے ماموں جان تحریک پاکستان کے غازی عظیم عاشق رسول ﷺ و روحانی شخصیت جناب حضرت حکیم میاں محمد عنائت خان قادری نوشاہیؒ
میرئے پیارئے ماموں جان تحریک پاکستان کے غازی عظیم
عاشق رسول ﷺ و روحانی شخصیت
جناب حضرت حکیم میاں محمد عنائت خان قادری نوشاہیؒ
روشن راہوں کے مسافر عظیم عاشقِ رسولﷺ جناب حکیم میاں محمد عنائت خان قادری نوشاہیؒ پانچ جنوری 2015 کو وصال فرماگئے یوں تحریک پاکستان کے عظیم کارکن ممتاز روحانی شخصیت حضرت بابا ولایت شاہ صاحب قادری نوشاہی ؒ کے جانشین اپنی اُجلی زندگی گزار کر اپنے رب کے حضور پیش ہوگئے۔ جناب حکیم صاحبؒ کے ساتھ میرا تعلق بہت گہرا تھا ۔ وہ یوں کہ حکیم صاحبؒ قیام پاکستان کے وقت جب امرتسر کے گاؤں تھاندے سے ہجرت کرکے نبی پاکﷺ کی سُنت پاک پر عمل کرتے ہوئے پاکستان تشریف لائے تو اُس وقت اُن کے چالیس گھرانوں میں سے صرف تین نفوس زندہ بچے تھے باقی سب پاک وطن کی خاطر شھید کر دیے گئے۔ حکیم صاحبؒ اُن کی والدہ محترمہ اور اُن کی چھوٹی بہن یہ وہ تین لوگ تھے جنہوں نے پاک سر زمین پر قدم رکھا۔ راقم کی والدہ محترمہ آپکی چھوٹی بہن ہیں۔حکیم صاحبؒ کے مطابق اُن کا سن پیدائش 1929 ہے۔یوں حکیم صاحبؒ نے اپنی ظاہری حیات کے پچاسی سال بسر کیے۔حکیم صاحبؒ کی پہلی شادی 1951 میں ہوئی جس سے آپکے بڑئے بیٹے جناب صاحبزادہ حکیم میاں محمد عنائت خان قادری نوشاہی ہیں اُن کی پہلی بیوی شادی کے چند سال بعد ہی وفات پا گئیں۔دوسری شادی پھر 1970 میں ہوئی جس سے آپکے ہاں چھوٹے صاحبزادہ جناب حکیم میاں محمدیونس خان قادری نوشاہی پیدا ہوئے۔راقم سے اُن کی محبت اتنی زیادہ تھی کہ راقم جب صرف چھ سال کا تھا تو جناب حکیم صاحبؒ نے میری والدہ محترمہ جو کہ آپ کی چھوٹی بہن ہیں کو کہا کہ یہ بچہ مجھے بہت پیارا لگتا ہے اِس لیے اِسے میرئے ہاں بھیج دو ۔یوں راقم صرف چھ سال کی عمر میں ہی حکیم صاحبؒ کے زیر سایہ اُن کے ہاں مقیم ہو گیا۔مجھے حکیم صاحب کے ساتھ طویل ترین رفاقت کا اعزاز حاصل ہے۔نبی پاکﷺ کے عشق میں ڈوبے ہوئے اور پاکستان کی محبت کے علمبردار جناب حکیم صاحبؒ کی ظاہری حیات کا ایک ایک لمحہ ہمارئے لیے مشعل راہ ہے۔راقم نے اپنا شہر لاہور چھوڑ کر سرگودہا سکونت اختیار کر لی تھی اِس لیے راقم کی جناب حکیم صاحبؒ سے محبت کے کئی انداز تھے۔ وہ میرئے بہت ہی پیارئے غمگسار ماموں جان تھے دوست تھے اور بعد ازاں راقم نے اُن کے ہاتھ پر سلسلہ قادری نوشاہی میں بیعت بھی کی اور جناب حکیم صاحبؒ نے مجھے اپنی خلافت بھی عطا فرمائی۔ یوں ماموں جان سے میری محبتوں کا سلسلہ بڑھتا ہی چلا گیا۔راقم کو اپنے ماموں جان کے ہاں مقیم ہوئے ابھی دوسال ہی ہوئے تھے کہ راقم کے والد صاحبؒ وصال فرماگئے۔یوں میں صرف آٹھ سال کی عمر میں اپنے والد صاحب کی شفقت سے محروم ہوگیا لیکن والد صاحبؒ کی وفات کے بعد جناب حکیم صاحب ؒ نے مجھے بے پناہ شفقت سے نوازا۔یوں میں چھ سال کی عمر میں 1974 میں لاہور سے سرگودہا گیا اور پھر جب میری واپسی ہوئی تو 1995 آچکا تھا۔مجھے حکیم صاحب نے پہلی جماعت سے لے کر بی کام اور ایم ایس اکنامکس تک تعلیم دلوائی۔بعد ازاں اُن کی دُعاوں کے طفیل راقم نے ایم بی اے، ایم ایس ایجوکیشن، ایل ایل بی، ایل ایل ایم کیا۔راقم کے وکالت کے پیشے کو اختیار کرنے کے حوالے سے بہت خوش تھے۔اور ہمیشہ راقم کی ہمت بندھاتے رہے۔راقم نے آپ کی سرپرستی میں ہی لاہور میں نوشاہی قران مرکز کاآغاز کیا۔جناب حکیم صاحؓ کی شخصیت کا سب سے بڑا پہلو یہ ہے کہ وہ بہت بڑئے عاشق رسولﷺ تھے۔ روحانیت کے عظیم مرتبے پر بلند تھے اور اُن کے ہاں زاویہ نوشاہی سرگودہا میں ہر وقت عاشقان رسولﷺ کا ہجوم رہتا۔ ملک بھر بلکہ غیر ملکوں سے بھی لوگ آپ سے فیض حاصل کرنے کے لیے آتے۔حضور غوث پاکؓ سے خاص عقیدت تھی میں نے اب تک ہمیشہ اُن کے ہاں گیارہویں شریف کا ختم پاک ہوتے دیکھا۔ علم کے پیاسے اور دنیاوی معاملات
میں دکھوں کے حامل افراد آپؒ سے فیض لیتے رہے۔ (جاری ہے )
Subscribe to:
Posts (Atom)