Friday, 7 November 2014

پنجاب بار کونسل کے 22 نومبر2014 کو ہونے والے الیکشن میں لاہور کی 16 نشستوں کے لیے 69 امیدواروں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ analyscis about the election of punjab bar council for lahore seatsby ashraf asmi avocate


 

پنجاب بار کونسل کے 22 نومبر2014 کو ہونے والے الیکشن میں

لاہور کی 16 نشستوں کے لیے 69 امیدواروں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ

میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

پنجاب بار کونسل کے انتخابات میں وکلاء کا جوش وخروش عروج پر ہے۔لاہور چونکہ وکلاء سیاست کے حوالے سے اہم شہر ہے اور اِس شہر میں وکلاء کے نامی گرا می گروپ عرصہ دراز سے وکلاء سیاست میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔اِس وقت لاہور میں عاصمہ جہانگیر گروپ جس کو پیپلز پارٹی اور پی ایم ایل این کی سپورٹ بھی حاصل ہے اِس وقت بہتر پوزیشن میں اس لیے ہے کہ حال ہی میں سپریم کورٹ بار کے الیکشن میں یہ ہی گروپ کا میاب ہوا ہے۔ اِس لحاظ سے دیکھا جائے تو حامد خان گروپ کو حال ہی مین زبردست مقابلے کے بعد شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ستر سے بھی کم ووٹوں کے سبقت سے فضل حق عباسی سپریم کورٹ بار کے صدر بنے ہیں۔ لاہور کے وہ وکلاء جو 22 نومبر 2014 کو ہونے والے پنجاب بار کونسل کے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں اُن کی تعداد69 ہے اور سیٹوں کی تعداد سولہ ہے۔اِس الیکشن میں چونکہ وکلاء کی سٹینڈنگ کے حوالے سے ابہام رہا لیکن بعد ازاں دس سال کے سٹینڈنگ والے وکلاء کو الیکشن میں حصہ لینے کا ایل قرار دے دیا گیا اِس لیے اِس الیکشن میں نوجوان وکلاء بھی بہت جوش خروش کے ساتھ پنجاب بار کے الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔وکلاء سیاست کا مرکزی محو ر وکلاء اتحاد ہی ہوتا ہے اِس لیے وکلاء ہمیشہ الیکشن میں متحارب گروپوں میں ضرور بٹے ہوتے ہیں لیکن وکلاء کسی بھی قومی معاملے یا رول آف لاء کے لیے ہمیشہ یک جان دو قالب ہیں۔ اِس لیے اِس الیکشن میں بھی بھر پور طریقے سے الیکشن کی مہم جاری ہے۔ عام تاثر دیکھنے میں یہ ہی آرہا ہے کہ وکلاء کا زیادہ رحجان نئے خون کی جانب ہے ۔ اِس کی وجوہات بہت سی ہیں لیکن زیادہ سینےئر وکلاء کی پذیرائی زیادہ اِس دفعہ دیکھنے میں نہیں آرہی۔اِس الیکشن میں نوجوان وکلاء اِس بات کو بہت زیادہ اہمیت دئے رہے ہیں کہ وہ جس امیدوار کو ووٹ دینے جارہے ہیں وہ واقعی وکیل ہی ہے یا وکالت کا لائسینس لے کر صرف نام کا وکیل ہے اور الیکشن میں دولت کے بل بوتے پر تو کامیاب نہیں ہونے چاہتا۔ اِس سوچ کی وجہ سے بہت سے اِیسے امیدوار جو صرف الیکشن کے دنوں میں ہی عدالتوں کے آس پاس یا بار میں نظر آتے ہیں اُن امیدواروں کی نوجوان وکلاء حوصلہ شکنی کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔وکلا کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ وطن عزیز میں جمہوری کلچر کو پروان چڑھایا جائے اس لیے آندھی ہو یا طوفان ہو ملک میں آمریت کا ظلم بپا ہو یا جمہور رواں دواں ہو وکلاء کے الیکشن ہمیشہ ہوتے ہیں ۔ سب سے زیادہ خوش آئین بات یہ ہے کہ الیکشن ہونے کے بعد وکلاء گروپ پھر سے آپس میں شیروشکر ہوجاتے ہیں گویا بار کے الیکشن جمہوری سوچ کی نمو میں تیزی اور برداشت اور جیو اور جینے دو کے فروغ کے کلچر کے نہ صرف معمار ہیں بلکہ جمہوریت کے روشن دیپ جلانے کے لیے وکلاء نے جانوں کے نذرانے ہمیشہ پیش کیے ہیں۔اللہ پاک کا بے حد شُکر ہے کہ میڈیا کی آزادی کے بہت سے ثمرات انسانی حقوق کی آزادیوں کے شعور کی بیداری کے حوالے سے قوم کو تفویض ہوئے ہیں اِس لیے وکلاء جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور ووٹ کی طاقت کو ہی اپنے وطن اور اپنی کیمونتی کے لیے بترین گردانتے ہیں۔ غلام محمد، سکندر مرزا، ایوب خان، ضیاء الحق اور مشرف کے نظریے کو کبھی بھی پذیرائی نہیں ملی حالانکہ ان آمروں نے ملک کو کئی صدیاں پیچھے دھکیل دیا ہے لیکن نام اب بھی جموری سوچ کا باقی ہے عوام الناس کے اندر یہ شعور جاگزیں ہو چُکا ہے کہ ملک کے تما م تر معاشی سماجی ثقافتی و عمرانی دکھوں کا علاج صرف اور صرف جمہور کومضبوط کرنے میں ہے۔ راقم انسانی حقوق کی آزادیوں کا علمبرادر ہے اور مصطفے کریمﷺ نے جس سسکتی ہو انسانیت کا بول بالا کیا اور تمام انسانوں کے درمیان مساوات عملی طور پر قائم کرکے دیکھائی اُسی نصب العین کا پرچار کرنے والا ہے اِس لیے وکلاء تحریک جس نے اپنے وقت کے جابر مشرف کو شکست دی وہ وکلاء تحریک درحقیقت امام عالیٰ مقام حضرت امام حسینؓ کے مشن کی علمبردار ہے اور وکلاء کی تمام تحاریک کے لیے پلیٹ فارم بار ہی مہیا کرتی ہیں۔موجودہ حالات میں جس طرح ماتحت عدلیہ میں رشوت کا بازار گرم ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ عدلتی کلرکوں نے پرائیوٹ لوگوں کو کام کے لیے رکھا ہوا ہے یوں جن ایوانوں سے انصاف ملنا ہوتا ہے اُن ایوانوں میں کرپشن کا بازار گرم ہے انسا نی سوچ کا احاطہ کرنا اس لیے بھی دشوار ہے کہ اس کی جبلت میں خسارے کا سودا کرنا ہے لیکن وہ لوگ خسارے میں نہیں رہتے جن کا اوڑھنا بچھونا ربِ کائنات کی رضا ہو۔ انسا نی تاریخ وتمدن میں ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے انسان نے بہت سے سنگِ میل عبور کیے ۔ قیامَ پاکستان کے فورا بعد جب تعمیرَ پاکستان کے لیے پوری قوم جوش و جذبے سے سرشار تھی اُس وقت یہ تصور بھی نہیں تھا کہ ناجا ئز ذرائع سے روزی کمائی جائے۔ بلکہ ایسے افراد جو رشوت ستانی میں ملوث پائے جاتے تھے سوسائٹی میں اُن کی مذمت کی جاتی اور سماجی با ئیکاٹ بھی کیا جاتا۔لوگ ایسے افراد سے میل جول نہ رکھتے جو رزقِ حلال کی بجائے رزقِ حرام کا اسیر ہوتا۔ حضرت قا ئداعظمؒ اور قائد ملت لیاقت علی خانؒ کے بعد قوم کی حکمرانی ایسے لوگوں کے پاس چلی گئی جو ہر ناجائز عمل کو خود کے لیے جائز گردانتے تھے بس پھر کیا تھا اُس کے بعد پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ قناعت کا جنازہ اس طرح ہمارے معاشرے سے نکلا کہ بس خدا کی پناہ۔ قیام پاکستان کے مقاصد کہیں گم ہو کر رہ گئے ہیں۔جب اقتدار کے ایوانوں میں سے انصاف اُٹھ گیا تو پھر نچلے طبقے میں بھی رشوت اور سفارش سرایت کرتی چلی۔ اِس لیے ضرورت اِس امر کی ہے کہ بار کونسلوں کے ہونے والے انتخابات میں اِس بات کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے کہ معاشرئے انصاف کی سربلندی کے لیے وکلاء کردار ادا کریں۔اِس وقت لاہور میں جوش خروش کے لحاط سے فرہاد شاہ ایڈووکیٹ ،جناب چوہدری بابر وحید ایڈووکیٹ، میاں حفیظ ایڈووکیٹ، عبدالصمد بصریا ایڈووکیٹ،رانا انتظار ایڈووکیٹ، میاں فیض علی ایڈووکیٹ، منیر بھٹی ایڈووکیٹ،راشد نیازی ایڈووکیٹ، طاہر نصراللہ وڑائچ،آغا فیصل ایڈووکیٹ،میاں عبدالجبار ایڈووکیٹ،راشد نیازی ایڈووکیٹ بھرپور انداز میں اپنے الیکشن کی مہم میں مصروف ہیں۔ایک بات جو پنجاب بار کونسل کے رولز کی خلاف ورزی ہے وہ یہ کہ امیدواروں کی طرف سے کھانے کھلانے کا طریقہ درست نہیں ہے اِس طرح روپے کی الیکشن میں مداخلت سے الیکشن کی روح کو نقصان پہنچتا ہے۔

No comments:

Post a Comment