لندن میں مقیم گہرئے مشاہدات کے حامل صحافی جناب محمد افضل
میاں محمد اشرف عاصمی
ایڈووکیٹ ہائی کورٹ چےئرمین انسانی حقوق فرنٹ انٹرنیشنل
دیار غیر میں جا بسنے والے پاکستانی جہاں پاکستان میں غیر ملکی زرِمبادلہ
بھیجتے ہیں وہاں وہ پاکستان کے نمائندئے کو طور پر بھی اپنا کردار ادا
کرتے ہیں۔ اپنی محنت کی کمائی اور اپنے پیاروں سے جُدائی دونوں باتیں اُن
کے لیے اہمیت اختیار کر جاتی ہیں۔ایک ایک لمحہ اپنوں سے دور رہ کر گزار نا
اُن کو کاٹنے کو دوڑتا ہے۔ لیکن ملک کے معاشی حالات میں ابتری کے سبب بہت
سے لوگ غیر ملک سدھار جاتے ہیں۔بلکہ میں ایسے بہت سے ایماندار لوگوں کو
جانتا ہوں جو صرف رشوت کے خوف سے اور کرپشن سے دور رہنے کے لیے باہر جانے
کو تر جیح دیتے ہیں گویا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان مملکتِ خدا داد کے
حکمرانوں نے اِس ملک کو اِس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ یہاں رہنے والے باشندئے
اسلامی تعلیمات کے عیں مطابق رزق کما سکیں اور روز مرہ کے معاملا ت میں
بھی اسلامی تعلیمات کو ملحوظِ خاطر رکھ سکیں۔اِس لیے غیر ممالک میں جا کر
ایک طرف تو اُن کو بہت سے مسائل سے نجات مل جاتی ہے اور قدم قدم پر ہونے
والی زیادیتوں پر کُڑھنا نہیں پڑتا اور دوسری جانب معاشی و سماجی انصاف
کی بدولت اُن معاشروں میں پائے جانے والے عمرانی رویے بھی اُن کے لیے
طمانیت کا باعث بنتے ہیں۔اِسی طرح کے ہمارئے بہت سے احباب سے صرف معاشی
ناہنجاریوں اور بے ثباتیوں کی وجہ سے وطن کی مٹی سے دور ہوتے چلے
گئے۔برطانیہ میں دو دہائیوں سے مقیم معروف صحافی جناب محمد افضل صاحب کا
تعلق بھی ایسے ہی قبیلے سے ہے جو کہ وطن اور اُمت کے مسائل کی وجہ سے خود
کو سوچوں میں غرق کیے ہوئے صحافتی محاذ پر ملک وملت کی رہنمائی کے لیے
اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ راقم کو جناب محمد افضل صاحب کی تحریریں پڑھنے
کا موقع ملا تو اُن کا ایک ایک لفظ اُمت کی اجتمائی بے حسی کا نوحہ کرتا
نظر آتا ہے۔خود کو دیار غیر میں جاکر منوانا اور اپنے صحافتی مشن کے لیے
ملکوں ملکوں پھرنا اور نامور شخصیات سے بالمشافہ ملاقاتیں کرنا یہ وہ
صحافتی وصف ہے جس کے سبب جناب محمد افضل بہت اچھے لکھاری ہونے کے ساتھ
حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ملکوں ملکوں گھوم کر اپنے مشاہدات کی
روشنی میں محمد افضل صاحب کا یہ استدلال ہے کہ ہم نے نبی پاکﷺ کی محبت
اور عقیدت کو اطاعت میں نہیں ڈھالا۔ جس کی وجہ سے ہمارئے اعمال ہمارئے
اقوال کی تصدیق نہیں کرتے اور یوں دنیا بھر میں مسلمانوں کو ہر شعبے میں
پسپائی کا سامنا ہے بلکہ ایک رب پر ایمان رکھنے والے مسلمانوں نے دنیا
میں کئی ملکوں کو اپنا خدا بنا رکھا ہے۔اپنے حقیقی رب کو چھوڑ کر سپر پاور
کے آگے جھکنے والے مسلمان ممالک خود سے ہی مخلص نہیں ہیں۔اور معاشی اور
سماجی انصاف کے حامل ترقی یافتہ ممالک اسلامی تعلیمات کے عملی فوائد حاصل
کر رہے ہیں۔ جب کہ ہم راگ توحید کا الاپتے ہیں اور اعمال دنیا کی بدترین
اقوام والے کر رہے ہیں یہ ہی وجہ ہے کہ جو بھی پاکستانی وطن کی محبت میں
واپس آتا ہے وہ کچھ عرصہ بعد ہی واپس چلا جاتا ہے۔ کیونکہ یہاں نہ تو کسی
کی جان محفوظ ہے اور نہ کسی کا مال اور نہ کسی کی عزت۔حکمرانوں نے عوام کو
اِس قدر مایوس کر دیا ہے کہ لوگ پاکستان کے وجود پر ہی اب سوال اُٹھانے لگے
ہیں۔رواداری تحمل اور برداشت کے حوالے سے ہم بہت پیچھے رہ گے ہیں۔لندن
سکول آف جرنلزم سے اکتساب کے حامل جناب محمد افضل اُمتِ مسلمہ بالعموم
اور پاکستان کے حوالے سے بالخصوص اِس بات کے داعی ہیں کہ امن پیار محبت
رواداری کو فروغ دیا جائے اور نبی پاکﷺ کی تعلیمات کو اطاعت میں ڈھالا
جائے۔ پاکستانی قوم کو جناب محمد افضل صاحب جیسے محب وطن اور انسانیت کا
درد رکھنے والے اِس دانشور پر فخر ہے۔اللہ پاک سے دُعا ہے کہ اللہ پاک محمد
افضل اور اُن کے اہل خانہ کو اپنی امان میں رکھے اور ملک و ملت کی
رہنمائی کے لیے اُن کو ہمیشہ ہمت عطا فرمائے۔
No comments:
Post a Comment