اقتدار کی غلام گردشوں کے مکینوں کی اندھیر نگری
ازقلم میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
پاکستان کی سا لمیت کے حوالے سے سیاستدانوں کا جو عمومی رویہ دیکھا گیا ہے وہ ہے یہ کہ اُنھیں سوائے عوام کی فلاح کے باقی ہر کام کی فکر ہوتی ہے۔دُکھ کے ساتھ یہ بات کہنا پڑتی ہے کہ ایک نظریاتی ملک پاکستان کے حکمران پرلے درجے کے غیر نظریاتی ہیں۔ سیاستدانوں کی جانب سے جس طرح کی پراگریس دیکھائی جاتی ہے کہ پچھلی نصف صدی سے زائد کا وہ عرصہ ہے جو ملک کو اندھیروں میں لے جانے کے ساتھ ساتھ ملک سے ایک حصہ علیحیدہ ہونے کا شاخسانہ بھی ہے۔سیاستدانوں کی کی جانب سے بہتر طرزِ حکمرانی نہ ہونے کی وجہ سے سول بیوروکریسی ملٹری بیوروکریسی کے لیے اقتدار پر قابض ہونے کی دلیلیں گھڑتی ہے اور یوں ملٹری اسٹیبلیشمنٹ چاروناچار عوام کے وسیع تر مفاد کی خاطر اقتدار پر قابض ہو جاتی ہے ۔کیونکہ عوام سیاستدانوں کی بھتہ خوری ، لوٹ مار سے تنگ آئے ہوئے ہوتے ہیں اِس لیے عوام ملٹری حکمران کوخوش آمدید کہتے ہیں یوں محاذِ جنگ میں دُشمن کے خلاف لڑنے والے ایک فوجی کو حکمرانی کے فرائض بھی مل جاتے ہیں جو کہ بقول منیر نیازی، کجھ شہر دئے لوک وی ظالم سن کجھ مینوں مرن دا شوق وی سی۔ فوجی حکمرانوں کے آتے ہی کچھ عرصہ تک بلیک مارکیٹنگ کرنے والے ،بھتہ خور، قبضہ گروپ زیر زمین چلے جاتے ہیں اور فوجی حکمران سمجھتے ہیں کہ اُن کے اقتدار کی وجہ سے ہر طرف امن کی بانسری بج رہی ہے۔لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے عوام کو پھر سے سول حکمرانوں کی یاد ستانے لگتی ہے اُن کا خیال ہوتا ہے کہ فوجی حکمران کے پاس الہ دین کا چراغ ہوگا جو ملک کو واقعی پیرس بنادئے گا لیکن پیرس تو دور کی بات غار کے زمانے کی جانب عوام کا سفر جاری رہتا ہے یوں عوام کو آمریت کاٹنے کو دوڑنے لگتی ہے اور فوجی حکمران کیونکہ قوم کی تقدیر بدلنے کا عزم لے کر آئے ہوئے ہوتے ہیں تو وہ خود کو قوم کے لیے جزولاینفک تصور کرنے لگتے ہیں اور پھر جب اُن کی گرفت اقدار پر کمزور پڑنے لگتی ہے تو پھر اُن کے لیے شیخ رشید اور چوہدریوں کی طرح کے سیا ستدان جو کہ ہمیشہ اقدار میں رہ کر ہی جینا سیکھے ہوتے ہیں اور وہ پھر فوجی حکمرانوں کے کان اور آنکھیں بن جاتے ہیں اور یو ں غیر محسوس طریقے سے یہ چاپلوس نام نہاد عوام دوست ٹولہ شارٹ کٹ کے ذریعے سے اقتدار تک پھر پہنچ جاتا ہے اور فوجیحکمرانوں کے لیے مشوروں کا ایسا نبار لگایا جاتا ہے کہ بس پھر اِن فوجی حکمرانوں کو کسی اور دُشمن کی ضرورت ہی نہیں رہتی ۔اِسی طرح پوری قوم جس ICIOUS CIRCLE V سے نکلنے کی خواہش کرکے فوجی حکمرانوں کی آمد پر شادیانے بجاتی ہے وہی قوم اُسی منحوس چکر کی گرداب میں ہی پھنسی رہتی ہے اور معاشیات کی ایک ٹرم کے مطابق کہ ایک ملک غریب ہے کیونکہ وہ غریب ہے۔ یوں آمریت کی وجہ سے جو قوم کے قلوب اذہان پر بدقسمتی کا زنگ لگا ہوتا ہے وہ پھر نفوس پزیری کے حامل رہنماؤں کو اِس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ مسائل کا حل تو سول حکمرانوں کے پاس ہے فوج کے پاس نہیں۔ یوں دُنیا بھر کی بُرائیاں پھر فوج کی حکمرانی میں نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں بلکہ عوام کے د ماغ میں عود آتی ہیں۔ پس جہاں سے قوم کی خوشحالی کے خوش کُن نعروں کا سفر شروع ہوا ہوتا ہے پھر سے قوم سٹارٹ لین پر آجاتی ہے ایک نیا دھوکہ کھانے کے لیے ۔بقول عدم۔ آوؤ عدم اِن سندر سُندر مورتیوں سے پیار کریں اُجلے اُجلے دھوکے کھائے اِک زمانہ بیت گیا۔قوم کے خواب خواب ہی رہتے ہیں اور ملک میں اچھا طرزِ حکمرانی لاتے لاتے قوم کو دہشت گردی کا تحفہ مل جاتا ہے اور قوم اِس دہشت گردی کی عفریت سے بچنے کے لیے پھر سے ایک پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی حامل آرمی کو دیکھنا چاہتے ہیں یوں فوجی اقتدار کے بعد جو حال شیخ رشیدوں اور چوہدریوں کا اقدار کے بغیر ہوتا ہے وہ سب کے سامنے ہے پہلے پہل تو وہ آنے والے حکمرانوں کی گاڑی میں سوار ہونے کے لیے بے تاب ہوتے ہیں بعد ازان جب اُن کو کوئی لفٹ نہیں ملتی تو وہ انگور کھٹے ہیں کہہ کرآنے والے حکمرانوں کو بُرا کہناشروع کردیتے ہیں اور ایک نئے مارشل لاء کی راہ ہموار کرنے کے لیے قوم کے غم میں پاگل ہو جاتے ہیں ۔یہ قصہ کہانی ہے اِس پاکستان کی جس کا بانی ایک نامور قانون دان تھا جس کا خیال پیش کرنے والا ایک نامور قانون دان تھا ۔
No comments:
Post a Comment