Monday, 3 November 2014

مسیحاؤں کے روپ میں چُھپے جلاد میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ.

مسیحاؤں کے روپ میں چُھپے جلاد

 محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

میری یہ تلخ نوائی اُن لوگوں کو شائد بہت زیادہ گراں گزرئے جو خود کو عقلِ کُل اور انسانیت کے مسیحا سمجھتے ہیں۔مجھے اِس بات کا بھی اندازہ ہے جب میں اِس مقدس پیشے سے منسلک چند کالی بھیڑوں کی نشاندھی کروں گا تو اُدھر سے بھی میرئے پیشہ وکالت کے متعلق بہت کچھ کہا جائیگا اور ساتھ ہی خود کو دُنیا کے سب سے ذھین ترین سمجھنے والے لوگ جو ڈاکٹری سے منسلک ہیں یہ بھی کہیں گے کہ ہمارئے ساتھ یہ زیادتی ہے۔ راقم کی طرف سے عرض یہ ہے ہر پیشے میں اچھے برُئے لوگ ہوتے ہیں۔اب اگر ڈاکٹری کے پیشے میں بُرئے لوگ آگئے ہیں تو اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سب ڈاکٹر ایسے ہی ہیں۔ اب آتے ہیں موضوع کی طرف کہ کیا اِس موضوع پر لکھنا بنتا بھی ہے یا نہیں۔راقم نے اِس حوالے کافی سوچ بچار کی اور بہت سے دوستوں سے اِس حوالے سے معلومات اکھٹی کیں۔ تو جناب بات یہ ہے کہ اِس کالم کے راوی خود ڈاکٹر ہیں اور فارما سیوٹیکل کمپنیوں میں کام کرنے والے اعلیٰ عہدوں پر متمکن افراد ہیں۔ اکثر ڈاکٹر جو دوائیں مریضوں کو لکھ کر دیتے ہیں وہ ایسی کمپنی کی لکھتے ہیں جن کی مارکیٹ سے دستیابی ممکن نہیں ہوتی اِس لیے وہ نسخہ لکھتے وقت ساتھ ہی فرمادیتے ہیں کہ یہ دوائی ادھر سے ہی مل جائے گی اور اپنے ہی کلینک یا ہسپتال میں اُنھوں ایک سٹور بنایا ہوتا ہے وہاں سے مریض خریدنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ کیونکہ وہ دوائی اُس ڈاکٹر نے بہت زیادہ تجویز کرنی ہوتی ہے اِس لیے اُس کی کافی مقدار خرید لی جاتی ہے ۔اور دوائی کمپنی سے اگر چھ سو کی لی ہے تو مریض کو وہ دوائی چھ ہزار میں دی جاتی ہے۔ مریض تو مجبور ہوتا ہے اُسے تو بس شفا چاہیے ہوتی ہے۔ اِس طرح مریض بے چارئے کی کھال اُتار لی جاتی ہے اور ڈاکٹر صاحب کی مشورہ فیس علحیدہ ہے۔ یوں ڈاکٹر صاحب دوائی میں خوب منافع کماتے ہیں اور پھر ٹارگٹ جب پورا ہوتا ہے تو فارما سیوٹیکل کمپنیاں ڈاکڑ صاحب کے لیے کار کا تحفہ دیتی ہیں یا بیرونِ ملک سیر کا انتظام کرتی ہیں۔ اور چھوٹی موٹی کمپنیاں عام جنرل پریکٹشینر کو بھی کافی نوازرہی ہیں اور پاکستان کے سیاحتی مقامات پر اُن کے لیے عیاشی کا سامان مہیا کرتی ہیں اور ہوٹلوں کے وارئے نیارئے ہو جاتے ہیں۔ اِسی طرح ڈاکٹر صاحب کے گھر میں فرنیچر کی فراہمی یا اُن کے بچوں کی فیس کی ادائیگی بھی مختلف کمپنیوں نے اپنے ذمہ لے رکھی ہوتی ہے۔کچھ کمپنیاں مستقل طور پر ایک دو ملازم ڈاکٹر صاحبان کی ڈسپوزل پر رکھتی ہیں وہ روزانہ ڈاکٹر صاحب کی خدمت کی بجا آوری کے لیے اُن کے کلینک یا ہسپتال یا گھر میں حاضر ہوتے ہیں۔دوسری طرف اب آئیں گردوں کی پیوندکاری پاکستان میں بہت سستی ہے اور خلیجی ممالک سے لوگ حتیٰ کہ برطانیہ سے لوگ بھی پاکستان کا رُخ کرتے ہیں۔ ڈاکٹروں نے گردئے چوری کرنے کا دھندہ شروع کر رکھا ہے یا اپنے کارندئے چھوڑ رکھے ہیں جو غریب لوگوں کو لالچ اور دھوکے سے ڈاکٹر کے پاس لے آتے ہیں اور ڈاکٹر صاحب انسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہو کر اُس کو گردئے سے محروم کر دیتے ہیں۔ اِس حوالے سے اکثر خبریں میڈیا کی زینت بنتی ہیں لیکن کچھ نہیں بن پاتا۔بلکل اُسی طرح نہیں بن پاتا جس طرح معاشرئے کے دیگر شعبہ جات میں ہونے والی کرپشن کے خلاف کچھ نہیں ہو پاتا۔کیوں ڈاکٹر مریض کا تعلق ہی ایسا ہوتا ہے اِس لیے قوم کے مسیحاؤں کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں اور وہ اپنے تعلقات کی بناء پر بچ جاتے ہیں۔حال ہی ڈاکٹروں کا گروہ پکڑا گیا ہے گردوں کی چوری کے حوالے سے لیکن کیونکہ ملک میں نہ تو کوئی قانون ہے اور نہ ہی قانون پر عملداری کروانے والے حکمران ہیں اِس لیے غریب نے تو ہر حال میں ہی رونا ہے۔میری یہ گزارشات معاشرئے میں موجود گند کے حوالے سے ہیں ورنہ اللہ پاک کے فضل وکرم سے پاکستان میں ڈاکٹر بہت ہی اچھا کام کر رہے ہیں یہ تو بس اس مقدس مشن کو بدنام کرنے والی کالی بھیڑوں کے حوالے سے ایک گزارش ہے۔میری یہ تلخ نوائی اُن لوگوں کو شائد بہت زیادہ گراں گزرئے جو خود کو عقلِ کُل اور انسانیت کے مسیحا سمجھتے ہیں۔مجھے اِس بات کا بھی اندازہ ہے جب میں اِس مقدس پیشے سے منسلک چند کالی بھیڑوں کی نشاندھی کروں گا تو اُدھر سے بھی میرئے پیشہ وکالت کے متعلق بہت کچھ کہا جائیگا اور ساتھ ہی خود کو دُنیا کے سب سے ذھین ترین سمجھنے والے لوگ جو ڈاکٹری سے منسلک ہیں یہ بھی کہیں گے کہ ہمارئے ساتھ یہ زیادتی ہے۔ راقم کی طرف سے عرض یہ ہے ہر پیشے میں اچھے برُئے لوگ ہوتے ہیں۔اب اگر ڈاکٹری کے پیشے میں بُرئے لوگ آگئے ہیں تو اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سب ڈاکٹر ایسے ہی ہیں۔ اب آتے ہیں موضوع کی طرف کہ کیا اِس موضوع پر لکھنا بنتا بھی ہے یا نہیں۔راقم نے اِس حوالے کافی سوچ بچار کی اور بہت سے دوستوں سے اِس حوالے سے معلومات اکھٹی کیں۔ تو جناب بات یہ ہے کہ اِس کالم کے راوی خود ڈاکٹر ہیں اور فارما سیوٹیکل کمپنیوں میں کام کرنے والے اعلیٰ عہدوں پر متمکن افراد ہیں۔ اکثر ڈاکٹر جو دوائیں مریضوں کو لکھ کر دیتے ہیں وہ ایسی کمپنی کی لکھتے ہیں جن کی مارکیٹ سے دستیابی ممکن نہیں ہوتی اِس لیے وہ نسخہ لکھتے وقت ساتھ ہی فرمادیتے ہیں کہ یہ دوائی ادھر سے ہی مل جائے گی اور اپنے ہی کلینک یا ہسپتال میں اُنھوں ایک سٹور بنایا ہوتا ہے وہاں سے مریض خریدنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ کیونکہ وہ دوائی اُس ڈاکٹر نے بہت زیادہ تجویز کرنی ہوتی ہے اِس لیے اُس کی کافی مقدار خرید لی جاتی ہے ۔اور دوائی کمپنی سے اگر چھ سو کی لی ہے تو مریض کو وہ دوائی چھ ہزار میں دی جاتی ہے۔ مریض تو مجبور ہوتا ہے اُسے تو بس شفا چاہیے ہوتی ہے۔ اِس طرح مریض بے چارئے کی کھال اُتار لی جاتی ہے اور ڈاکٹر صاحب کی مشورہ فیس علحیدہ ہے۔ یوں ڈاکٹر صاحب دوائی میں خوب منافع کماتے ہیں اور پھر ٹارگٹ جب پورا ہوتا ہے تو فارما سیوٹیکل کمپنیاں ڈاکڑ صاحب کے لیے کار کا تحفہ دیتی ہیں یا بیرونِ ملک سیر کا انتظام کرتی ہیں۔ اور چھوٹی موٹی کمپنیاں عام جنرل پریکٹشینر کو بھی کافی نوازرہی ہیں اور پاکستان کے سیاحتی مقامات پر اُن کے لیے عیاشی کا سامان مہیا کرتی ہیں اور ہوٹلوں کے وارئے نیارئے ہو جاتے ہیں۔ اِسی طرح ڈاکٹر صاحب کے گھر میں فرنیچر کی فراہمی یا اُن کے بچوں کی فیس کی ادائیگی بھی مختلف کمپنیوں نے اپنے ذمہ لے رکھی ہوتی ہے۔کچھ کمپنیاں مستقل طور پر ایک دو ملازم ڈاکٹر صاحبان کی ڈسپوزل پر رکھتی ہیں وہ روزانہ ڈاکٹر صاحب کی خدمت کی بجا آوری کے لیے اُن کے کلینک یا ہسپتال یا گھر میں حاضر ہوتے ہیں۔دوسری طرف اب آئیں گردوں کی پیوندکاری پاکستان میں بہت سستی ہے اور خلیجی ممالک سے لوگ حتیٰ کہ برطانیہ سے لوگ بھی پاکستان کا رُخ کرتے ہیں۔ ڈاکٹروں نے گردئے چوری کرنے کا دھندہ شروع کر رکھا ہے یا اپنے کارندئے چھوڑ رکھے ہیں جو غریب لوگوں کو لالچ اور دھوکے سے ڈاکٹر کے پاس لے آتے ہیں اور ڈاکٹر صاحب انسانیت کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہو کر اُس کو گردئے سے محروم کر دیتے ہیں۔ اِس حوالے سے اکثر خبریں میڈیا کی زینت بنتی ہیں لیکن کچھ نہیں بن پاتا۔بلکل اُسی طرح نہیں بن پاتا جس طرح معاشرئے کے دیگر شعبہ جات میں ہونے والی کرپشن کے خلاف کچھ نہیں ہو پاتا۔کیوں ڈاکٹر مریض کا تعلق ہی ایسا ہوتا ہے اِس لیے قوم کے مسیحاؤں کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں اور وہ اپنے تعلقات کی بناء پر بچ جاتے ہیں۔حال ہی ڈاکٹروں کا گروہ پکڑا گیا ہے گردوں کی چوری کے حوالے سے لیکن کیونکہ ملک میں نہ تو کوئی قانون ہے اور نہ ہی قانون پر عملداری کروانے والے حکمران ہیں اِس لیے غریب نے تو ہر حال میں ہی رونا ہے۔میری یہ گزارشات معاشرئے میں موجود گند کے حوالے سے ہیں ورنہ اللہ پاک کے فضل وکرم سے پاکستان میں ڈاکٹر بہت ہی اچھا کام کر رہے ہیں یہ تو بس اس مقدس مشن کو بدنام کرنے والی کالی بھیڑوں کے حوالے سے ایک گزارش ہے۔

No comments:

Post a Comment