جماعت اسلامی،قائڈ اعظم ؒ اور پاک فوج
میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ
فرقہ ورایت وطن عزیز کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ اسلام کے بنیادی اصول امن و آشتی کی نفی کرتی ہے۔ اسلامی ریاست میں غیر مسلم کا خون مسلمان کے خون کی مانند اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ نبی پاکﷺ نے غیر مسلموں کے حقوق کے حوالے سے جس طرح اُمت کے لیے زریں اصول چھوڑئے وہ اسلامی و انسانی تاریخ کا درخشاں باب ہے۔شدت پسندی کا مظاہرہ
اِس انداز میں کرنا کہ مخالف رائے رکھنے والے کی جان کو لالے پڑ جائیں اِس کلچر کا آغاز جماعت اسلامی نے اپنی ذیلی طلبہ تنظیم کے ذریعے تعلیمی اداروں میں کیا جس کا نتیجہ کیا نکلا کہ لسانی ، نسلی و علاقائی بنیادوں پر طلبہ تقسیم ہوتے چلے گئے یوں اِس رویے کے ری ایکشن کے طور پر تعلیمی ادارئے سرخ اور سبز کی اصطلاح کے حوالے سے جنگ وجدل کے میدان بن گئے۔ راقم کو یاد ہے کہ جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم تعلیمی ادارون میں محفل میلاد پاکﷺ کو فرقہ واریت سے تعبیر کرتی اور جو بھی نبی پاک ﷺ کی یاد میں نعت کی محفل سجاتا اُسے یہ نام نہاد اسلام پسند تشدد کا نشانہ بناتے ۔ لیکن دوسری طرف پوری دُنیا میں اسلام کے حوالے سے خود کو اکیلے ہی لیڈر تصور کرتے ۔ خو د ہی جماعت اسلامی کے ایک سابق امیر قاضی حسین احمد کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی والوں کو چاہیے کہ یہ بات سمجھ لیں کہ جو جماعت اسلامی میں شامل نہیں وہ بھی مسلمان ہے۔اِسی جماعت اسلامی نے پاکستان کو کافرستان اور قائد اعظم ؒ کو کافرِ اعظم کہا اور پاکستان ہجرت کرکے آنے والوں کو بھیڑ بکریاں کہا یہ باتیں تاریخ کا وہ سیاہ باب ہیں کہ جس کی گواہی ہر دور میں ملتی ہے ممتاز مورخ ڈاکٹر صفدر محمود نے بھی اپنی تحریروں میں اِس کا ذکر فرمایا ہے۔ پاکستان کی پ بھی نہ بننے کا عہد کرنے والے پیٹرو اسلام کے ذریعے وطن عزیز میں اسلام کے ٹھیکیدار بنتے چلے گئے۔ محترمہ فاطمہ جناح ؒ کی صدارتی مہم چلانے والے اسلام پسندوں کو بے نظیر کے دور میں عورت کی حکمرانی غیر شرعی لگنے لگی۔ ضیاء کے دور میں وزارتوں کے مزئے لوٹنے والے اور امریکی جنگ کے ذریعے روس کو شکست دینے والے نواز شریف کے سیاسی ہمرکاب رہے اور ہمیشہ پریشر گروپ کی سی سیاست کی۔ جب وطن عزیز میں دہشت گردی عروج پر پہنچی اور خاکم بدہن وطن کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہوئے تو یہ ہی جماعت اسلامی مشرف کے ساتھ ملک کر خیبر پختون خواہ کی حکومت میں شامل رہی۔ماڈریٹ سوچ کا کوئی بھی ذی شعور انسان مخالفت نہیں کر سکتا لیکن مصلحت اور منافقت میں فرق بھی ہونا چاہیے۔آج وہی جماعت اسلامی نام نہاد دہشت گردوں کے غم میں نڈھال ہوئے جارہی ہے یہاں تک کہ ہر دور میں پاک آرمی کی ہاں میں ہاں ملانے والی جماعت اسلامی کے سابق امیر نے یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستانی فوج کے سپاہی نام نہاد طالبان کے ساتھ جنگ میں شھید ہورہے ہیں وہ شھید نہیں بلکہ پیٹرو اسلام کے علمبردار امریکی پٹھو نام نہاد طالبان شھید ہیں۔اور یوں ارض پاک پر قربان ہونے والے ہزاروں پاک فوج کے شھداء کے وارثوں کے دکھ پر نمک پاشی کرنے کا ظالمانہ عمل بھی اِسی جماعت اسلامی کے حصے میں آیا۔ اور اب جماعت اسلامی کے سابق امیر نے اپنے ایک حالیہ بیان میں قتال کو عام کرنے کی ترغیب دی ہے اور ایسی شدت پسند قوتوں کی حوصلہ افزائی کی ہے جو کہ پاکستان کی سلامتی کے خلاف ہیں اور اِن کے خلاف پاکستانی فوج کا آ پریشن عضب جو کہ تاریخ کا سب سے مشکل آپریشن ہے اُس میں پاک فوج مصروف ہے۔ تاریخ کا شائد اِس سے بڑا جبر نہیں ہوگا کہ قائد اعظم کو کافر کہنے والے جماعت کے بانی کے پیش رو اور موجودہ امیر سراج الحق نے جماعت کے اجتماع کے موقع پر جو اخباری سپلیمنٹ شائع کروائے اُن میں قائد اعظمؒ کی بصیرت کی روشی میں پاکستان کی بقاء کے لیے کام کرنے کا عہد ہے۔ اب یا تو جماعت کے بانی کا نقطہ نظر غلط تھا یا پھر موجودہ امیر غلطی پر ہیں۔ ایسی بات نہیں ہے جماعت ہر دور میں پینترئے بدلنے کی ماہر ہے اور اِس حوالے سے اِس کی تاریخ رنگ برنگی ہے۔
EFFORT
ReplyDelete